آج قوم نے دیکھ لیا ہے کہ ہے کہ حکومت چلانے کی نسبت
اپوزیشن کرنا کس قدر آسان کام ہوتاہے اور حکومت چلانے کے لیے کیا کیا پاپڑ
بیلنے پڑتے ہیں اس کی مثال کے لیے موجودہ حکومت ہمارے سامنے ہے جبکہ
اپوزیشن میں تو اخبارات اور نیوز چینلوں پر خبریں دیکھی اور تنقید کرڈالی ۔ہم
اپنے من پسند حکمرانوں کو کامیاب کرواکر ایوانوں میں تو لے آتے ہیں مگر خود
ہی یہ بھول جاتے ہیں کہ ان حکمرانوں نے بدلے میں ہم لوگوں سے کیا کیاوعدے
کیئے ہوتے ہیں،مگر یہ واحد حکومت ہے جس کے وعدے عوام بھولنے کی بجائے وفا
ہونے کے انتظار میں ہیں کیوں یہ وعدے تھے ہی اس قدر دلفریب کہ جسے نہ تو
بھولنے کو دل کرتاہے اور نہ ہی بھلانے کو۔نوازشریف نے اس ملک سے اندھیروں
اور دھشت گردی کے خاتمے کا نعرہ لگایا تھا ،جبکہ پیپلزپارٹی نے تو ہر دو ر
میں جہاں روٹی کپڑا مکان کا نعرہ لگایا وہاں غربت مٹاؤ مہم کو بھی اپنے
منشور میں شامل کیا مگر ان کی حکومت آنے کے بعد عوام نے نہ تو کبھی سودن کا
انتظار کیا اور نہ ہی ان باتو ں پر توجہ دی کی یہ لوگ عوام کو جواب دہ بھی
ہیں یہ واحد حکومت ہے جسے لوگوں نے اپنے لیے جادوئی چراغ سمجھا، مثلاً وزیر
خزانہ اسد عمر ایک جادوئی چراغ یعنی رگڑا تو مہنگائی کم ہوجائے گی ، مخدوم
شاہ محمود قریشی وزیرخارجہ جیسا رگڑا تو ہندوستان قدموں میں آگرے گا، شیخ
رشید وزیر ریلوئے جیسا اگر رگڑاتو لاہور سے کراچی کا کرایہ اڈھائی سو روپے
ہوجائے گا اور ریل گاڑی کے تمام ڈبے اے سی سلیپر ۔بلکل اسی انداز میں تمام
وزرا عوام کے لیے الہ دین کے چراغ کی صورت میں کام کرینگے یعنی عوام یہ
سمجھتے رہے کہ تحریک انصاف کی حکومت آئی تو سب کچھ الف لیلیٰ کی داستانوں
جیسا ہی ہوگا لہذا عوام پی ٹی آئی کو ووٹ دیکر اپنااپنا ٹکٹ تو کٹواچکے ہیں
مگر ابھی تک اس طلسماتی شہر کا دروازہ ان کے لیے نہیں کھولا گیاہے ،خیرمیں
یہ سمجھتا ہوں کہ حکومت کے سودن کے ایجنڈے کو تنگ نظری کی بجائے فراخ دلی
سے قبول کرنا چاہیے مگر یہ سو دن کا ایجنڈا ایسا بھی نہیں ہے کہ خاموشی سے
یا دبے پاؤں گزر رہاہوں، بلکہ پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ ہر کوئی یہ جاننے کے
لیے بے تاب ہے کہ وہ تبدیلی آخر کیا ہے؟ کچھ لوگ تو نئے پاکستان کے حوالے
سے اس قدر مشتاق دکھائی دیتے تھے اور یہ جاننے کی کوشش کرتے تھے کہ اس نئے
پاکستان میں موجود بلڈنگیں کیسی ہونگی ؟ لوگ یہ سمجھنے لگے تھے کہ دکانوں
پر اشیاء خوردونوش بھی اس قدر سستی ملے گی کہ ایک سو روپے کے نوٹ میں پورا
دن نکل جایا کریگا ،الیکشن سے قبل اس قسم کی صورتحال سے دوچارتھا بچارا
پرانا پاکستان کہ لوگ اس جادوئی دنیا میں آنے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ یہ
