کشمیر کمیٹی کا نیا سربراہ اور پارلیمنٹ

حکیم ا لامت علامہ ڈاکٹر محمد اقبالؒ اور عظیم شخصیت نوابزادہ نصر اﷲ خان بھی کبھی کشمیر کمیٹی کے سربراہ تھے۔اب مولانا فضل الرحمان بھی پاکستان کی پارلیمانی کشمیر کمیٹی کے سربراہ رہے۔ مگر افسوس ہے یہ صرف غیر سنجیدہ عہدہ رہا۔ سارا الزام ایک چیئر مین پر ڈال کر باقی سب بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔ جب کہ کشمیر کمیٹی کے 24ممبر تھے۔ اب کمیٹی از سر نو تشکیل ہو رہی ہے۔ اکتوبر میں قومی اسمبلی کی 11نشستوں پر ضمنی انتخابات ہو رہے ہیں۔ صرف قومی اسمبلی کی 34وزارتی کمیٹیاں تشکیل پائیں گی۔ جن میں سے ہر ایک کے کم از کم 20ارکان ہوں گے۔ اور 34چیئر مین بھی بنیں گے۔ یہ سب نوازنے کے لئے ہوتا ہے۔ ایک روایت بن رہی ہے۔ اس کے علاوہ چار غیر وزارتی کمیٹیاں ہوتی ہیں۔ تمام پارٹیاں اپنی جسامت کے مطابق حصہ مانگ رہی ہیں۔ مگر کشمیر کمیٹی کو اس بار سیاست اور نوانے کے لئے بروئے کار نہ لایا جائے۔ کیوں کہ کشمیری بھارتی ریاستہ دہشتگردی کے تحت نسل کشی کا شکار ہیں۔

کشمیری صدیوں سے غیر ملکی تسلط اور قابض حکمرانوں کے مظالم کے شکار رہے ہیں لیکن انہوں نے کبھی ہمت نہ ہاری، ان کو ایمان فروشوں کا بھی سامنا کرنا پڑا لیکن تحریک آزادی کسی نہ کسی شکل میں جاری رہی۔ 1586ء سے 1752ء تک کشمیر پر مغلوں کی حکومت رہی، لیکن مغلوں نے محلات اور باغات کی تعمیر کے علاوہ کوئی دوسرا خاص کارنامہ سرانجام نہ دیا۔ 1752ء سے 1819ء تک افغان اس خطے پر مسلط رہے جنہوں نے کشمیریوں کی دولت کو وہاں سے باہر منتقل کر دیا ۔ انگریزوں اور ان کی پروردہ ایسٹ انڈیا جیسی کمپنیوں نے برصغیر کی دولت کو لوٹ کر ولایت منتقل کر دیا، ان کا لوٹا ہوا ہیرا جو برصغیر کی ملکیت ہے آج بھی ملکہ برطانیہ کے پاس موجود ہے ۔ یہی کوہ نور ہیرا ہے جو ملکہ کے تاج کی زینت بنا ہے۔ 1819ء سے 1846ء تک کشمیر کو سکھوؤں نے اپنی کالونی بنائے رکھا اورعوام پر مظالم کے پہاڑ توڑ ڈالے۔ اور پھر ایک ایسا مرحلہ بھی آیا کہ تاریخ کا ایک بدترین سودا ہوا، انگریزوں نے صرف 75 لاکھ نانک شاہی سکوں میں کشمیر کی سرزمین اور انسانوں کو ڈوگروں کے ہاتھ بیچ دیا۔ اس سے بڑی انسانی حقوق کی اور کیا خلاف ورزی ہو گی کہ انسانی حقوق کے علمبردار کہلائے جانے والے انگریزوں نے انسانوں کا سودا کیا۔ 100 سال تک ڈوگروں نے کشمیریوں کو بدترین غلامی کا شکار بنائے رکھا۔ انھوں نے ہوا کے بغیر ہر چیز پر ٹیکس لگا دیا، اگر کوئی بچہ پیدا ہوتا تو ٹیکس ادا کرنا پڑتا اور کوئی موت واقع ہوتی تو اس کے لواحقین ٹیکس جمع کراتے، پھر تدفین کی اجازت ملتی، اس سے قبل قحط سالی نے کشمیریوں کو گردو نواح کے علاقوں میں ہجرت پر مجبور کر دیا تھا۔ کشمیر جو دنیا کی زرخیز ترین سرزمین ہے، جہاں قدرتی وسائل کی بہتات ہے، جہاں کی زمین حقیقت میں سونا اگلتی تھی، اب خون سے لالہ زار بن چکی ہے۔ یہ ڈوگروں کے مظالم ہی تھے جن کے باعث کشمیری اٹھ کھڑے ہوئے اور 13 جولائی 1931ء کو 22 نوجوانوں نے اپنے سینوں پر گولیاں کھا کر شہادتیں پیش کیں لیکن وہ جھکے نہیں۔ ان شہداء کے خون کا قرض ان کے بعد 5 لاکھ سے زیادہ شہداء نے چکا دیا۔

