پاکستان کے نو منتخب وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اقوام
متحدہ کے 73 ویں جنرل اسمبلی کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے بھارتی ہٹ دھرمی
، لائن آف کنٹرول کے قوانین کی خلاف ورزی ، مسئلہ کشمیر ،امریکہ کے دوہرے
رویوں اور منافقانہ پالیسیوں ، مسئلہ فلسطین ، گستاخانہ خاکوں، مودی کے
منفی رویے سے مذاکرات میں تاخیر، سارک تنظیم کی غیر فعالی، بھارت کی جانب
سے کی جانے والی دہشتگردوں کی مالی معاونت ، سانحہ پشاور اے پی ایس اور
مستونگ کے ذمہ داروں کیلئے بھارتی پشت پناہی ، افغان پناہ گزینوں کی واپسی
کے مسائل پر روشنی ڈالی اور اس بارے میں پاکستان کا مؤقف واضح کیا ہے۔
پاکستان کے مؤقف کی تائید بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے رویے، وزیر
خارجہ سشما سوراج کے جنرل اسمبلی میں خطاب اور وزیر اعظم آزاد کشمیر کے
ہیلی کاپٹر پر بھارتی فوج کی فائرنگ نے کر دی ہے۔ یہاں شاہ محمود قریشی کا
یہ بیا ن کہ دنیا دوہرے رویے اور منافقانہ پالیسیوں سے عالمی امن کو نقصان
دے رہی ہے ،سچ ثابت ہوتا ہے! اور امریکہ نے ہمیشہ بھارت کی ہر ہٹ دھرمی کے
بعد اس کی پشت پناہی کی ہے۔ شاہ محمود قریشی نے پاکستانی مؤقف کو بلا
خوشامد اقوام متحدہ میں پیش کیا ہے جو قابل ستائش ہے۔ انہوں نے ساری باتیں
بہت عمدہ کہی ہیں لیکن میں انہیں دو باتوں کی وجہ سے بہت سراہنا چاہتا ہوں۔
پہلی یہ کہ انہوں نے اردو زبان میں خطاب کر کے امریکہ اور دنیا کو یہ بتا
دیا ہے کہ پاکستان ایک قوم ہے او ر اس کی زبان اردو ہے جو کہ پہلے کے
حکمران چھپاتے آئے ہیں ۔ ملکی شرح خواندگی اور ترقی کی شرح میں کمی کی بڑی
وجہ میری نذر میں یہی ہے کہ ہم نے نظام تعلیم اور ترقی کا راستہ اپنی قومی
زبان میں طے کر نے کی بجائے انگریزی میں سفر شروع کر رکھا ہے ۔ جب تک ہم
کسی قابل ہوتے ہیں تب تک ہمیں فکر معاش نے گھیر لیا ہوتا ہے اور اس طرح
ہمارے اہل علم لوگ بھی ملک کے لئے کچھ نہیں کر پاتے۔
دوسری بات جو مجھے پسند آئی ہے وہ ان کی جانب سے گستاخانہ خاکوں کی اشاعت
اور ہالینڈ حکومت کی جانب سے مقابلہ کروانے کی مذمت ہے۔ یہ پہلی بار ہوا ہے
کہ کسی پاکستانی وزیر خارجہ نے مسلمانیت اور عشق رسالت ﷺ کا سوزسینے میں
رکھتے ہوئے اسلامیت کا ثبوت دیا ہے ۔ انہوں نے واضح طور پر اپنے بیان میں
ثابت کیا ہے کہ اس دنیا میں صرف ایک ہی دین اور وہ اسلام ہے۔ جیسا کہ اﷲ نے
فرمایا : میرے نزدیک صرف ایک ہی دین ہے اور وہ ہے اسلام !باقی تمام مذاہب
کو انہوں نے تہذیبیں قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم تہذیبوں کے ساتھ ٹکراؤ کی
پالیسی نہیں چاہتے بلکہ اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم پر سب کے ساتھ مل کر چلنا
چاہتے ہیں۔ مغربی دنیا گستاخانہ خاکوں کی اشاعت اور ایسے معاملات پیدا کر
کے مسلمانوں کی دل آزادی کرنے سے گریز کریں ۔ یعنی انہوں اقوام متحدہ میں
آزادی اظہار میں حدود رمقرر کرنے پر بات واضح کی ہے ۔
انہوں نے بھارت کی جانب سے مسلسل مسئلہ کشمیر پر مذاکرات میں ہٹ دھرمی ،
پاکستان کے متعلق پالیسیوں میں ہرزہ سرائی، لائن آف کنٹرول پر بلا اشتعال
