اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے ۷۳ ویں اجلاس سے خطاب کرتے
ہوئے وزیرخارجہ پاکستان شاہ محمودقریشی نے اپنی قومی زبان اردومیں خطاب
کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ برابری اوراحترام کے رشتے کا
خواہاں رہاہے۔اقوام متحدہ میں بات چیت کااچھاموقع تھا جومنفی رویہ کی وجہ
سے مودی حکومت نے کھودیا۔ٹکٹوں کے معاملے کوبہانہ بنایاگیا۔مقبوضہ
کشمیرکامسئلہ سترسال سے اقوام متحدہ کے ایجنڈے پرموجودہے ۔سترسالوں سے
کشمیری عوام مظالم برداشت کررہے ہیں۔جب تک مسئلہ کشمیرپراقوام متحدہ کی
قراردادوں پرعمل درآمدنہیں ہوتاجنوبی ایشیامیں امن نہیں آسکتا۔اقوام متحدہ
کی رپورٹ میں بھارت کامکرہ چہرہ فاش ہواہے ۔بھارت کوہمارے صبرکاامتحان نہیں
لیناچاہیے۔بھارت کی طرف سے سرحدپرکسی بھی جارحیت کابھرپورجواب دیاجائے
گا۔اگربھارت نے کسی محدودجنگ کی پالیسی پرعمل پیراہونے کی کوشش کی
توبھرپورجواب کاسامناکرناہوگا۔مقبوضہ کشمیرمیں قتل عام کیاجارہا ہے۔مودی
حکومت نے تیسری با ر مذاکرات کاموقع گنوادیا۔کلبھوشن بھارت کی پاکستان میں
مداخلت کاثبوت ہے۔بھارت کے مکروہ چہرے کوبے نقاب کرتے ہوئے شاہ محمودقریشی
کاکہناتھا کہ جنوبی ایشیامیں ایک ملک کی وجہ سے سارک کے پلیٹ فارم
کوغیرفعال بنایاگیا ہے۔افغانستان میں داعش کی بڑھتی ہوئی عمل داری باعث
تشویش ہے۔پاکستان افغان سرپرستی میں ہونے والی تمام کوششوں کی حمایت کرے
گا۔پاکستان مربوط مذاکرات کے ذریعے مسائل کاحل چاہتاہے۔وزیرخارجہ کاکہناتھا
کہ پاکستان اپنے قومی مفادات پرکسی قسم کاسمجھوتہ نہیں کرے گا۔آج دنیاایک
دوراہے پرکھڑی ہے۔دنیاکے بنیادی اصول متزلزل دکھائی دے رہے ہیں۔برداشت کی
جگہ نفرت اورقانون کی جگہ اندھی اوربے لگام طاقتیں غلبہ پارہی ہیں۔دنیا میں
نئے راستوں کی جگہ رکاوٹیں اورنفرتوں کی فصلیں کھڑی کی جارہی ہیں۔سامراجیت
کی نئی شکلیں پروان چڑھ رہی ہیں۔گستاخانہ خاکوں کے حوالے سے بات کرتے ہوئے
وزیرخارجہ نے کہا کہ مہذ ب اقوام میں متعصبانہ سوچ پروان چڑھ رہی ہے ۔
گستاخانہ خاکوں کی وجہ سے مسلمان ممالک کوٹھیس پہنچی۔بڑھتی اسلام دشمنی
کابھرپورمقابلہ کریں گے۔سلامتی کونسل کومزیدجمہوری اورموثردیکھناچاہتے ہیں
۔ پاکستان قومی مفادات اورملکی سلامتی کے تحفظ پرکوئی سمجھوتہ نہیں کرے
گا۔تجارتی جنگ کے گہرے بادل افق پرنمودارہوچکے ہیں۔دوسری جنگ عظیم کے
بعدبین الاقوامی اتفاق رائے کی جگہ ایک مبہم عسکری سوچ نے لے لی ہے۔یہ عمل
عالمی امن کے لیے خطرناک ہے۔عالمی تنازعات کے ساتھ ساتھ نئے تفرقات جنم لے
رہے ہیں۔جب کہ مسئلہ فلسطین آج بھی اپنی جگہ موجودہے۔مشرق وسطیٰ کے حالات
باعث تشویش ہیں۔شاہ محمودقریشی نے اقوام عالم پرواضح کیا کہ پاکستان آزادی
سے لے کراقوام متحدہ کافعال رکن رہاہے اوراقوام متحدہ کے امن مشن میں
سرفہرست ہے۔وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی نے کہا ہے کہ امریکی صدرٹرمپ سے ایک
استقبالیے میں غیررسمی ملاقات ہوئی ۔جس میں ان سے پاکستان امریکاتعلقات
بارے بات چیت کاموقع ملا۔ امریکی صدرنے پاکستان امریکاتعلقات از
سرنوتعمیرکرنے پراتفاق کیاہے۔وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی نے امریکی رکن
کانگریس اورایوان نمائندگان کی خارجہ اموراورمسلح افواج بارے کمیٹیوں کے
رکن جوئے ولسن سے ملاقات کی۔اس موقع پروزیرخارجہ نے کہا کہ اقتصادی تنظیم (ای
