کچھ لباس ایسے ہوتے ہیں اور کسی کی جسامت اور چلنے کا
انداز ایسا ہوتا ہے کہ معلوم نہیں پڑتا کہ وہ آ رہا ہے یا جا رہا ہے۔
اسی طرح سے اس حکومت کے اقدام سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ اُس کی سمت کیا ہے ؟
کبھی مہنگائی جاتی نظر آتی ہے اور چند ہی لمحوں میں بڑی قوت سے آ رہی ہوتی
ہے ۔
کہا جاتا ہے کہ قرض نہیں لیں گے اور دوسری طرف خبر چل رہی ہوتی ہے کہ
اُدھار دینے والوں سے مذاکرات بھی چل رہے ہیں اور ذہنوں میں خدشات بھی پل
رہے ہیں ۔
سادگی جہازوں ہیلی کوپٹروں اور بڑی گاڑیوں میں آبھی رہی ہوتی ہے اور جا بھی
رہی ہوتی ہے اور اُن میں امیر ترین لوگ سادہ لباس میں ملبوس سادگی کا درس
دیتے اور سادہ سگار پیتے نظر آتے ہیں ۔
بیچارے سادہ عوام ایسی سادگی اختیار کرنے کا تصور بھی نہیں سکتے ہیں۔
ایسی رنگین سادگیوں کو صرف دور سے دیکھا جا سکتا ہے ۔
ہم تو پورا وقت دینے کو تیار ہیں نئی حکومت کو مگر نئی حکومت کو بھی کچھ
وقت اپنے آپ کو دے کہ وہ آخر جانا کس طرف چاہ رہی ہے ۔
سی پیک کو چلتے رہنا ہے یا اُس سے ہاتھ دھو کر ہاتھ مَلتے رہنا ہے۔ میڈیا
کے ہاتھ کھولنے ہیں یا باندھنے ہیں ، پڑوسی مُلک سے دوستی کرنا ہے یا
دُشمنی ، پی ایم ہاؤس میں رہنا ہے یا فارم ہاؤس میں رہنا ہے ۔
عوام کو پتہ ہونا چاہیے کہ حکومت کی منشاء کیا ہے اور حکومت کو معلوم ہونا
چاہیے کہ عوام کی منشا پر چلنا ہے یا کسی اور کی منشا پر چلنا ہے جو منشا
بم بن کر نہ گر جاۓ ۔
وہ ایک فیصلہ کر ڈالے کہ قبضہ گروپ اور دولت چھُپانے والوں کے ساتھ ہے یا
اُن کے خلاف ہے۔ جو بھی وہ کرے اگر عوام اور مُلک کے مفاد میں ہے تو سب
ساتھ دینگے ۔
پچھلی حکومت کا رونا رونے سے اب کام نہیں چلے گا ۔
آپ کو ہی کچھ کر کے دکھانا پڑے گا ۔
اب آپ کو یقین آجانا چاہیے کہ حکومت آپ کی ہے ۔ |