بسم اﷲ الرحمن الرحیم
پاکستان کو سرجیکل سٹرائیک کی دھمکیاں اورمذاکرات سے انکار پر یہ بات واضح
ہو رہی ہے کہ مودی سرکار آئندہ انتخابات بھی اپنی کارکردگی کی بجائے
پاکستان مخالف مہم کی بنیاد پر جیتنا چاہتی ہے ۔جوں جوں بھارتی انتخابات
قریب آرہے ہیں توں توں بھارتی رویے میں بھی جنگی کیفیت بڑھتی جارہی ہے ۔اگرچہ
گزشتہ سرجیکل سٹرائیک پر بھارت کی نہ صرف عالمی سطح پر جگ ہنسائی ہوئی تھی
بلکہ ملک کے اندر بھی مودی سرکار کو خفت کا سامنا اٹھانا پڑا تھا تاہم اس
کے باوجود بھارت سرکار نے اپنے زیرِ انتظام کشمیرمیں تمام پبلک سکولوں میں
ان نام نہاد سرجیکل سٹرائیکس ڈے منانے کی ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا گیا ہے
کہ وہ دوسال مکمل ہونے پر خاص تقریبات کا اہتمام کروائیں جو تین دن جاری
رہیں گی ۔حکومت کی جانب سے جاری سرکلر میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ محکمہ
تعلیم کے افسران ان تقریبات کا ثبوت یکم اکتوبر کو پیش کریں ۔ محکمہ تعلیم
نے جن ممکنہ سرگرمیوں کی نشاندہی کی ہے ان میں ان اسکولوں میں جہاں نیشنل
کیڈٹ کور کے یونٹ موجود ہیں خصوصی پریڈوں کا اہتمام کرکے ان پر سابق تجربہ
کار فوجیوں کو ترغیبی تقاریر کرنے کے لئے مدعو کرنا اور ان میں اور تمام
دوسرے اسکولوں میں طالبعلموں کی طرف سے قریبی فوجی یونٹس کو مبارکبادی اور
حوصلہ افزائی کے خطوط اور کارڈ بھیجنا شامل ہیں۔ ہر اسکول کی انتظامیہ پر
اس کے طالبعلموں کو سادہ کارڈ فراہم کرنا لازمی قرار دے دیا گیا ہے۔دنیا
دیکھ رہی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے سکول اس وقت بھارتی فوج کی جارحیت کے زیر
عتاب ہیں ۔ان سکولوں میں زیر تعلیم بچے تحریک آزادی میں پیش پیش نظر آرہے
ہیں ۔گزشتہ سال بھارتی سرکار نے ان سکولوں میں ہونے والے احتجاج اور
پاکستان کے قومی ترانے پڑھے جانے کے باعث کچھ عرصہ تک بند رکھا ۔آزادی کی
یہ تحریک اب سکول کے بچوں تک پہنچ چکی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ آئے روز سکولوں کے
بچے بھی بھارتی فوجیوں کی جارحیت کا شکار ہورہے ہیں گزشتہ دو سالوں میں
درجنوں کیس ایسے آچکے ہیں جن میں بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں کئی بچے پیلٹ
گنوں کا شکار ہو کر اپنی آنکھوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں یا وہ اپنی جانوں کا
نذرانہ دے چکے ہیں۔ایسے موقع پر ان سکولوں میں زبردستی ایسی مہم کسی نئے
حادثہ کو جنم دے سکتی ہے ۔
جن دنوں بھارتی سرکار یہ سرکلر جاری کر رہی تھی انہی دنوں مقبوضہ کشمیر میں
جاری مزاحمتی تحریک کی وجہ سے ہڑتال اور جلسہ و جلوس کا سلسلہ جاری تھا ۔اس