برصغیر کے مسلمانوں نے ہمیشہ کشمیریوں کے دکھ و درد کو محسوس کیا اور اس پر عملی اقدامات کئے۔ 13 جولائی 1931ء کو سرینگر میں مسلمانوں کے قتل عام نے لاہور میں سب کو غمگین کر دیا، لاہور میں ہی فوراً آل انڈیا کشمیر کمیٹی تشکیل دی گئی جس کا واحد مقصد کشمیریوں کی تحریک آزادی کی عملی امداد کرنا تھا۔اس وقت لوگ سیاسی، سفارتی اور اخلاقی امداد سے زیادہ مادی اور عملی امداد پر یقین رکھتے تھے۔ کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی نے ہندوستانی مسلمانوں کو تحریک پاکستان کے لئے بھی ایک پلیٹ فارم مہیا کیا۔ مفکر اسلام عظیم فلاسفر اور دانشورڈاکٹر علامہ اقبال کو کشمیر کمیٹی کا پہلاسربراہ مقرر کیا گیا۔ اس دوران آل انڈیا مسلم لیگ نے ایک قرارداد کشمیریوں کی حمایت میں منظور کی۔ حالات تیزی سے بدل رہے تھے۔ لیڈر شپ میدان میں آ چکی تھی۔ یہ لیڈر شپ مخلص، ہمدرد اور قوم پر مرمٹنے والی تھی، شو مئی قسمت آج کی لیڈر شپ قوم کو خود پر مارنے اور مٹانے کے درپے نظر آ رہی ہے۔

کشمیر میں تسلط کو مضبوط کرنے کیلئے بعض کشمیریوں، پاکستانی حکمرانوں کی یک طرفہ لچک اور معذرت خواہانہ پالیسی نے بھی اہم کردار ادا کیا۔ جب شیخ محمدعبداﷲ نے زراسی خودمختاری کا مظاہرہ کیا تو انہیں ان کے نام نہاد کشمیری پنڈت دوست جواہر لال نہرو نے ہی گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا اور جب پاکستان ٹوٹنے پر1971ء کے بعد کشمیر پالیسی پر کمزوری دکھائی گئی اور کشمیری مایوس ہوگئے تو25فروری1975ء کی محاذ رائے شماری کے پلیٹ فارم سے آزادی کی جدوجہد کو ترک کرکے بھارت کے ساتھ معاہدہ کے تحت شیخ عبد اﷲ کو جیل سے نکال کر اقتدار دیدیا گیا۔اس معاہدے کو اندرا عبداﷲ اکارڈ (Accord)کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اندراگاندھی کی طرف سے جی پارتھا سارتھی اور شیخ محمدعبداﷲ کی طرف سے مرزا افضل بیگ نے اس معاہدے کو تکمیل تک پہنچایا۔

