صحر ائے تھر ریگستان کا وہ علاقہ ہے جس کے ذروں میں سورج
سانس لیتا ہے ۔ برسات کے بعدیہ ایک خوبصورت علاقہ نظر آتا ہے جہاں پر مور
رقص کرتے ہیں اور اونٹوں کے گلوں میں گھنٹیاں دور تک سنائی دیتی ہیں جہاں
اپنے روایتی لباس میں ملبوس عورتیں سر پر گھڑے رکھ کر اورہاتھوں میں
خوبصورت چوڑیاں پہن کر آگ اگلتی ہوئی ریت پر کئی میلوں سے سفر کر کے دور سے
پانی لاتی ہیں اب تو ایسا محسوس ہونے لگا ہے کہ یہ پھو ل اور کلیاں مرجھا
گئے ہیں ۔ شاید اب یہ کہنا بجا ہے کہ تھر کے ابھی ننھے ننھے بچے ناچتے ہوئے
موروں سے محروم ہو کر موت کا رقص دیکھتے ہیں اور صحرائے تھر میں گزشتہ تین
سال سے یہ موت کا رقص جاری ہے اور تقریباََ 31اکتوبر 2014تک 1600 سے زائد
بچے لقمہ اجل بن چکے ہیں ۔اور اب بھی غذائی قلت کی وجہ سے مٹھی کے ہسپتال
میں مرنے والے بچوں کی تعداد رواں ماہ میں (۴۴) سے تجاوزکر گئی ہے ایک سال
میں چار سو بچے لقمہ اجل بن جاتے ہیں۔ اور قارئین محترم غذائی قلت کے باعث
اور نا کافی طبی سہولتوں کی وجہ سے تھر پارکر میں بچوں کی اموات کا سلسلہ
جاری ہے۔ایک دن میں تین مائیں اپنے بچوں سے محروم ہو گئی ہیں۔ہسپتالوں میں
ادویات کی کمی اور دیہاتی علاقوں میں ابھی تک ہسپتال مکمل نہ ہو سکے کروڑوں
روپے کے موبائیل یونٹ بھی ناکارہ ثابت ہوئے ہیں حقیقت تو یہ ہے کہ تھر کی
صورت کو بہتر بنانے کے لیے وفاقی حکومت اور صوبائی حکومت کے وعدے وفا نہ
ہوئے لیکن میں سمجھتا ہوں کہ وفاقی حکومت سے بڑھ کر صوبائی حکومت کی یہ ذمہ
داری بنتی ہے اور یہاں تک ہے کہ ایک دفعہ سابق سندھ کے وزیر اعلیٰ قائم علی
شاہ صاحب نے تھر میں بچوں کی موت کا ذمہ دارحاملہ عورتوں کو قرار دے دیا
تھا ۔مگر اس کے باوجودبھی تھر کے ہسپتالوں میں کوئی ذرا بھر تبدیلی نہ آئی۔
تھر پار کر میں غربت بھوک اور بیماریوں کے باعث موت نے پنچے گاڑرکھے ہیں ہر
روز کئی بچے زندگی اور موت کے کشمکش میں مبتلا ہیں ۔ غزائی قلت نے کئی ماؤں
کی گود اجاڑ دی ہے تحصیل ڈاھلی کے گاؤ ں جیتراڑ میں نمونیا کی وبا پھیل گئی
ہے اور کئی بچے اس موزی مرض میں مبتلا ہیں ۔لیکن ان بے بس لوگو ں کی فریاد
کوئی سننے والا نہیں ہے بھوک اور پیاس کے مارے لوگ بے بسی کی تصویر بن کر
رہ گئے ہیں اور دور دراز کے علاقوں میں نقل مکانی بھی جاری ہے ۔ یہا ں پر
وڈیرہ نظام جاری ہے مگر آج کل جدید ترین ٹیکنلوجی اور بے شمار سہولیات سے
آراستہ اکیسویں صدی کے تناظر میں ان خوفناک حالات کا جائزہ لیا جائے تو یہ
نہایت بدترین المیہ ہے مگر دماغسوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کیونکہ مجھے اس
علاقے سے اچھی واقفیت ہے لیکن تو پھر بھی آپ کو یقین نہیں آتا اگر آپ
22000مربع میل رقبے پر پھیلے ہوئے صحرائے تھر کا مشاہدہ کریں تو اﷲ پاک نے
تھر کی دھرتی کو بے شما رنعمتوں سے نواز ا ہے ۔صحرائے تھر کی گہرائی میں
گیس۔ بلیک گولڈ یعنی کوئلہ چینی مٹی اور گرینائٹ جیسے چھپے ہوئے ان انمول
خزانوں پر نظر ڈال لیجے جو قدرت نے اس سر زمین کو شرف بخشا ہے جن کو اگر
حکمت عملی کے ساتھ استعمال میں لایا جائے تو صحرائے تھر نہ صرف عرب امارات
کی ایک امیر ریاست بن سکتا ہے بلکہ یہ وسائل اس وطن عزیز کو کافی حد تک آگے
