ریاست مدینہ ماڈل۔ ہنوز دلی دُور است!

کہا جانے لگا ہے کہ حکومت ابھی تک اپوزیشن سوچ سے باہر نہیں نکل سکی۔ ہنی مون پیریڈ میں شدت کے ساتھ محسوس کیا گیا کہ تحریک انصاف حکومت میں ہونے کے باوجود اپوزیشن طرز کی حکمرانی کررہی ہے۔ ماضی کی حکومتوں پر تنقید اور ان کی غلطیوں کی نشان دہی کے حوالے سے پی ٹی آئی حکومت کچھ زیادہ متحرک نظر آتی ہے۔ وزیراعظم طویل تقاریر کے ذریعے سابق حکومتوں کی پالیسیوں پر کڑی تنقید کرتے نظر تو آتے ہیں لیکن ان کی جانب سے ابھی تک ایسا کوئی مربوط پلان سامنے نہیں آیا، جس پر عوام سمجھ سکیں کہ نئی حکومت معاشی دشواریوں پر کب اور کتنی جلدی قابو پانے میں کامیاب ہوسکے گی۔
سعودی عرب پاکستان کا فطری اتحادی رہا ہے۔ اس لیے ہر حکومت کا اس کی جانب پہلا قدم اٹھانا کبھی ایشو نہیں بنا، لیکن یہاں اہم بات یہ کہ وزیراعظم کا کہنا تھا کہ سعودی حکومت کی جانب سے دعوت پر انکار نہیں کرسکا، اس لیے اپنے تین مہینے تک کسی بھی غیر ملکی دورے پر نہ جانے کے فیصلے پر نظرثانی کی۔ بادی? النظر یہ اچھا فیصلہ تھا۔ اس سے بھی انکار نہیں کہ سرزمین مقدس کی حفاظت کے لیے بالعموم تمام مسلمان اور بالخصوص پاکستان نے ہمیشہ عزم ظاہر کیا کہ سرزمین حجاز پر حملوں کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ امت مسلمہ سعودی عرب کے ساتھ کھڑی ہوگی، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ سرزمین حجاز پر تو مسلسل حملے ہورہے ہیں اور بدقسمتی سے مقدس سرزمین کی حفاظت ’’غیر مسلم‘‘ قوتیں کررہی ہیں۔ اب ہم اس ’’جنگ‘‘ کو کوئی بھی نام دیں، لیکن یہ اظہر من الشمس ہے کہ سعودیہ پر قبضے کے لیے بھرپور جنگ جاری ہے اور ان حملوں کو روکنے کے لیے سعودی حکمرانوں کو بڑی بھاری قیمت بھی ادا کرنا پڑرہی ہے۔

وزیراعظم پاکستان، سعودی فرماں روا کی دعوت پر تشریف لے گئے۔ روایتی رسمی بیان سامنے آیا جو ہمیشہ ہر سربراہ مملکت سے ملنے کے بعد جاری کیا جاتا ہے، لیکن یہ ابھی تک واضح نہیں ہوسکا کہ پاکستانی وزیراعظم سعودی عرب سے کیا معاملات طے کرکے آئے ہیں۔ رکن اسمبلی نفیسہ شاہ نے بھی باقاعدہ حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ’’سی پیک میں شرکت پر سعودی عرب سے کیا طے پایا، پارلیمان کو اس سے آگاہ کیا جائے۔‘‘ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے سی پیک میں سعودی حکومت کو تیسرا اسٹرٹیجک پارٹنر بننے کی دعوت دینے کا بیان ضرور دیا، لیکن یہ بھی اکتوبر میں سعودی وفد سے معاہدہ ہونے پر واضح ہوگا کہ سعودی عرب سی پیک منصوبے میں حقیقی معنوں میں کتنی سرمایہ کاری کرنا چاہتا ہے اور ریاست کو کیا فوائد حاصل ہوں گے، یہ سوال ہنواز جواب طلب ہے۔ اس وقت سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان کو مالی مشکلات سے کس طرح باہر نکالا جائے۔ اس کے لیے کیا ٹھوس اقدامات کیے جارہے ہیں، اس کی ایک ہلکی جھلک ’منی بجٹ‘ میں سامنے آئی، جب نان فائلر کو گاڑیاں اور جائیداد خریدنے کی اجازت دے دی گئی۔ ماہرین معاشیات حکومت کے اس اقدام پر بڑے حیران ہوئے کہ ایک جانب ٹیکس بڑھایا ہے۔ اشیاء صرف کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ گیس اور پٹرول کے نرخ بڑھ رہے ہیں۔ ٹیکس دہندگان کی ٹیکس چوری عروج پر ہے۔ دوسری جانب کالے بازار کو قانونی دائرے میں لانے کے بجائے ٹیکس چوروں کو تحفظ مل رہا ہے۔ قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے منی بجٹ پر حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔

تحریک انصاف کی حکومت میں زیادہ تر صوبائی معاملات کے فیصلے بھی وزیراعظم عمران خان کررہے ہیں، جس طرح پچھلی حکومت میں ’’خیبر پختونخوا کا وزیراعظم‘‘ کا خطاب ملا تھا۔ اب پنجاب حکومت میں بھی وزیراعظم صوبائی معاملات خود دیکھ رہے ہیں، جس سے یہ تاثر قائم ہورہا ہے کہ وفاق، خیبر پختونخوا کے بعد صوبہ پنجاب کی ’’اہم وزارتیں‘‘ بھی وزیراعظم اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں۔ افغان مہاجرین کی پاکستانی شہریت پر وزیراعظم کے بیان پر بلوچ رہنما اور حکومتی اتحادی اختر مینگل کا شدید ردعمل وفاق کے لیے خطرے کی علامت بن سکتا ہے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ نے اس ایشو پر قومی اسمبلی سے بائیکاٹ بھی کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر افغانیوں کو شہریت دینی ہے تو پھر افغانستان کے ساتھ ڈیورنڈ لائن پر لگائی جانے والی باڑ بھی ختم کردیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ایک ملک میں دو قانون کس طرح چل سکتے ہیں کہ صرف کراچی میں رہنے والے افغانیوں اور بنگالیوں کو شہریت دی جائے گی۔ حالیہ قومی اسمبلی اجلاس میں پی پی پی کی نفیسہ شاہ اور پی ٹی آئی کی شیریں مزاری کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی، جو بڑے سیاسی تنازع کو جنم دے سکتی ہے۔ وفاقی حکومت بلوچستان کے اراکین اسمبلی کی حمایت کی وجہ سے اپنے پیروں پر کھڑی ہے۔ اگر وزیراعظم پاکستان پہلے فیصلے اور بعد میں غور کرنے والی پالیسیاں ترک نہیں کریں گے تو ان کا یہ رویہ منتشر اپوزیشن کو مضبوط بننے کا موقع فراہم کرسکتا ہے۔
 
قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیراعظم سمیت کابینہ کی بڑی تعداد میں غیر حاضری رہی۔ وزیراعظم پاکستان نے6 اگست کو کیے جانے والے اس دعوے پر بھی عمل درآمد نہیں کیا کہ وہ خود ہر ہفتے ایک گھنٹہ بطور وزیراعظم عوام کے سوالات کا جواب دیں گے، لیکن عوام تو ایک جانب پارلیمان میں وفاقی وزراء کے بجائے ’ایس او‘ لیول کے افسران کے نوٹس وصول کرنے پر اراکین پارلیمنٹ برہم نظر آئے۔ وفاقی وزراء کی غیر حاضری تحریک انصاف کے بلند بانگ دعووں کے لیے نوشتہ? دیوار ہے۔ تحریک انصاف نے ’’سادگی مہم‘‘ شروع کررکھی ہے۔ حکومت اپوزیشن کا کردار ادا کرتے ہوئے سابق حکومت کی طرز حکمرانی پر شدید تنقید کرتی نظر آتی ہے۔ ایک بار پھر تحریک انصاف نے اپنے منشور سے واپسی (یوٹرن) کی راہ لی کہ ارکان پارلیمنٹ اندرون ملک مفت فضائی سفر کرسکیں گے اور انہیں 20 بزنس کلاس کے ریٹرن ٹکٹ کے واؤچر بھی جاری کردیے گئے ہیں۔ اس فیصلے سے قبل تحریک انصاف کی حکومت اعلان کرچکی تھی کہ وزیراعظم خصوصی طیارہ استعمال نہیں کریں گے۔ وی وی آئی پی پروٹوکول ان سمیت ان کا کوئی بھی رکن اسمبلی نہیں لے گا۔ عملاً ایسا نہ ہوسکا۔ پھر یہ بھی کہا گیا کہ سادگی مہم میں ہر رکن اسمبلی قومی خزانے پر بوجھ نہیں بنے گا۔ لیکن شدید مالی بحران میں اس قسم کے اقدامات کرنا ناقابل فہم اور قومی خزانے پر بے جا بوجھ ہے۔