اندرا گاندھی نے 24فروری 1975کو اس معاہدے کا اعلان کیاتو وزیراعظم پاکستان ذوالفقارعلی بھٹو نے اس کے خلاف ہڑتال کی کال دی۔ کشمیریوں نے اس کال پر عمل کیا اور28فروری1975ء کو فقیدالمثال ہڑتال کی گئی۔ شیخ محمدعبداﷲ کانگریس والوں کو گندی نالی کے کیڑے قراردیتے تھے ۔ لیکن بعد ازاں انھوں نے کانگریس کے ساتھ مل کر حکومت قائم کرلی ۔ لیکن کشمیریوں نے ذوالفقارعلی بھٹو کی کال پر مکمل عمل کیا۔ بھٹو صاحب نے کشمیر پر100سال تک جنگ لڑنے کا بھی اعلان کیاتھا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کشمیریوں اور پاکستان نے ایک دوسرے کے ساتھ مکمل یکجہتی کا عملی مظاہرہ کیا۔28فروری1975ء کو ذوالفقارعلی بھٹو کی کال پر ہڑتال کے بعد کشمیریوں اور پاکستان کی مکمل یک جہتی کے اظہار کا تسلسل 5 فروری ہے۔ جسے بینظیربھٹو نے سرکاری طورپر منانے کافیصلہ کیا تھا۔ محترمہ نے1995ء میں برطانوی لیبرپارٹی کے تعاون سے کشمیر پر برائٹن ڈیکلریشن میں مرکزی کردار ادا کیا۔ پہلی مرتبہ جب سینئر صحافی واجد شمس الحسن کو برطانیہ میں سفیر بناکر بھیجا گیا تو ان کو مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کیلئے خصوصی ٹاسک دیاگیاتھا۔ ان کو واضح طورپر بینظیربھٹو نے مسئلہ کشمیر کو عالمی سطح پر اجاگر کرنے کی ہدایت دی تھی۔ کشمیری مجاہدین کو فریڈم فائٹرزکا خطاب بینظیربھٹو نے ہی دیا تھا۔

آج پارلیمانی کشمیر کمیٹی کی بھی از سر نو تشکیل ہونے جا رہی ہے۔ پاکستانی قوم کشمیریوں کے ساتھ رہی ہے اور تحریک آزادی کے ساتھ بھرپور تعاون کرنے کا تجدید عہد کیا ہے۔لیکن پھر بھی عملی طور کچھ نہیں ہوا۔کشمیر کی آزادی کی جدوجہد کو ایسے سائینسی خطوط پر استوار اور منظم و مربوط کرنے کی ضرورت ہے کہ بھارت مسلہ کشمیر کو کشمیریوں کی مرضی کے مطابق حل کرنے پر مجبور ہو جائے۔ یہ عالمی دباؤ کے بغیر ناممکن ہے۔ اس لئے اقوام متحدہ، او آئی سی، سارک پلیٹ فارم کشمیر کی تحریک آزادی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں۔ بھارت کی کوشش ہے کہ مسلہ عالمی سطح پر اجاگر نہ ہو۔ بلکہ پاک بھارت قیادت مل کر اسے حل کرے۔ اس کا مقصد ہی مسلہ کو عالمی مسلے سے نکال کر دو طرفہ علاقائی مسلہ بنا دینا ہے۔ لیکن عالمی اور بھارتی رائے عامہ کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے۔اس کے ساتھ ساتھ جدوجہد آزادی کے شہداء کے بچے، بیوائیں، زہنی اور جسمانی طور ناکارہ کئے گئے، اپنے گھرو بار چھوڑنے پر مجبور ہونے والے بھی خصوصی توجہ چاہتے ہیں۔کشمیر کمیٹی کی سربراہی اور اس کی رکنیت خانہ پری کے طور پر نہ کی جائے بلکہ اس کا سربراہ کوئی ایسا ہو جس کی کشمیر کاز کے ساتھ کمٹ منٹ ہو۔ جو اپنے منصب کے ساتھ کچھ انصاف بھی کر سکے۔ کشمیریوں پر کوئی ایسا شخص سوار نہ کیا جائے جو کشمیر ایشوکے حروف ابجد تک نہ جانتا ہو۔ کشمیریوں پر اس بار رحم کیا جائے۔ کیا عمران خان حکومت کشمیر ایشوپر پارلیمنٹ میں بحث کرانے کی زحمت گوارا کر سکے گی۔

Ghulamullah Kyani
About the Author: Ghulamullah Kyani Read More Articles by Ghulamullah Kyani: 710 Articles with 485019 views Simple and Clear, Friendly, Love humanity....Helpful...Trying to become a responsible citizen..... View More