اس وقت ہر سو بھڑکتی ہوئی آگ کے بلند شعلے عالمِ
اسلام کو خاکستر کر رہے ہیں۔پورا عالمِ طاغوت عالم اسلام کو تباہ و برباد
کرنے کے لئے متحد نظر آتا ہے۔ہزاروں اور لاکھوں ٹن کا بارود عراق،
افغانستان، شام،لیبیا ،یمن اور صومالیہ کو کھنڈرات میں تبدیل کررہا ہے۔جہاں
کفار سے مسلمان دوبدو نہیں ہیں وہاں وہ خود ایک دوسرے سے دست و گریبان
ہیں۔غیروں کی سازشوں سے انکار نہیں پر اپنوں کی کم ظرفی کی بھی مثال
میسرنہیں !تماشوں اور ڈراموں کی ساری حد یں عبور کر لی ہیں اپنوں نے ،پر اس
کم بختی کا الزام بھی غیروں پر ہے۔تشخیصِ امراض کے بعد جو اصل مسئلہ تھا وہ
کبھی روبہ عمل نہیں آسکا۔ہرطرف لگی آگ اس قدر بھڑک چکی ہے کہ حکمرانوں کے
بھی اوسان خطا ہیں، عام انسان یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ یہ ہو کیا رہا ہے
اور کیوں ہو رہا ہے؟۔حد یہ کہ آج کل اگر ’’مغربی ممالک ‘‘میں کوئی مرغی
انڈے دینابند کردے اس کا الزام بھی مسلمانوں کے سر تھونپ دیا جاتا ہے۔معلوم
ہوتا ہے کہ مغرب بھی ہندوستان کے اسی مرض میں مبتلا ہو چکا ہے جس میں بھارت
گزشتہ 71برس میں مبتلا رہا ہے کہ چوہوں میں پھیلی جراثیمی بیماری کا الزام
بھی اس نے پاکستانی آئی ،ایس،آئی پر تھونپ کر ساری دنیا کو ہنسنے کا موقع
فراہم کردیا تھا۔
پیرس حملے کے بعد جب کیلی فورنیا حملے کا سنگین مسئلہ سامنے آگیا تو امریکی
ایجنسیوں نے پاکستان کے ساتھ اس کے تار ملانے کے لئے ایساشرمناک طریقہ کار
اپنایا کہ خود امریکی عقل مند اور ہوش مند انسان بھی چیخ اٹھے کہ آخر
پاکستان پر الزام کیوں؟یہی مرض بلکہ اسے بھی لاکھ گنا زیادہ عالم اسلام کو
’’غیروں کی سازش‘‘کا مسئلہ درپیش ہے۔یہاں سانس روک کر یہ بات پھر ذہن نشین
کر لیجیے کہ’’غیروں کی سازشوں کا رونا رونا‘‘کوئی حل نہیں ہے اور نہ ہی
ہمارے اس ’’قدیم مرثیہ‘‘پروہ کبھی افسردہ ہو سکتے ہیں بلکہ ہماری چیخ و
پکار سے انھیں یک گونہ راحت نصیب ہوتی ہوگی کہ ’’ہماری عالمی غنڈہ
گردی‘‘مسلمانوں کی نفسیات اور حواس پر چھا چکی ہے کہ جو ہم نہیں کرتے ہیں
وہ بھی ’’اپنی نااہلی‘‘سے ہمارے ہی کھاتے میں ڈالتے جاتے ہیں اور یہ ہتھیار
کسی بھی قوم کی نفسیاتی پامالی کے لئے کافی ہوتا ہے۔
سویت یونین کے افغانستان پر حملے سے قبل بھی کئی مسلم ممالک اورعلاقوں پر
غیر اقوام قابض ہوتی رہی ہیں مگر روسی جارحیت ،امریکی مداخلت اور مجاہدین
افغان کو کھلی مدد،عرب مجاہدین کی براہ راست شمولیت اور پاکستان کی حکومتی
تعاون نے ’’عالمی جہاد ‘‘کے تصور کو اجاگر کردیاگرچہ ’’جہادِ فلسطین‘‘کی