کہتے ہوئے نظر آئے کہ میں تو ووٹ تحریک انصاف کو ہی دونگا سامنے والا اگر
پوچھ بھی لیتا کہ بھائی وہ کیوں ؟ تو جواب آتا کہ تبدیلی کے لیے ؟۔ نئے
پاکستان کے لیے ؟ یہ ایک ایسی تحریک تھی جس نے بچے بڑے یہاں تک کے بوڑھوں
کو بھی اپنی جانب مائل کیا تھا اور خواتین کا تو یہ حال تھا کہ مت پوچھیے ۔میں
سمجھتا ہوں کہ عمران خان صاحب اگر اس سو روزہ ایجنڈے میں سترفیصد بھی
کامیاب ہوجائیں تو یہ تحریک انصاف کی حکومت کی بہت بڑی کامیابی ہوگی ،کیونکہ
عمران خان نے خود ہی اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ ہمارے سو دن ہی اس بات
کی عکاسی کرینگے کہ ہماری حکومت کس راستے پر گامزن ہے ،میں سمجھتا ہوں کہ
ان سو دنوں میں اگر مہنگائی پر قابو پالیا جائے اور تعلیم سمیت صحت کے نظام
میں ہی بہتری لائی جاسکی تو یہ عمران خان کی حکومت کی یقینی کامیابی ہوگی
یہ صرف تین چیزوں پر عملدرآمد ہی اس حکومت کو چارچاند لگادینے کے مترادف
ہونگیں، یہ وہ بنیادی سہولیات ہیں جو اس وقت آج اور گزشتہ کئی سالوں سے ہی
نظر انداز ہوتے چلے آئے ہیں ،کیونکہ اس ملک کا اصل مسئلہ کرپشن ہی نہیں ہے
بلکہ کچھ اور بھی ہے مثال کے طور پر عمران خان اس ملک سے کرپشن کا خاتمہ
کربھی دیں تو کیا ہوگا؟ یہ ہی کہ اس ملک میں نیک اور ایماندار لوگوں کا راج
ہوگا مگر نیک اور ایماندار ہونے سے مسجدیں تو آباد ہوسکتی ہیں مگر ملک نہیں
چلا کرتے اس ملک کو چلانے کے لیے ایسے ہی لوگوں کی ضرورت ہوتی ہیں جو تجربہ
کار ہوں اور باصلاحیت ہو اور جناب عمران خان کے ساتھ جو لوگ موجود ہیں وہ
ایماندار اور باصلاحیت نہیں ہوسکتے اگر ہیں، اور وہ اس طرح کے ایسا عمران
خان نے خود ہی کہا تھا اور یقینا اس ملک کا وزیراعظم جھوٹ تو کم ازکم نہیں
بولے گا نا، عمران خان نے اپنے دھرنوں میں گزشتہ حکومتوں پر جو چو ربازاری
کے الزامات لگائے ہیں وہ سب بے بنیاد بھی نہیں ہوسکتے کیونکہ ان ہی چوروں
اور ڈاکوؤں کی حکومتوں کو چلانے والے آج اس حکومت میں بھی دکھائی دے رہیں
ہیں ۔خیر میں بھی سو دن سے قبل زیادہ بولنے کا قائل نہیں ہو فی الحال جہاں
تک میں نے اوپر دیئے گئے تین ایشو زپر کام کرنے کی بات کی ہے اس میں سب سے
پہلے مہنگائی کا معاملہ ہے حکومت خود بتائے کہ اس دو مہینے میں کس
قدرمہنگائی کا طوفان مچا ہے پٹرول مہنگا ،سی این جی مہنگی ،حتٰی کے دالیں
اور سبزیاں بھی عام آدمی کی قوت خرید سے باہر ہیں،صحافیوں تک برا حال ہے
ملک کے بڑے بڑے اداروں میں وہ صحافی حضرات جو پچھے تیس تیس سالوں سے
نوکریاں کرتے رہے انہیں بغیر کسی وجہ کے نکالا جارہاہے ۔ایسا کیوں ہے ؟کیا
اس نئے پاکستان کے لیے ہر ایک شے پر بوجھ ڈالنا ضروری ہے ؟کیا غریب کی پیٹھ
