محترم چیف جسٹس صاحب جان کی امان پاؤں تو عرض یہ ہے کہ آپ
نے جب سابق صدر پاکستان جنرل(ر)پرویز مشرف کے این آر او کیس کی سماعت کی تو
سابق صدر کی حاضری کے متعلق جب آپ نے ان کے وکیل صاحب سے سوال کیا تو ان کا
جواب تھا کہ پرویز مشرف کے پاس واپس آنے کیلئے پیسے نہیں ہیں تو آپ نے فوری
جواب دیا کہ ہم انہیں واپس آنے کے پیسے بھی دیں گے ۔پاکٹ منی بھی دی جائے
گی اور ان کا فارم ہاؤس بھی ڈی سیل کر دیا جائے گا ۔ڈاکٹر سے چیک اپ بھی
کروائیں گے اور اس کے بعد وہ اپنا مقدمہ لڑیں عدالت کا سامنا کریں اور اگر
مقدمے میں بری الزمہ ہوتے ہیں تو دنیا میں جہاں بھی جانا چاہیں جائیں۔ جناب
والا! یہ اچھی بات ہے کہ اگر آپ کسی فریق کو ایسی سہولیات دینا چاہ رہے ہیں
یا پھر ان کا ٹرائل کرنا چاہتے ہیں مگر آپ کی ماتحت عدالتوں میں بھی کئی
ایسے چھوٹے چھوٹے مقدمات ہیں جو کہ التواء کا شکار ہیں اور کبھی کبھی ایسے
محسوس ہوتا ہے کہ جیسے انصاف امیروں کی لونڈی بن کر رہ گیا ہے۔ گلی گلی میں
ظلم و جبر کا راج ہے اور ظالم کا بول بالا ہے دن دیہاڑے ظالم ظلم کرتا ہے
کیونکہ اسے پتا ہے کہ اسے کوئی سزا دینے والا نہیں اور اس کا مقدمہ عدالت
میں کئی کئی سال چلتا رہے گا اور وہ جیل میں وی آئی پی ٹریٹمنٹ حاصل کرتا
رہے گا۔ آپ اس ملک کے ’’قاضی اعلیٰ‘‘ کے منصب پر فائز ہیں آپ زرا دنیا کے
ان ممالک پر نظر دوڑائیں جہاں ایوننگ کورٹ۔ڈی ڈی کورٹ اور چوبیس گھنٹے کی
عدالتیں لگائی جاتی ہیں حالانکہ ان ممالک میں ان عدالتوں کی کچھ خاص ضرورت
نہیں لیکن پھر بھی عوام کو ایک سہولت میسر ہے تاکہ انہیں مشکلات کا سامنا
نہ کرنا پڑے ۔مغربی ممالک جیسے سپین ۔پرتگال ۔ اٹلی۔ جرمنی آسٹریا۔ انگلینڈ
اور اس جیسے اور کئی ممالک میں انصاف کی فوری فراہمی کیلئے عدالتوں اور
ٹربیونل کو خاص اختیارات دئیے جاتے ہیں جو کہ رات گئے ان مقدمات کی سماعت
کرتے ہیں لیکن جس قسم کے سنگین مقدمات پاکستان میں طول کا شکار ہیں یہاں
تو’’عدالتی ایمرجنسی ‘‘لگ جانی چاہئے۔جناب والا بہت اچھی بات ہے کہ آپ اتنے
اعلیٰ منصب پر فائز ہو کر ایسی پیش کش مجرموں کو کر رہے ہیں مگر کیا ہی
اچھا ہو کہ اس طرح کی پیشکش آپ کی ماتحت عدالتوں میں زیر التواء مقدمات کے
مجرموں کو بھی ہوں اور مقدمات فوری طور پر نمٹائے جائیں تو یقیناً یہ اس
منصب کے ساتھ بھی انصاف ہوگااور لوگ آپ کو ہمیشہ کیلئے دعائیں بھی دیں گے
لیکن اگر ایسا نہ ہوا تو جس طرح سے ملک کا قرضہ دن بدن بڑھ رہا ہے اسی طرح
سے عدالتی کیس بھی بڑھتے رہیں گے اور لوگوں کا اس ملک کے نظام عدل سے ایمان
اٹھ جائے گا ۔جناب والا حضرت علیؓ کا قول ہے کہ ’’معاشرے کفر میں تو زندہ
رہ سکتے ہیں مگر نا انصافی میں نہیں‘‘اس لئے آپ سے گزارش ہے کہ مہربانی
فرما کر ماتحت عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کو بھی جلد از جلد نمٹانے کا
حکم صادر فرمائیں تاکہ نچلی سطح پر بھی انصاف ہوتا ہوا نظر آئے اور سادہ
لوح افراد بھی انصاف سے فائدہ لے سکیں۔محترم چیف جسٹس صاحب ماتحت عدالتوں
میں جو بیچارے سادہ طبیعت کے لوگ کسی مقدمے میں پھنسا دئیے جاتے ہیں ان
بیچاروں کو تو پتا ہی نہیں ہوتا کہ انہوں نے کہنا کیا ہے مگر جب وہ اپنا
مقدمہ بھگتتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ ان پر جھوٹا الزام لگایا گیا ہے جبکہ
ان کا کسی کام سے تعلق نہیں ہوتا تو پھر جھوٹا مقدمہ کروانے والے فرد کے
خلاف کارروائی کرنا تو بنتا ہے ۔معزز چیف جسٹس صاحب کبھی کسی بچے کو روٹی
چوری کرنے پر مار مار کر ادھ موا کر دیا جاتا ہے کبھی کسی بچے کو ہوٹل والے
چائے کا کپ ٹوٹنے پر تشدد کا نشانہ بناتے ہیں تو کیا وہ بچے قوم کا مستقبل
نہیں کیا وہ اس ریاست کے باشندے نہیں جس کا آئین کہتا ہے کہ ملک میں رہنے
والے تمام باشندوں کے حقوق مساوی ہیں ۔ معزز چیف جسٹس صاحب اللہ نے آپ کو
جس منصب سے نوازا ہے اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اگر آپ ہماری ریاست کا عدالتی
نظام بہتر کر دیں تو صدیوں تک آپ کا نام لیا جائے گا اور عوام بھی آپ کی
احسان مند رہے گی جس طرح سے ہم دیگر ممالک کی مثال دیتے ہیں اسی طرح ہمارے
ملک کے عدالتی نظام کی بھی مثال دی جائے گی جو کہ نہ صرف آپ کیلئے قابل فخر
بات ہو گی بلکہ ملک و قوم کا سر بھی فخر سے بلند ہوگا مگر کوشش لازم ہے۔
(ذراسوچئے) |