صدا ساری دنیا میں گونج رہی تھی مگر جو عالمی جہادی تصور افغانستان کی
تحریک نے پیدا کردیا تھا اس کا سہرا کسی اور کے سر باندھنا یقیناََ جہالت
اور زیادتی ہوگی۔یہی وہ وقت تھا اور یہی وہ گھڑی تھی جب عالمی استعمار اور
سامراج گہری نیند سے بیدار ہوگیا اور ٹھیک جنگ کے ساتھ ساتھ ایک نئی مہم کا
آغازبھی کردیا اگرچہ نسخہ پرانا تھا مگر بعض ادویات کو تبدیل کر دیا
گیا۔امریکہ کے مجاہدین افغان اور اسلامی تحریکات سے اس جنگ کے پسِ منظر میں
قریبی روابط نے اسے اس خوف میں مبتلا کردیا کہ جن لوگوں کو تھوڑی سے امداد
کا نتیجہ یہ نکلا کہ انھوں نے عالمی سرخ سامراج کو ذلیل و خوار کر کے
رکھدیا اگر اس’’ اصل سرمایہ ‘‘کوبکھیر اور منتشر کر کے نہ رکھدیا گیا تو کل
کو بندوق کی نوک اس کی جانب بھی مڑ سکتی ہے۔ تمام تر احتیاط کے باوجود وہ
اس کی جانب تبھی مڑی جب اْس نے ’’روسی انجام سے عبرت کے برعکس‘‘خود اسی کے
نقش قدم پر چلنے کی حماقت کا ارتکاب کیا اور اس کو روس سے بھی زیادہ شرمناک
صورتحال کا سامنا تب کرنا پڑا جب روس کے برعکس اس نے 11ستمبر کا خونین
ڈرامہ رچا کر پاکستان سمیت ساری مسلم دنیا کو بھی اپنا ہمنوا بنا دیاپھر
افغانستان میں گرجنے اور برسنے لگا مگر یہاں تمام تر مغربی اور سامراجی
تعاون کے اس کووہ رسوائی نصیب ہوئی جو روس کے حصے میں بھی نہیں آئی تھی۔
اس کو معلوم تھا کہ میرے اسلحہ خانے میں ایک ایسا مؤثر اور تیز دھار ہتھیار
موجود ہے جو ’’اْمت مسلمہ‘‘کے ہاتھ میں تھمانے سے وہ خاک و خون میں تڑپے گی
کہ لوگ ماضی کے خونین سانحات کو بھول کر تادیر اسی پرروتے پیٹتے رہیں گے۔اس
کو ایک مسئلہ پریشان کر رہا تھا کہ شیعہ لوگ بیدار ہو کر سنیوں کی طرح مذہب
اور جہاد کی جانب مائل ہو رہے ہیں۔آیت اﷲ خمینی کے افکار نے شیعہ نوجوانوں
کے رگ و پے میں وہی آگ لگادی تھی جو سنی علماء کی تحریرات نے لگا کر انھیں
’’فلسطین اور افغانستان‘‘کے محاذوں پر پہنچا دیا تھا یہاں ’’شیعہ سنی تفریق
‘‘نہیں تھی ،نا ہی یہاں بریلوی دیوبندی تذکرے موجود تھے اور نہ ہی
سلفی،صوفی اور اخوانی اختلافات کا کوئی تصور موجود تھا۔یہاں سامنے ’’کارل
مارکس اور لینن کا فوجی تھا یا یہودی ٹٹواور اس کے پیچھے لگا ہوا صرف اور
صرف مسلمان۔ان میں بہت سے سنی تھے اور شیعہ بھی اور پھر سنیوں میں اخوانی
تھے یاسلفی ،دیوبندی تھے یا فکر مودودی سے متاثرنوجوان۔سلسلہ جاری تھا منزل
قریب نہ صحیح مگر اس کا اسی جانب رْخ تھا کہ نوے کے عشرے میں پہلے شیعہ
سنی،پھر سنیوں میں بریلوی ،دیوبندی،سلفی ،اخوانی اور جماعتی اختلافات کو اس
تیزی اور قوت کے ساتھ ابھارا گیا کہ اگر کوئی اس کے برعکس بات کرتا ہے تو