ہڑتال کے دوران سرینگر اور وادی کشمیر کے بعض علاقوں میں مظاہرے کئے گئے
اور چند ایک مقامات پر مشتعل ہجوموں اور سرکاری دستوں کے درمیان جھڑپیں
ہوئیں۔جس کے باعث کشمیری نوجوانوں کی بڑی تعداد زخمی ہوئی جبکہ بہت سوں کو
گرفتار کر لیا گیا ۔لیکن افسوس یہ ہے کہ مودی سرکار کے سر پر جنونیت طاری
ہے اور وہ ہر حال میں اس خطے میں ہندو توازم کو فروغ دے کر ایک متشدد ریاست
میں تبدیل کرنا چاہتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک سینئر
لیڈر اور ریاست کے سابق نائب وزیرِ اعلیٰ اور ریاستی قانون ساز اسمبلی کے
سپیکر ڈاکٹر نرمل سنگھ نے اسکولوں میں 'سرجیکل سٹرائیکس ڈے' منانے کے لئے
جاری کردہ حکم نامے کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ''پورا ملک سرجیکل اسٹرائیکس
ڈے منارہا ہے۔ پاکستان تین تین جنگیں ہار چکا ہے۔ وہ دَرپردہ جنگ کے ذریعے
ہمارے حوصلے پست نہیں کرسکتا۔ وہ تشدد اور دہشت گردی کو ایک آلے کے طور پر
استعمال کررہا ہے۔ لیکن یہ اُس کے لئے اُلٹی پڑنے والی کیل ثابت ہوگی اور
یہ طے ہے کہ اگر پاکستان اپنی حرکتوں سے باز نہیں آتا تو خود اُس کے ٹکڑے
ہوں گے۔ ہماری فوج نے دو سال پہلے جو کچھ کیا تھا وہ اُس کی بہادری کا بّین
ثبوت ہے۔ اُسے یاد کرنا بچے بچے کے لئے ضروری ہے''۔تاہم دوسری جانب علاقائی
عوامی اتحاد پارٹی کے سربراہ انجینئر رشید نے اسکولوں میں 'سرجیکل
اسٹرائیکس ڈے' منانے پر اپنا ردِ عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ کشمیری عوام کو
ریاست میں جاری تشدد کی وجہ سے بے پناہ مصائب کا سامنا ہے اور جس چیز کو وہ
بھولنا چاہتے ہیں بھارتی حکومت انہیں وہی یاد دلانا چاہتی ہے۔سرکلر جاری
کرنا قابلِ افسوس ہے۔ اس ریاست نے 70 برس اور خاص طور پر گزشتہ تین دہائیوں
کے دوران مار دھاڑ، قتل و غارت گری اور لاشیں دیکھی ہیں۔ گھر اجڑتے دیکھا
ہے۔ یہاں کے بچے پہلے ہی صدمے سے دوچار ہیں، نفصیاتی بیماریوں میں مبتلا
ہیں۔ انہیں اور ہم سب کو امن کی ضرورت ہے۔ لیکن بدقسمتی سے دِلّی سرکار
چاہتی ہے کہ ہم امن کی بحالی کی خواہش کرنے کی بجائے تشدد سے جڑے واقعات کی
یاد میں جشن منائیں۔ یہ ناقابلِ قبول ہے۔حیرت یہ ہے کہ جن سرجیکل سٹرائیکس
کو بھارت آج تک اپنے میڈیا اور دوسرے لوگوں کے سامنے پیش نہیں کر سکا ان کے
نام پر تقریبات کیسے منائی جا سکتی ہے ۔بھارت میں مبنیہ 'سرجیکل اسٹرائکس'
کی سالگرہ پر کئی تقریبات کا اہتمام کیا گیا۔ ان میں راجستھان کے تاریخی
شہر جودھ پور میں ایک تصویری نمائش کا انعقاد بھی شامل ہے، جس کا افتتاح
وزیرِ اعظم نریندر مودی نے کیالیکن بھارتی اخبار ’ٹائمز آف انڈیا‘ کے مطابق