بلاشبہ حکومت کے قیام کو چند ہفتے ہی ہوئے ہیں، لیکن ’’بنیاد‘‘ ہی بتادیتی ہے کہ عمارت کتنی ’’مضبوط‘‘ ہوگی۔ تحریک انصاف میں اقربا پروری اور دوست احباب کو نوازنے کا سلسلہ جاری و ساری ہے۔ عجلت میں کیے گئے فیصلوں پر حکومتی اراکین کا دفاع اور پھر یوٹرن لینا بہت ابہام پیدا کررہا ہے۔ گڈ گورننس کے لیے کبھی 100دن تو کبھی2 برس کا ٹائم فریم دیتے ہیں۔ میڈیا پر غیر اعلانیہ قدغن اور میڈیا ورکر پر دباؤ کو دور کرنے کے لیے کوئی بھی قدم حکومت کی جانب سے نہیں اٹھایا گیا۔ الیکٹرونک و پرنٹ میڈیا کے کارکنان کو سوشل سکیورٹی کا تحفظ بھی حاصل نہیں۔ میڈیا کے مالی بحران کو دُور کرنے کے لیے حکومتی سطح پر حوصلہ افزا اقدامات ’ہنوز دلی دور است‘ کے مترادف ہے۔ بھارت کے آرمی چیف کی ہرزہ سرائی پر موجودہ حکومت نے خطے میں بدامنی کی حوصلہ شکنی کے لیے اپنے سفارتی محاذ پر کوئی قابل ذکر پیش رفت نہیں کی۔

کشمیر کمیٹی کے حوالے سے مولانا فضل الرحمٰن کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔ اب کشمیر کمیٹی، مقبوضہ کشمیر کی آزادی کے لیے کیا اقدامات کررہی ہے، اس کی کوئی منصوبہ بندی سامنے نہیں۔ روز بہ روز مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں پر ظلم کے پہاڑ ڈھائے جارہے ہیں۔ حکومت وقت، اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیری عوام کو استصواب رائے کا حق دلانے کے لیے اقوام متحدہ کو خواب غفلت سے کس طرح بیدار کرے گی۔ یہ ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ پاکستان میں ریاست مدینہ ماڈل کی پہلی اینٹ کب رکھی جائے گی، اس کی قوم منتظر ہے۔ وزیراعظم پاکستان ماضی میں اپنے کئی بیانات کو سیاسی قرار دے چکے ہیں۔ چیف جسٹس (ر) افتخار چوہدری ہوں یا پھر پرویز الٰہی، 35 پنکچر والا بیان ہو۔ عمومی تاثر یہی ابھر کر سامنے آرہا ہے کہ عمران خان جب اپوزیشن میں تھے تو ان کی تقریر کو پارٹی پالیسی سمجھا جاتا تھا۔ اب جب کہ وہ وزیراعظم بن چکے ہیں تو بھی ان کے خطاب کو حکومتی پالیسی سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے ان کے کئی فیصلے ابتدا میں ہی قول و فعل کا تضاد بنے اور نومنتخب حکومت کو نان ایشوز کا دفاع کرنا پڑا۔ وزیراعظم کو اپنے وعدے کی تکمیل کے لیے حقیقی معنوں میں کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ سیاسی بیانات اور حکومتی پالیسیوں کے فرق کو سمجھنا موجودہ حکومت کے لیے سب سے پہلے ضروری ہے، کیونکہ یہی ہم سب کے حق میں بہتر ہے۔
 

Qadir Khan Yousuf Zai
About the Author: Qadir Khan Yousuf Zai Read More Articles by Qadir Khan Yousuf Zai: 399 Articles with 296556 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.