فائرنگ اور عالمی قوانین کی مسلسل خلاف ورزی ، بھارتی آرمی چیف ، میڈیا اور
بھارتی حکومت کی جانب سے امن مخالف ، جنگ آمادہ بیانات کی روشنی میں تمام
ممالک کو آگاہ کیا ہے کہ ہمیں پاکستان کی سالمیت اور بقاء سے بڑھ کر کچھ
عزیز نہیں ۔ اسی ضمن میں انہوں نے عالمی دنیا کی منافقانہ پالیسیوں کا ذکر
کرتے ہوئے کہا ہے کہ تمام ممالک صرف ذاتی فائد ے کو ترجیح دیتے ہوئے پوری
دنیا کے امن و امان کی صورتحال کو خراب کئے ہوئے ہیں خاص طور پر مسلم ممالک
کے۔ فلسطین کے معاملے پر بھی انہوں نے آواز اٹھائی ہے اور بھارت کس طرح
پاکستان کے داخلی معاملات میں دخل اندازی کر رہا ہے۔ خطے میں امن و امان کی
صورتحال کو خراب رکھنے کیلئے کس طرح وہ دہشتگرد گروپوں کی مالی معاونت کر
رہا ہے والی بات بھی منظر عام پر لائے ہیں ۔ اس طرح انہوں نے اپنے ان
بیانات میں پاکستانیت اور انسانیت کا پرچار کیا ہے جو کہ خوش آئند ہے ۔ ان
سے پہلے بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے اسی اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے بات
کم اور پاکستان کے خلاف زہر زیادہ اگلا ۔ لیکن وہیں انہوں نے جو خطے کیلئے
سائنسی سفر میں ترقی کی وہ قابل قدر ہے ۔ بھارتی معیشت پاکستان کی نسبت
کافی حد تک مضبوط ہوئی ہے اور اس وقت بھارت ایشیاء کا بہترین آٹی ٹیکنالوجی
میں درآمدات کرنے والا بڑاملک ہے ۔بھارت کی شرح خواندگی بھی پاکستان کی
نسبت کہیں زیادہ ہے۔ لیکن بھارتی معیشت کو سب سے بڑا سہارا اسرائیل کی خفیہ
فنڈنگ اور اسلحہ کی فروخت پر ہو رہا ہے جسے وہ چھپاتے ہیں ۔ پاکستان ایک
امن پسند ملک ہے اس لئے وہ اسلحہ کا ایسا مذموم و منہوس کاروبار نہیں کرتا
جس سے خطے کی امن و امان کی صورتحال تباہ ہو سکے۔
شاہ محمود قریشی نے دنیا کے سامنے اسلامیت ، انسانیت اور پاکستانیت کا
پرچار کرتے ہوئے سبق دیا ہے کہ پاکستان سمیت دوسرے مسلم ممالک کا بھارت
سمیت دیگر غیر مسلم ممالک سے علیحدگی کے پیچھے کیا نظریہ ہے۔لیکن افسوس کی
بات ہے کہ پاکستان کے پاس اس سے بڑھ کر کچھ کہنے کو نہیں کہ پڑوسی ہمارے
ملکی معاملات میں مداخلت کرتا ہے، دہشتگردی کو ہوا دیتا ہے اور ہم نے خطے
سے دہشتگردی کے خاتمے کیلئے بیش بہا قربانیاں دی ہیں۔سارک کانفرنس صرف ایک
ملک کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہونے کا اقرار کرنے کا مطلب شاہ محمود قریشی
نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ سفارتی سطح پر پاکستان بھارت سے شکست تسلیم
کرتا ہے۔کاش ہم بھی وہاں یہ کہہ سکتے کہ ہم نے میڈیکل سائنس میں یہ ایجادات
کی ہیں! ہم نے ملک سے پانی کے فقدان سے لڑنے کیلئے یہ اقدامات کئے ہیں! ہم
نے ملکی معیشت کو مضبوط بنانے کیلئے معاشی و اقتصادی خسارے کو پورا کرنے
کیلئے فلاں انڈسٹریل زون ، ریکو ڈک منصوبے کو تکمیل پر گامزن کر دیا ہے، سی
پیک کا منصوبہ ا ب چین کے ہاتھ میں کم اور پاکستان کے پاس زیادہ ہے۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی کے میدان میں ایجادات ہونے لگی ہیں، شرح تعلیم میں
اضافہ ہو گیا ہے او ر بنیادی سہولیات تک رسائی ہر عام آدمی کی ہے۔ جب تک
عام آدمی پر سکون نہیں ہوگا تب تک ملک میں شعور و آگہی اور ترقی و خوشحالی
کے خواب دیکھنے بے سود ہیں۔
|