ایران اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں بہتری کے امکانات

ایران اور امریکہ کے درمیان تعلقات میں بہتری کے امکانات۰۰۰ٹرمپ ، روحانی سے ملاقات کے متمنی

امریکہ اور ایران کے درمیان تعلقات انتہائی کشیدہ نوعیت اختیار کرتے جارہے ہیں اس کے باوجود ان دنوں دونوں ممالک کے درمیان رابطے کے امکانات دکھائی دے رہے ہیں۔ کیونکہ اس سے قبل امریکہ اور شمالی کوریا کے درمیان بھی ایسے ہی خطرناک حالات پیدا ہوگئے تھے جس سے نکلنا دشوار دکھائی دے رہا تھا ۔امریکہ اور شمالی کوریا کے درمیان جس طرح خطرناک جوہری جنگ کے آثار نمایاں نظر آرہے تھے وہ تمام ختم ہوچکے ہیں، عالمی طاقتیں اور دیگر کئی ممالک یہ سمجھنے لگے تھے کہ کسی بھی وقت امریکہ اور شمالی کوریا کے درمیان خطرناک جوہری جنگ چھڑ سکتی ہے لیکن حالات کچھ اس طرح بدل گئے کہ شمالی کوریا اور امریکہ کے درمیان جوہری جنگ کے بجائے دونوں ممالک کے صدور کے درمیان ملاقات ہوگئی اور پھر آہستہ آہستہ امریکہ اور شمالی کوریا کے درمیان مزید رابطوں کی کوششیں جاری ہیں ۔یہی نہیں بلکہ امریکی صدر ٹرمپ توقع ہے کہ جلد ہی شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن سے دوبارہ ملاقات کرینگے کیونکہ اب ان دونوں ممالک کے درمیان پہلے جیسی دوریاں نہیں رہیں۔ یہاں یہ بات ضروری ہے کہ شمالی کوریا کی معیشت جوہری طاقت میں اضافہ کی وجہ سے بُری طرح متاثر ہوئی ہے اور ہوسکتا ہیکہ اسی کی وجہ سے شمالی کوریا کے صدر نے گھٹنے ٹیکتے ہوئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کی اور مزید مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھانے پر رضا مند دکھائی دیتے ہیں۔ اس سلسلہ میں ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکی سنٹرل انٹلیجنس ایجنسی (سی آئی اے)کے ڈائرکٹر جینا ہیسپل امریکی ریاست کینٹکی کی ایک یونیورسٹی میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اس بات کے شواہد ملے ہیں کہ کم جونگ اُن شمالی کوریا کے عوام کی معاشی مشکلات کو سمجھتے ہیں اور وہ صورتحال میں بہتری لانے کے لئے اقدامات کرنے کے خواہاں ہیں۔ شمالی کوریا کی کمیونسٹ حکومت اپنی جوہری صلاحیتوں کو اقتدار کی بقاء کیلئے ضروری سمجھتی رہی ہے لیکن امریکی صدر ٹرمپ اور کم جونگ ان کے درمیان براہِ راست ملاقات اور رابطوں کی وجہ سے اس پالیسی میں بدلاؤ آتا محسوس ہورہا ہے ۔شمالی کوریا جوہری ہتھیار تلف کرنے پر سنجیدہ نظرآنے کی بات کی جارہی ہے اگر یہ صداقت پر مبنی ہے تو واقعی اس سے امریکہ کی جیت ہوگی۔ ایسے ہی حالات ان دنوں امریکہ اور ایران کے درمیان ہوتے محسوس ہورہے ہیں۔ ایران کی معیشت بُری طرح متاثر ہوچکی ہے کیونکہ ایران میں مہنگائی کی وجہ سے آئے دن عوامی احتجاج میں اضافہ ہوتا جارہا ہے ،کئی شہروں میں عوام سڑکوں پر نکل آرہے ہیں اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ایران بھی اپنی پالیسیوں میں عوامی احتجاج کو دیکھتے ہوئے بدلاؤ لائے گا۔ ویسے ان دنوں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایرانی صدر حسن روحانی سے ملاقات کی خواہش رکھنے کا عندیہ دے چکے ہیں۔ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکی سیکریٹری خارجہ مائیک پومپیونے کہا ہے کہ صدر ٹرمپ اب بھی خواہش رکھتے ہیں کہ وہ ایرانی صدر حسن روحانی سے براہ راست ملاقات کرکے مذاکرات کریں جس پر امریکی میڈیا میں چہ مگوئیاں جاری ہیں ۔ ذرائع کے مطابق مائیک پومپیو نے اپنے خیالات کے اظہار امریکی ٹی وی کے ایک پروگرام کے دوران کیا انکا کہناتھا کہ صدر ٹرمپ ہر لمحہ کسی نہ کسی رہنما سے ملاقات پر خوشی کا اظہارکرتے ہیں اس معاملے پر وہ کافی کشادہ نظر بھی ہیں۔مائیک پومپیو کا کہناتھا کہ امریکی صدر عوامی سطح پر متعدد مرتبہ ایرانی سربراہ سے ملاقات کی خواہش کا اظہارکرچکے ہیں،اگر ایرانی صدر کی جانب سے ملاقات کی خواہش کا اظہار سامنے آتا ہے تو یہ ملاقات طے ہو سکتی ہے اور اس کا انعقاد عمل میں لایا جا سکتا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکی بات چیت کے ذریعے معاملات کو حل کرنے پر یقین رکھتے ہیں اور خاص طور پر وہاں جہاں معاملہ جنگ کے دہانے پر پہنچ رہاہو۔امریکی سیکریٹری خارجہ نے ایک سوال کے جواب میں وضاحت کرتے ہو ئے کہا کہ صدر ٹرمپ ایرانی سربراہ مملکت سے ملاقات کی خواہش ضرور رکھتے ہیں لیکن ہماری یہ منشاء یا مقصد نہیں ہے کہ پہلے حسن روحانی کی جانب سے اس ملاقات کا مطالبہ یا خواہش کا اظہار سامنے آئے۔اب دیکھنا ہے کہ ایرانی صدر حسن روحانی کی جانب سے اس سلسلہ میں کس قسم کا ردّعمل سامنے آتا ہے اگر واقعی امریکہ اور ایران کے درمیان بات چیت کا مرحلہ طئے پاتا ہے تو یہ مشرقِ وسطی کیلئے ایک اہم پیشرفت ہوگی کیونکہ ایران کے خلاف سعودی عرب، عرب امارات و دیگر اسلامی ممالک ہیں اسکے علاوہ اسرائیل بھی ایران کے خلاف ہے ۔ ان حالات میں اگر امریکی اور ایرانی صدور کی ملاقات ہوتی ہے اور دونوں عالمی قائدین کے درمیان بات چیت کے مراحل طئے پاتے ہیں تو یہ خطے کے عوام کے لئے خوش آئندہ اقدام ہوگا کیونکہ شام، یمن وغیرہ میں بشارالاسد اور یمن میں حوثی باغیوں کو ایران کا تعاون حاصل ہے اور جب امریکہ اور ایران کے درمیان مذاکرات کا عمل شروع ہوگا تو شاید ایران اور امریکہ کی پالیسی میں کچھ نہ کچھ تبدیلی آئے گی اور یہی تبدیلی حالات کو سنگینی سے بچاتے ہوئے امن وآمان کی فضاء بناسکتے ہیں اور ملک کی معیشت کو کسی حد تک بہتر بنانے کی جانب ایک قدم ہوسکتا ہے۔ عرب ذرائع ابلاغ کے مطابق ایران کی معروف سیاسی کارکن فائزہ ہاشمی رفسنجانی نے کہا ہے کہ ان کے ہم وطنوں کا نظام ( رجیم) کے تعلق سے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جارہا ہے۔