میدان میں اس کو عوامی پذیریائی نہیں ملتی ہے۔یہ زہریلی ہوا اس قدر دور تک
چلی کہ دوسرے مرحلے میں اس نے خود شیعوں اور سنیوں کی ان تنظیموں کو بھی
تقسیم در تقسیم کی صورتحال سے دوچار کردیا کہ اب اس کا علاج بس اﷲ ہی سے
ممکن ہے۔ہر علاقے میں سلفیوں ،دیوبندیوں اوراخوانیوں کی دینی ،سیاسی اور
عسکری جماعتوں کے بھی کئی کئی دھڑ اور گروہ ان سے الگ ہو کر نئی نئی
تنظیمیں بنانے میں جٹ چکے ہیں حتیٰ کہ کشمیر جیسے چھوٹے خطے میں بھی ان
مسالک و افکار کی درجن بھر تنظیمیں موجود ہیں۔
آج جو آگ عالمِ عربی میں لگی ہوئی ہے اس کی ذمہ دار ی ہم مغرب پر ڈالنے کی
پوزیشن میں نہیں ہیں۔ایک جانب شیعہ ہیں تو دوسری جانب سنی۔قتلِ عام جاری
ہے۔کہنے کو کوئی ’’عجمی بدطینت شیعہ یا سنی‘‘ یہ کہہ سکتا ہے کہ ہمارا کیا
بگڑتا ہے دیکھو اب ان کے اتنے اور اتنے مر گئے بس جنگ کچھ عرصہ جاری رہی تو
معاملہ ہمیشہ کے لئے ختم ہو سکتا ہے اور میدان صاف۔یہ غلط فہمی ہے کہ زور
زبردستی سے کوئی اپنے عقائد تبدیل کردے گا وہ بلا شبہ خوف و دہشت میں بظاہر
رجوع کرتا ہوا نظر آسکتا ہے مگر درونِ خانہ اسے اپنے عقائد سے اور زیادہ
محبت پیدا ہو جائے گی۔شیعہ سنی جنگ سے بھی حیرت انگیز وہ جنگ ہے جو خود سنی
مسلمان عرب ممالک میں آپس میں لڑ رہے ہیں۔داعش تمام دوسری جماعتوں سے بر
سرِ پیکار ہے اور ان کے حیرت انگیز تصورات میں یہ تصور بھی شامل ہے کہ
انہیں اپنے ہم مسلک و مشرب ’’القائدہ‘‘ بھی تسلیم نہیں ہے۔اس المناک نہ ختم
ہونے والی صورتحال کا شرمناک پہلو یہی ہے کہ خود سنی المسلک مجاہدین ایک
دوسرے کی گردنیں انتہائی بے رحمی کے ساتھ اڑا کر یہ سمجھ رہے ہیں کہ جو ان
کی جماعت سے وابستہ نہیں ہیں اور جس نے ان کی جماعت کے امیر کے ہاتھ پر
بیعت نہیں کی ہے وہ غدار اور مرتد ہے ایسے میں جنگ رک جانا اور امن قائم
ہونا ایک خواب کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔
یہ جنگ سیاسی اور عسکری سے زیادہ اب مسلکی اورفکری نوعیت کی جنگ میں تبدیل
ہو چکی ہے۔اس میں انسانیت کی ادنیٰ سی رمق بھی نظر نہیں آتی ہے۔مخالفین کے
مال و جان کی بربادی ہی نہیں بلکہ ان کی بہو بیٹیوں کی عزتیں لوٹنا اور ان
کے معصوم بچوں کو والدین کے سامنے قتل کردینا معمول بن چکا ہے۔یہ جنگ اصل
میں صدیوں پرانے مسلکی اور فکری اختلافات کے آتش فشاں کے پھٹ جانے کا نتیجہ
ہے۔اس جنگ نے اس بات کو بھی صاف کردیا کہ جنگ میں دور حاضر کے مذہبی لوگ
زیادہ حیوانیت کا روپ دھار لیتے ہیں بلکہ یہ حضرات انسانیت کے میعار سے بھی