لے کر جا سکتے ہیں مثال کے طور پر آپ چین ۔جاپان اور دوسرے یورپی ملکوں کو
دیکھ لیں مگر شاہد ہمارے حکمرانوں کی سوچ اس سے قاصر ہے کہ آج تک ان قیمتی
خزانوں سے سر زمیں پربسنے والوں کو زندہ رہنے کے لئے صحت ۔تعلیم ۔ خوراک
اور رہاش جیسی بنیادی سہولتں بھی فراہم نہ کی گئیں ۔ مگر سوال یہ پیدا ہوتا
ہے کہ آخر کار ان کا ذمہ دار کون ہے کہ تھر میں مفلسی اور غذائی قلت کی وجہ
سے جو بچے مر رہے ہیں ان کی وجوہات کیا ہے ۔ مگر ہمارے حکمرانوں کی بے حسی
کی انتہا دیکھئے ۔اس خطے کی دوسری خاصیت یہ بھی ہے کہ یہاں پر مختلف قدیم
مزاہب مثلاََہندومت ۔ بدھ مت اور جبین مت کی بہت سی سمادھیاں مندر اور دیگر
عبادت گاہیں آج بھی موجود ہیں لہذا اگر حکومت ان علاقوں میں جدید سہولتوں
سے اور مواصلاتی نظام قائم کر کے ان کو سیاحوں کے لیے کھول دے تو اس سے نہ
صرف علاقے میں بھی خوشحالی اور رونق نظر آئے گی بلکہ پاکستان سیاحت کی آمد
میں ہر سال کروڑوں روپے کما بھی سکتا ہے مگر یہ بات افسوس ناک ہے کہ ہر
روزہزاروں انسان ان وڈیروں کی مجرمانہ غفلت کی وجہ سے زندگی سے ہاتھ دھو
بیٹھے ہیں اگر حکومت کی طرف سے ان غریب لوگوں کے لئے پانی ۔ خوراک ۔
دوائیاں بھیج بھی دی جائیں تو افسرشاہی کی بد انتطامی کے باعث ان کومناسب
طریقے سے تقسیم بھی نہیں کیا جا رہا ہے اور متاثرین کے ساتھ انتہائی تحقیر
سلوک کیا جاتا ہے کاش ان لوگوں کے اندر حضرت عمر فاروقؓ کی سوچ آجاتی تو یہ
زندگی کے ہر مسائل میں کامیاب ہو جاتے کیونکہ حضرت عمرؓ نے فرمایا تھا۔کہ
اگر دریائے فرات کے کنارے پر اگر کوئی کتا بھی بھوکا اور پیاسا مر گیا تو
اس کابھی حضرت عمرؓ قیامت کے دن جوابدہ ہو گا ۔ جیسا کہ اﷲ پاک نے قرآن پاک
میں ارشاد فرمایا ہے جس کا ترجمہ یہ ہے کہ گویا ایک انسان کی جان بچانا
پوری انسانیت کی جان بچاناہے ۔ مگر تھر میں ہزاروں بچے مر رہے ہیں میڈیکل
سٹاف نہ ہونے کے برابر ہے یہاں پر ڈاکٹروں کی بھی غفلت ہے یہاں پر کوئی
ڈاکٹر بھی نظر نہیں آتا ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہا ں پر میڈیکل سہولتیں
موجود ہی نہیں ہیں۔یہا ں کے ہزاروں ڈاکٹروں نے MBBS کی ڈگریا ں کی ہوئی ہیں
مگر دور درازکے علاقون مین ڈیوٹیاں سر انجام دے رہے ہیں تقریباََ
تھرمیں166آسامیاں خالی ہیں تھر کی 6تحصیلوں میں صرف ایک لیڈی ڈاکٹر دستیاب
ہے ۔ آخر کار میری ان حکمرانوں سے التجا کہ ایک کمیٹی بناہیں جو ہر ماہ میں
چیف منسٹر صاحب کو رپورٹ دے کہ یہا ں کے حالات کنٹرول میں ہیں ۔اور چیف
منسٹر صاحب خود بھی چیک کریں اور خاص کر کراچی اور سند ھ کی این جی اوزبھی
اپنا اہم کردار ادا کریں اور بھائی چارے کو فروغ دیتے ہوئیے ان بے بس لوگو
ں کی مدد کریں اور امدادی سامان دودھ اور کھانے پینے کی چیزیں ان کو پہلی
فرصت میں پہنچاہیں جتنا ہو سکے بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ آخر کار اس تمام صورت
حال کو دیکھ کر آج یہ محسوس ہو رہا ہے اس سوگوار ماحول میں مور بھی ناچنا
بھول گئے ہیں اور سانپوں نے بھی ڈسنا چھوڈ دیا ۔لوگ تو ویسے مر رہے ہیں جس
کی وجہ غذائی قلت اورقحط ہے جوہماری رگوں میں بری طرح سرائیت کرچکا ہے یہ
میری دلی دعا ہے اﷲ پاک ہم سب پر رحم فرمائے ۔ آمین۔اﷲ ہم سب کاحامی و ناصر
ہو۔۔۔۔۔ |