انہوں نے ایران کی سیاسی اور اقتصادی صورتحال سے درپیش خطرات کے بارے میں خبردار کیا ۔ بتایا جاتا ہے کہ فائزہ ہاشمی ایک ایسے وقت ان خیالات کا اظہار کیا ہے جبکہ ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہروں کے بعد صدر حسن روحانی کی مقبولیت میں تیزی سے کمی واقع ہورہی ہے۔رائے عامہ کے حالیہ جائزوں کے مطابق صدر روحانی مسلسل عوامی حمایت سے محروم ہوتے جا رہے ہیں۔اب دیکھنا ہیکہ ایرانی صدر ملک کی معیشت کو بہتر بنانے کیلئے کس قسم کے اقدامات کرتے ہیں۔

یمن کی حالتِ زار
یمن کے حالات سدھرنے کا نام نہیں لے رہے ہیں۔ لاکھوں بچے خوارک اور ادویات سے محروم بتائے جارہے ہیں ۔تین سال سے جاری خانہ جنگی میں ایک طرف عبدربہ منصور ہادی کی حکومت کو سعودی اتحاد کی جانب سے بھرپور تعاون حاصل ہے تو دوسری جانب حوثی باغی عبد ربہ منصور ہادی کا تختہ الٹنے کی پوری کوشش میں لگے ہوئے ہیں یمنی حوثی باغیوں کو ایران کی تائید بھی حاصل ہے یہی وجہ ہوسکتی ہے کہ ان کے حوصلے ہر آئے دن بلند دکھائی دے رہے ہیں۔بین الاقوامی ادارے سیودی چلڈرن کا کہنا ہیکہ یمن میں مزید دس لاکھ بچے قحط کے خطرے سے دوچار ہیں۔ جنگ کی وجہ سے خواراک کی قیمتوں میں اضافہ اور یمنی کرنسی کی گرتی ہوئی قدر مزید خاندانوں کو خوراک کی کمی کا شکار کرے گا۔ لیکن ایک اور بڑا خطرہ حدیبیہ شہر کے گرد جنگ کی وجہ سے ہے کیونکہ یہیں بندرگاہ پر امدادی سامان پہنچتا ہے جسے جنگ کے شکار علاقوں تک پہنچایا جاتاہے۔سیو دی چلڈرن کے مطابق ملک میں اس وقت پچاس لاکھ بیس ہزار بچے قحط کا سامنا کررہا ہیں۔ یمن میں حوثی باغیوں اور حکومت کے درمیان لڑائی کا آغاز سنہ 2015کے اوائل میں ہوا تھا۔ پھر اس جنگ میں سعودی عرب اور اتحادی ممالک بھی شامل ہوئے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق اساتذہ اور سرکاری ملازمین کو تنخواہیں بھی وقت پر نہیں مل رہی ہیں۔ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جنہیں دو سال سے تنخواہ نہیں ملی۔جنگ کے بعد سے اب تک خوارک کی قیمتوں میں 68فیصداضافہ ہوچکا ہے۔بتایا جارہا ہے کہ یمنی ریال کی قدر میں اس عرصے کے دوران 180فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ رپورٹس کے مطابق رواں ماہ کے آغاز میں ملک کی تاریخ میں کرنسی کی قدر سب سے نچلی سطح پر پہنچ گئی تھی جس کی وجہ سے عوام پر مزید بوجھ پڑا۔حدیبیہ پورٹ سے آنے والی امداد ہی قحط کی صورتحال اور وبائی امراض سے بچا سکتی ہے۔ گذشتہ برس اسی وجہ سے لاکھوں یمنی متاثر ہوئے تھے۔ رواں برس کے آغاز میں سیو دی چلڈرن نے بتایا تھا کہ ادارے نے پانچ سال سے کم عمر کے چار لاکھ کے قریب بچوں کو امداد پنچائی ہے تاہم ادارے نے خبردار کیا تھا کہ 36ہزار بچے اس برس کے ختم ہونے سے پہلے موت کے منہ میں جاسکتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق تین سال سے زیادہ عرصے سے جاری اس جنگ میں اب تک 10ہزار افراد مارے جاچکے ہیں جن میں سے دو تہائی عوام شہری تھے۔ جنگ میں زخمی ہونے والوں کی تعداد 55000بتائی گئی ہے۔اس طرح یمنی عوام جس خوفناک صورتحال سے دوچار ہیں اس کے خاتمے کے لئے ضروری ہیکہ سعودی اتحاد اور دیگر عالمی طاقتیں حوثی باغیوں کے ساتھ مذاکرات کے عمل کو روبہ عمل لانے کیلئے کوشش کریں ورنہ یمن کے حالات کے ساتھ ساتھ دیگر خلیجی ممالک کے حالات بھی بُری طرح متاثر ہوسکتے ہیں پہلے ہی سعودی عرب اور بعض عرب ممالک کے حالات یمن اور شام کی جنگ کی وجہ سے متاثر ہوچکے ہیں ۔

سعودی عرب میں خواتین کیلئے مزید مواقع
سعودی عرب میں شاہ سلمان بن عبدالعزیز کے دورِ اقتدار میں شہزادہ محمد بن سلمان کے ویژن 2030کے تحت کئی ایک تبدیلیاں لائی جارہی ہیں۔ یوں تو سعودی عرب کے کئی اداروں میں خواتین خدمات انجام دے رہی ہیں ۔ مملکتِ سعودی عرب میں پہلی بار سرکاری ٹی وی ’’سعودی ٹی وی‘‘ پر رات کے پرائم ٹائم پر ایک خاتون صحافی وئام ال دخیل نے اپنے ساتھی مرد نیوز اینکر کے ساتھ رات ساڑھے نو بجے کے نیوز بلیٹن میں مقامی و بین الاقوامی خبریں پڑھیں۔ اس سے قبل رات کے نیوز بلیٹن میں صرف مرد اینکر ہی ہوتے تھے جبکہ خواتین صبح کے پروگراموں بشمول موسم کی خبروں، خواتین سے متعلق پروگرامز میں دکھائی دیتی تھیں۔ خاتون صحافی وئام عرب نیوز کیلئے بحرین میں 2014سے 2017تک خدمات انجام دے چکی ہیں اور وہ وہاں کافی مقبول بھی ہوئیں۔ وہ 2011میں لبنان کی امریکن یونیورسٹی سے جرنلزم میں گرایجویٹ کیا اور انہیں عربی ، انگریزی اور فرانسیسی زبان پر عبور حاصل ہے۔ 2012سے 2013میں سی این بی سی عربیہ کیلئے رپورٹنگ کرچکی ہیں۔ وہ سعودی عرب کے سرکاری ٹی وی میں جنوری 2018سے خدمات انجام دے رہی ہیں۔ اس کے علاوہ سعودی عرب میں سماجی شعبے میں لائی جانے والی اصلاحات نے فٹ بال فیڈریشن میں بھی خواتین کیلئے دروازے کھول دیے ہیں۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق سعودی عرب کی تاریخ میں پہلی بار فٹ بال فیڈریشن کی رکنیت کیلئے ایک خاتون کی طرف سے درخواست دی گئی ہے۔ فٹ بال فیڈریشن کے چیئرمین کی امیدوار قصی الفواز نے اپنے ایک بیان میں بتایا کہ ایک سعودی خاتون اور ایک برطانوی روجر ڈرابربھی فیڈریشن کی رکنیت کی امیدوار ہیں۔الفوازسعودی فٹ بال فٹ بال فیڈریشن کے بلا مقابلہ امیدوار ہیں۔ فیڈریشن کے سبکدوش سربراہ عاد عزت اگست میں مستعفی ہوگئے تھے۔ نئے چیئرمین کا انتخاب 3؍ اکتوبر کوہونے والا ہے۔ الفواز نے لوئی السبیعی کو فیڈریشن کا سیکرٹری جنرل اور اپنا نائب مقرر کیا ہے۔ اس طرح سعودی عرب میں آہستہ آہستہ خواتین کو مختلف شعبہ ہائے حیات میں خدمات انجام دینے کے مواقع فراہم کئے جارہے ہیں ۔
***
 

Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 358 Articles with 255834 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.