گر جاتے ہیں۔اس جنگ نے عالم اسلام پر اس حقیقت کو کھول کر رکھدیا کہ دور
حاضر میں لکھے گئے مسلکی اور فکری لٹریچر نے بعض اچھائیوں کے ساتھ نئی
شرمناک برائیوں کو بھی جنم دیدیا ہے۔کہنے کو بعض لوگوں نے اکیسویں صدی میں
کفر کے خلاف تلاطم پیدا کردیا ہے مگر سچائی یہ ہے کہ اسی لٹریچر کے ذیل میں
بہت کچھ ایسا بھی لکھا گیاجس نے اْمت مسلمہ میں ایک ایسی پود کو جنم دیدیا
ہے جو اپنے مسلک اور تنظیم کے سوا ہر دوسرے کو گمراہ ہی نہیں کافر ،مرتد
اور گٹھیا قسم کا انسان تصور کرتے ہیں۔شام و عراق اور پاکستان و افغانستان
کی سرزمینوں میں ان مسالک اور افکار کا خوب تجربہ کیا جا چکا ہے۔اس شرمناک
صورتحال پر اگر روک نہ لگی تو اﷲ بچائے دین کی جانب بے رغبتی پیدا ہو سکتی
ہے۔ہم دن رات سیکولروں اور لبرلوں کو کوستے رہتے ہیں اور یہ فرض کر لیا ہے
کہ ہم اﷲ کے خاص اور چہیتے بندے ہیں مگر معاملات اس کے بالکل برعکس ہیں۔جو
نوجوان دور حاضر کے لٹریچر سے تیار ہو کر بڑی سے بڑی قربانی دینے کے لئے
تیار ہو جاتے ہیں وہی نوجوان طاقت حاصل ہونے کے بعد اسلام ہی کی نعوذ باﷲ
ناک کاٹنے کے جرم کا بھی ارتکاب کرتے ہیں۔کسی کو ذمہ دار قرار دینے کے
بجائے شیعہ اور سنی حضرات اور پھر دونوں کے بیچ مختلف جماعتوں اور گروہوں
کی اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ کسی پس و پیش کے بغیر سر جوڑ کر بیٹھے
جائیں اور ہنگامی بنیادوں پر اپنے دائرے میں تیار شدہ اس لٹریچر کی نشاندہی
کریں جس نے اْمت مسلمہ کے بیچ نفرتوں کی دیوار کھڑی کردی ہے جس نے دین اور
امت کو پارہ پارہ کردیا ہے اور اب یہی نوجوان نسل اپنے مسالک اور تنظیموں
کو ہی دین سمجھ بیٹھے ہیں ۔یہ بات بلا خوف و تردید کہی اور لکھی جا سکتی ہے
کہ جب تک تطہیرِ لٹریچر کا کام انجام نہیں دیا جا سکتا ہے تب تک کسی بھی
طرح کی اچھائی یا تبدیلی کی امید رکھنا کارِ عبث ہے ۔اور اگر کبھی کہیں
کوئی خوشگوار تبدیلی آبھی جاتی ہے وہ وقتی اور عارضی ثابت ہو گی ۔پائیدار
تبدیلی کے لئے ضروری ہے پہلے لٹریچر کی تطہیر کا کام ہاتھ میں لیا جا ئے
پھر جا کر انسانی دل آپس میں جڑ سکتے ہیں ۔ہر مسلک اور مکتبہ فکر میں
موجودانتہا پسند یہ کام کبھی بھی نہیں ہونے دیں گے مگر دین کے سچے بہی
خواہوں کو انہیں حتی المقدور سمجھانے کے بعد اس کام کا آغاز کرنا چاہیے
نہیں تو یہ تشدد بڑھتا جائے گا اورپھر ایک وقت میں معاملات پورے طور پر
انتہا پسندوں کے ہاتھوں میں آجائیں گے ۔پھر نہ سوچنے کا موقع ہوگا اور نہ
ہی کچھ کرنے کا ،وقت ختم ہونے سے پہلے اس کا م کا آغاز فوراََ شروع کر کے
امت پر احسان کیا جائے ۔
|