اہواز حملے کے پس پردہ سیاست

ایران خطے میں دشمن عناصر کے بڑھتے قدم نے ملک کے امن کو سبوتاژ کرنا شروع کردیا ہے. پچھلے برس (7 جون 2017)میں ایران پارلیمنٹ میں اور آیت اللہ خمینی رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر دہشت گردانہ حملہ کیا. جس میں 17 افراد جاں بحق اور متعدد لوگ زخمی ہوئے.

تسنیم نیوز ایجنسی کے مطابق اہواز میں صبح 8:30 پر مسلح افواج نے شاندار پریڈ کا آغاز کیا اور آدھا گھنٹہ بعد ہی دہشت گردوں نے حملہ کردیا.

پریس ٹی وی کے مطابق اس اندھا دھند فائرنگ میں کم از کم 25 افراد مارے گئے اور 60 افراد زخمی ہوئے ہیں.

ابلاغ نیوز کے رپورٹ کے بتاتی ہے کہ اس حملہ میں 'پاسداران انقلاب' کے بارہ اہلکار، ایک صحافی اور دیگر عام شہری جاں بحق ہوئے.

وکیپیڈیا کے مطابق 'حملہ آوروں نے پہلے اس چبوترے پر فائرنگ کی جہاں اعلی حکام موجود تھے جس کے بعد انہوں نے تماشائیوں اور پریڈ کرتے فوجی اہلکاروں پر گولیاں بر سا دیں.(وکیپیڈیا: اہواز میں فوجی پریڈ حملہ، 2018)

مقامی ڈپٹی گورنر علی حسین، حسین زادہ نے بتایا کہ دو مسلح حملہ آوروں کو فوجی اہلکاروں نے وہیں ہلاک کر دیا اور دوسرے دو حملہ آوروں کو گرفتار کرلیا گیا ہے.(BBC, Iran military parade attacked by gunmen in Ahvaz)

دوسری جانب ایرانی مسلح فوج کے ترجمان جنرل عبدالفضل شکرجی نے سرکاری ٹیلی ویژن کو اطلاع دی کہ تین حملہ آوروں کو فوری طور پر واصل جہنم کردیا گیا جبکہ چوتھا زخمی ہونے اور حراست میں لئے جانے کے کچھ دیر بعد دم توڑگیا. (Urdu.dunyanews.tv )

'سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی' نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ حملے کا مقصد فوجی پریڈ کی شان اور عظمت کو کم کرنا تھا. اطلاعات کے مطابق دہشت گرد اس قسم کے حملے پہلے بھی کر چکے ہیں. گذشت سال 'راہیان نور' کے قافلے پر بھی فائرنگ کی گئی تھی. (تسنیم نیوز ایجنسی، فوجی پریڈ پر حملے کا ذمہ دار الاہوازیہ گروپ ہے، سپاہ پاسداران)

بی بی سی اردو کے مطابق حملے کی ذمہ داری ایک ایرانی عرب تنظیم 'مقاومت ملی اہواز' نے قبول کی ہے جو تیل سے مالا مال خوزستان صوبے میں نیا ملک بنانا چاہتی ہے. اس کے علاوہ دولت اسلامیہ (داعش)نے بھی ذمہ داری قبول کی ہے.

سحر ٹی وی نیوز کے مطابق داعش نےاتوار کی شام جاری کی جانے والی ایک ویڈیو میں کہا کہ اس کے بھی تین عناصر اہواز کے دہشت گردانہ حملے میں ملوث رہے ہیں. دراصل یہ دہشت گردانہ حملہ'الاحوازیہ'اور 'داعش' کی ملی بھگت کا نتیجہ ہے. تاہم دونوں گروہوں کی جانب سے شواہد نہیں پیش کئے گئے ہیں.

داعش گروہ کا تو تقریباً سبھی کو علم ہوگا لیکن اب تک کم ہی لوگوں نے اہوازی گروہ کا نام سنا ہوگا لیکن قابل ذکر یہ بات ہے کہ اس گروہ کی سرگرمیوں کا ماضی تقریباً چالیس سال پرانا ہے. خوزستان کی علاحدگی کا خیال سب سے پہلے عرب سوسائٹی کے نام سے ایک گروپ کے طور پر متعارف کرایاگیا تھا. یہ گروپ ایک علیحدگی پسند گروپ کے طور پر متعارف کیا جا رہا تھا جس کو ایران کی سرحدوں سے خوزستان کے صوبے کو الگ کرنا چاہتا تھا. انقلاب اسلامی کے ابتدائی دور میں شیخ شبر خاقانی کی قیادت میں یہ گروہ کام کررہا تھا اور اس کی کچھ عجیب مانگیں تھیں جیسے خوزستان ایک خود مختار علاقہ ہو، یہاں عربی زبان کی عدالتیں ہوں، سرکاری ملازمتوں میں عربی زبان بولنے والوں کو ترجیح ہو. خوزستان کے تمام اسکولوں کی زبان عربی ہو اور اس صوبے کے تمام حکام عرب ہوں.

انقلاب کے ابتدائی دور میں اس بات کی کوشش کی گئی کہ مذاکرات کے ذریعے مسئلہ حل کیا جائے لیکن عراق کی طرف سے مسلط کردہ جنگ کے شروع ہوتے ہی اس گروپ نے تباہ کن کارروائیاں شروع کردیں اور کچھ وقت بعد اسے صدام کی حمایت حاصل ہوگئی تھی.

