ایک سیاست دان کا مشہور جُملہ ہے "قُربانی سے پہلے
قُربانی" جو وہ کسی کی وزارتِ عُظمی کی کروانا چاہتے تھے۔
اسی طرح سے میڈیا بھی انتقال سے پہلے انتقال کروانے کے چکر میں رہتا ہے اور
اُس کی ایک ایک سانس پر گہری نظر رکھتا ہے اور وقتِ اجل سے کچھ پہلے ہی
اُسے دنیاۓ فانی کی فانی مصروفیات سے نجات دلواکر ہی سکون کا سانس لیتا ہے
تاکہ خبر دینے میں سب سے آگے نگل جاۓ اور وہ ساعت پیچھے رہ جاۓ ۔
اگر خبر غلط نکل آۓ تو صرف معزرت ہی تو کرنی ہے چاہے کسی کا دم نکل جاۓ اور
پھر کسی اور خبر کی طرف دم مارے
عوام بھی شائد حقیقت سے زیادہ میڈیا پر اعتبار کرنے لگے ہیں جس طرح کبھی
ڈاکٹر پر کچھ یوں اعتبار کرتے تھے کہ
ایک دفعہ کسی مریض کو ڈاکٹر نے مُردہ قرار دے دیا ۔
اچانک وہ اُٹھ بیٹھا تو لواحقین نے کہا
چُپ کرو!!
ڈاکٹر زیادہ جانتے ہیں !!
اسی طرح نادرا والے کسی کی تدفین میں شریک ہو کر بھی ڈیتھ سرٹیفیکیٹ مانگتے
ہیں ۔
کچھ قانونی مجبوریاں بھی ہوتی ہیں ۔ جس طرح تحریر لکھتے وقت میں اس وقت
تھانے کے ریکوورڈ میں لوک اپ میں بند ہوں حالانکہ میں قسم کھا سکتا ہوں کہ
میں آزاد ریسٹورنٹ میں بیٹھا چاۓ پی رہا ہوں ۔
ہوا یوں کہ ہر سال کی ایک روٹین کے تحت ایک کاروباری براۓ نام رسمی لائسنس
اس سال رینیو کرانا بھول گیا ۔ اُن کو پیسے بٹورنے کا موقع ہاتھ آگیا اور
اُنہوں نے بغیر چالان جمع کرنے کے نوٹس دئے اریسٹ وارنٹ نکال دئے
۔ تھانے کے ریکورڈ میں کیونکہ اب تک میں معززین میں شامل ہوں تو اُنہوں نے
دو ہزار لے کر مُجھے موقع دے دیا کہ معمولی بات ہے اور عدالت سے بری ہونے
تک کی مہلت دے دی ۔
کچھ دن پہلے ایک سابقہ وزیرِ اعظم کی اہلیہ جو زندگی اور موت کی کشمکش میں
تھیں ، کی متضاد خبریں گردش کرتی رہیں ۔
تبصرہ نگار اُس میں بھی سیاسی چالیں ڈھونڈتے رہے
جس میں شیخ صاحب سب سے آگے تھے۔
سارا میخانہ یونہی چھلکتا رہے
رند پیتے رہیں شیخ جلتا رہے
شیخ جلے نہ جلے اُن کی دلچسپ باتوں کا سگار جلتا رہے۔
سوشل میڈیا بھی اس دوڑ میں دو ہاتھ نہیں بلکہ کئ ہاتھ آگے ہے ۔
ابھی حال میں ہی ایک واٹس ایپ گروپ پر کسی کے انتقال کی خبر دیکھی جو ایک
مشہور ڈاکٹر اور سماجی کارکن کے انتقال کی خبر تھی ۔
ابھی ہم سب اُن کو تصور میں دفنا کر دعاۓ مغفرت اور تعریفی کلمات ادا کر ہی
رہے تھے کہ معلوم ہوا کہ ابھی وہ حیات ہیں جو اپنے کاموں کی وجہ سے اصلی
موت کے بعد بھی عوام کے دلوں میں تاحیات زندہ رہیں گے ۔
ایک صاحب نے فرمایا کہ ہم نے اُس وقت اُن کو موضوعِ بحث نہیں بنایا جب اُن
کی حیات میں کوئ ابہام نہیں تھا۔ اکثر ایسا ہی ہوا کرتا ہے ۔ میں گاڑی
چلاتے ہوۓ سوچ رہا تھا کہ ایسا کیوں ہوتا ہے اور ریڈیو پر مہدی حسن کی گائ
غزل چل رہی تھی۔
زندگی میں تو سب ہی پیار کیا کرتے ہیں
میں تو مر کر بھی میری جان تُجھے چاہوں گا
مجھے خیال آیا کہ
ہم تو زندگی میں بھی نہیں کرتے!
|