کے پیچھے چھرا گھونپے بغیر یہ نیا پاکستان نہیں بن سکتا؟ کیا عوام کی جیبوں
پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈالے بغیر اس ملک کی معیشت کبھی ٹھیک نہ ہوسکے گی ،یہ تو
طے ہے کہ حکومت آئی ایم ایف کے پاس لازمی جائیگی اور یہ بھی ممکن نہیں ہے
کہ غریب عوام پر ٹیکسوں کابوجھ ڈالے بغیر ملک کے معاشی نظام کو درست کیا
جاسکے گا ، آج بھی ہسپتالوں کا وہ ہی حال ہے آج بھی مریض علاج معالجے اور
ادویات نہ ہونے کے باعث دربدرہیں اس ملک کا تعلیمی نظام اب پہلے سے بھی
زیادہ مشکلات کا شکار ہے وزیراعظم عمران خان نے اپنے اسلام آبادوالے دھرنے
میں کہاتھا کہ ان کے پاس 200ایسے ایکسپرٹ موجود ہیں جو اس ملک کی تقدیر کو
بدل دیں گے،ابھی تک حکومتی ٹیم میں ایک عاطف میاں جو شدید تنقید کے باعث
جاتے رہے اور دوسرے زلفی بخاری جو اس وقت شدید تنقید میں گھرے ہوئے ہیں
باقی 198ایکسپرٹ کدھر ہیں ؟اگر ہم موجودہ حکومتی وزرااورمشیروں کی بات کرتے
ہیں تو پھر یہ غلط بیانی ہوگی کیونکہ یہ تمام وزرااور مشیرحضرات جن کی
تعداد اگر 25ہے تو ان میں سے20لوگ تو پرویز مشرف اور دیگر جماعتوں کے
ایکسپرٹ تھے اگر یہ لوگ واقعی ملک چلانے میں ماہر تھے تو پھر وہ پچھلی
حکومتیں جن میں یہ ہی چہرے موجود تھے تو ان حکومتوں کو گرانے اور گندہ کرنے
کی کیا ضرورت تھی ؟ ۔ آپ نے کہا تھا کہ 8ہزارارب جمع کرینگے جس سے قرضے کی
ضرورت نہیں پڑیگی،مگر آپ کے وزیرخزانہ اسد عمر تو کہتے ہیں کہ ہمارے پا س
آئی ایم ایف کے پاس جانے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے ،کوئی پوچھے کہ تبدیلی
اگر یہ تھی کہ نوازشریف جائے اور عمران خان آجائے تو پھر کیا یہ تبدیلی
نہیں تھی کہ زرداری گیا تو نوازشریف آگیا؟ مطلب یہ تو ہوئی چہروں کی تبدیلی
اور معاملہ اگر نظام کی تبدیلی کا ہے تو پھر موجودہ نظام آج سے دو ماہ پہلے
والی حکومت سے زیادہ عوام کو بھاری پڑ رہاہے ،بلکہ اس نئے پاکستان کا آدمی
اس انتظار میں مزید چڑچڑا اوربدمزاج سا ہوگیاہے کہ ہر ایک نقصان کی صورت
میں اب یہ ہی کہتا دکھائی دے رہاہے کہ "بھائی نیا پاکستان ہے یہ" ۔ یعنی
نئے پاکستان کا نعرہ اب مذاق بن چکاہے۔خیر سے میں موجودہ حکومت کے لیے دعا
گو ہوں کہ وہ اپنا ہر وعدہ پورا کرے اور یہ امید رکھنا چاہتاہوں کہ جس روز
اس حکومت کے سو دن پورے ہونگیں اسی دن عوام کو رزلٹ یقینی طورپر نظر آئیگا
کہ عمران خان کی حکومت نے فلاں فلاں کارنامہ سرانجام دیاہے مگر فی الحال اس
ملک میں ہر روز کے حساب سے مہنگائی کا جن شور مچا رہا ہے اور اس کے ساتھ
ساتھ غریب عوام کی چیخیں بھی واضح طورپرسنائی دے رہی ہیں مگر کیا کریں بس
ابھی صبر کے ! سو دن پورے نہیں ہوئے ۔ |