بھارتی حکومت کے 'سرجیکل اسٹرائکس' کی دوسری سالگرہ کو ملک میں آئندہ سال
ہونے والے عام انتخابات کے پس منظر میں ملک بھر میں تین دن تک بڑے پیمانے
پر منانے کے فیصلے کو نہ صرف فوجی قیادت نے ناپسند کیا بلکہ دفاعی اداروں
سے وابستہ دیگر افراد بھی بھارت سرکار کے اس ایڈونچر ازم کے فیصلے پر تنقید
کر رہے ہیں جبکہ کئی فوجی افسروں نے 'سرجیکل اسٹرائیکس' کو سیاست سے جوڑنے
کی ان مسلسل کوششوں پر بے کلی کا اظہار کیا ہے اور کہا ہے کہ خفیہ فوجی
آپریشنز کو سیاسی لڑائیوں میں سبقت لے جانے کے لئے غیر ضروری طور پر
استعمال نہ کیا جائے۔
بھارت کے اس رویے نے نہ صرف جنوبی ایشیا میں امن کی ان کوششوں کو ثبوتاز
کیا ہے جو خطے کی بہتری کے لیے کی جارہی ہیں بلکہ دونوں ممالک کی افواج کے
ایٹمی اسلحہ سے لیس ہونے عالمی سطح پر بھی تشویشناک صورتحال کو جنم دیا ہے
۔ عالمی تعلقات سے واقفیت رکھنے والے جانتے ہیں کہ دنیا کا کوئی بھی ملک
کسی کو اس طرح کھلے بندوں جارحیت کا دھمکی دینے کا مطلب اعلان جنگ ہے ۔یہی
وجہ ہے کہ پاکستان نے دنیا کے سب سے بڑے فورم پر بھارت کو خبردار کر دیا ہے
کہ کسی بھی قسم کے ایڈونچر کی صورت میں اسے بھرپور جواب ملے گا۔ دنیا میں
شاید ہی کوئی ملک ایسا ہو کہ جس کا آرمی چیف اس طرح مخالف ملک کو سرجیکل
سٹرائیک کی دھمکی دے۔ بھارتی حکومت ، آرمی چیف اور ان کے وزراء کے بیانات
سے ثابت ہو رہا ہے کہ ان کے لیے اپنا اقتدار اور آئندہ آنے والے انتخابات
خطے کے امن ، خوشحالی اور استحکام سے کہیں ذیادہ اہم ہے ۔ اس موقع پر راجیو
گاندھی کا وہ بیان یاد آرہا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہماری ریاست کو
کسی اور سے نہیں بلکہ ہندو تواازم سے خطرہ ہے اور ریاست بھارتی جنتا پارٹی
کے قائدین کی متشدد پالیسیوں کے باعث اپناسیکولر ازم کا ڈھانچہ کھو دے گی ۔
یہ بات تو روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان میں سرجیکل سٹرائیک کرنا
بھارتی فوج کے لیے خطرے سے خالی نہیں ۔پاکستان ایسی گیڈر ببھکیوں سے متاثر
ہونے والا نہیں ۔پاکستان کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے تاہم بھارت کے اس
رویے ، بیانات اور انتخابی مہم نے ایک نئی صورتحال پیدا کر دی ہے جو
علاقائی امن اور استحکام کو براہ رست متاثر کر سکتی ہے ۔ پاکستان کی نئی
حکومت نے اگر امن کے لیے ہاتھ آگے بڑھایا ہے تو اس کا مطلب کمزوری لینے کی
بجائے جنوبی ایشیا کے عوام کے لیے بھارت کو مثبت جواب دینا چاہیے ۔بھارت
سرکار پاکستان دشمنی کی بنیاد کی بجائے اپنی کارکردگی انتخابات لڑے کیونکہ
ہو سکتا ہے اس مرتبہ اسے بھارت کے اندر سے وہ پذیرائی نہ مل سکے ۔
|