اس کے بعد، گروہ نے دہشت گردی کے ذریعے خرمشہر کے بہت سے لوگوں پر اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لئے حملہ کیا. اس کے بعد ایران کے سیکورٹی فورسز نے اس گروہ کے ساتھ سختی سے نمٹنا شروع کیا جس کی وجہ سے اس گروہ کے زیادہ تر لوگ عراق، برطانیہ اور ہالینڈ فرار ہوگئے.

مسلط کردہ جنگ کے دوران اس دہشت گرد گروہ کے ارکان نے ایران کے خلاف جاسوسی کا کام شروع کردیا اور اس طرح اپنے ملک کے لوگوں سے خیانت کی۔ اس گروہ نے اب اس کا نام عربی وائس سوسائٹی،الہویہیا کو تبدیل کردیا ہے۔ اس گروہ کا خیا ل ہے کہ غیر عربوں نے خوزستان پر قبضہ کرلیا ہےاور ان کا قبضہ ختم کرکے اس علاقے کو دوبارہ عربوں کے ہاتھوں میں دینا چاہئے۔ اسی لئے یہ لوگ خوزستان کےآبادان شہر کو عربی میں اببادان اور خررم شہر کو مہممرا کہتے ہیں ۔ وہ کہتے ہیں کہ ایران نے ان علاقوں میں اسلامی نام تبدیل کردیئے ہیں۔

یہ علاحدگی پسند گروہ انقلاب کے چند سال کے بعد پریشان ہوا تھا، لیکن ۲۰۰۵ سے اپنی سر گرمیاں دوبارہ شروع کردی ہیں۔ اس گروپ نے اپنی سرگرمیاں دوبارہ شروع کرنے کے بعد مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں ایک کانفرنس بھی منعقد کی تھی جس میں مصر اور سعودی عرب کے کئی اہم شخصیات نے شرکت کی تھی۔ سن۲۰۱۵ میں اس گروہ نے اپنا نام پھر بدلا اور اس بار اس کا نام الاہوازی تحریک رکھا۔ (روزنامہ آگ، ادارتی صفحہ ۵ ’اہواز حملے کے پشت پناہ کون؟، دوشنبہ ۲۴ ستمبر ۲۰۱۸)

ایران کے صدر روحانی نے امریکہ کو بالواسطہ حملے میں ملوث ہونے کو بتایا ہے اور کہا کہ وہ خطے میں کرائے کے سپاہی کا کردار ادا کرنے والے چھوٹے کٹھ پتلی ملکوں کی پشت پناہی کرررہاہے۔(VOA News)

وزیر خارجہ جواد ظریف نے اس حملہ کا ذمہ دار ’بیرونی معاونت‘ کو بتلایا ہے۔ (Press TV)

بی بی سی شائع رپورٹ کے مطابق ایران کے سپریم لیڈر خامنہ ای نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ امریکہ کی کٹھ پتلی ریاستیں ایران میں انتشار پھیلانا چاہتی ہیں ۔

’پاسداران انقلاب‘ کے نا ئب سربراہ بریگیڈیر جنرل حسین سلامی نے بھی حملے کا ذمہ دار امریکہ اور اسرائیل کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ ایران کے ’تباہ کن‘ جواب کے لئے تیار رہیں۔ (VOA News)

بعض دیگر اطلاعات کی نے ایرانی اطلاعات کی یوں ترجمانی کی ہے کہ اس حملہ میں سعودی اور متحدہ عرب امارات کا بھی ہاتھ ہے۔

بہر کیف، اہواز حملے سے یہ بات عیاں ہورہی ہے کہ دشمن ایک بار پھر عرب عجم کے شعلہ جنگ کو بھڑکانے کی ٹوہ میں لگا ہےاور دہشت گردوں کی پشت پناہی کرنے والا دشمن، ایران میں تفرقہ اور بٹوارے کی بے سود کوشش کررہا ہے۔ اس کا ارادہ خوزستان کو ایران سے الگ ایک نئی ریاست کے طور پر متعارف کرانے کا ہے۔

دراصل استعمار ہی ہے جو پورے عالم اسلام کو خرابہ میں تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ آج اگر اسلامی ممالک پر طائرانہ نظر ڈالی جائے تو یہ بات کھل سامنے آئے گی کہ امریکہ اور اسرائیل کا گتھ جوڑ مسلم ریاستوں کو تباہ کرنے پر تلا ہوا ہے۔ فلسطین، شام، افغانستان، پاکستان، عراق اور ترکی وغیرہ میں اس کی شیطنت مشاہدہ کی جاچکی ہے ۔ آج ایران کے آس پاس اسلامی ممالک میں فتنہ کی بھڑک رہی ہے اوراب دشمن کے ناپاک عزائم، امن پسند اور ترقی خواہ ملک ایران کے امن و اقتصاد کو تاراج کرنے میں ایڑی چوٹی کازور لگا رہا ہے لیکن

نور خدا ہے کفر کی حرکت پہ خندہ زن
پھونکوں سے یہ چراغ بجھا یا نہ جائے گا