سی او) کے رکن ممالک کے مابین برادارانہ تعلقات سے علاقائی رابطوں کے
منصوبوں کومزیدتقویت دی جاسکتی ہے۔جب کہ امریکی حکام نے کہا ہے کہ خطے میں
مشترکہ مقاصدکے حصول کے لیے دونوں ممالک کے درمیان تعاون جاری رکھنے کی
ضرورت ہے۔وزیرخارجہ نے دہشت گردی کے مقابلے کے حوالے سے پاکستان کی
استعدادمیں اضافے کے لیے امریکی کانگریس کی معاونت کوسراہا۔ای سی او کے
پچیسویں غیررسمی وزارتی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے وزیرخارجہ نے پاکستان چین
اقتصادی راہداری کوباہمی رابطے کی عظیم مثال قراردیا۔شاہ محمودقریشی نے کہا
کہ پاکستان راہداری معاہدوں میں معاونت کے لیے اپنے ریل اوربنیادی ڈھانچے
کوبہتربنارہاہے۔ہمسایوں کے ساتھ مصنوعات کی نقل وحمل میں آسانی ہو۔استنبول
،تہران استنبول راہداری اورپاکستان ایران ترکمانستان ریل رابطے کوبھی فعال
بنایاجارہا ہے۔وزیرخارجہ نے ای سی اوتجارتی معاہدے پربھی نظرثانی کی حمایت
کی۔جس کامقصدای سی اوخطے کے اندرآزادانہ تجارت کوفروغ دیناہے۔شاہ
محمودقریشی نے ای سی اوٹرانزٹریڈ فریم ورک کی بھی حمایت کی جس سے خطے میں
شمال اورجنوب ،یورپ اورایشیاکے مابین روابط مضبوط ہوں گے۔کویت کے نائب
وزیراعظم نے پاکستان کے وزیرخارجہ سے ملاقات میں دوطرفہ تعلقات بڑھانے
پرزوردیا۔جب کہ وزیرخارجہ نے زراعت، ایگروانڈسٹری اورفشریزکے شعبے میں
تجارت اورسرمایہ کاری بڑھانے پرزوردیا۔امریکی ٹی وی کودیے گئے انٹرویومیں
وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی نے کہا کہ میں یہاں ڈالریاامدادکی بات کرنے نہیں
آیا۔میں یہاں پاکستان اورامریکاکے کشیدہ تعلقات میں بہتری کے لیے آیاہوں۔جس
کافائدہ دونوں ملکوں کوہوگا۔ہم کافی عرصے سے اتحادی رہے ہیں اب وقت ہے کہ
مضبوط تعلقات کودوبارہ سے استوارکیاجائے۔پاکستانی قید میں موجودشکیل آفریدی
کے معاملے پروزیرخارجہ نے کہا کہ اس معاملے پرامریکی ہم منصب مائیک
پومپیوسے بات ہوسکتی ہے۔لیکن شکیل آفریدی کامستقبل سیاست سے نہیں عدالت سے
جڑاہے۔شکیل آفریدی کوقانونی عمل کے بعدسزادی گئی۔جس طرح ہم امریکی قانون
کااحترام کرتے ہیں امریکاکوبھی ہمارے قانون کا احترام کرناچاہیے۔وزیرخارجہ
شاہ محمودقریشی نے اس بات کااعتراف کیا کہ دونوں ممالک کے تعلقات سردمہری
کاشکارہیں۔ٹرمپ کے عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعدسے پاکستان سے مسلسل دہشت
گردوں کے خلاف کارروائی کامطالبہ کیاجارہا ہے۔لیکن یہ ناانصافی ہے کہ پڑوسی
ملک افغانستان میں عدم استحکام کاذمہ دارپاکستان کو ٹھہرایا جائے۔وزیرخارجہ
شاہ محمودقریشی نے کہا کہ جب آپ مشکل میں ہوتے ہیں توقربانی کے بکرے تلاش
کرتے ہیں۔وزیرخارجہ نے کہا کہ پاکستان امریکاکی مدداورمعاونت کے لیے تیارہے
۔ہم سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں امن اوراستحکام ہمارے مفادمیں ہے۔نیویارک
میں وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی سے قطری ہم منصب محمدبن عبدالرحمن نے ملاقات
کی۔جس میں باہمی تعلقات اورتعاون کوفروغ دینے پراتفاق ہوا۔اس موقع پرقطرکے
وزیرخارجہ محمدبن عبدالرحمان نے ایک لاکھ ہنرمندپاکستانیوں کوملازمت دینے
کی پیش کش کردی۔شاہ محمودقریشی سے اوآئی سی رابطہ گروپ برائے مقبوضہ
کشمیراراکین نے بھی ملاقات کی ۔اس موقع پروزیرخارجہ کاکہناتھا کہ بھارت کی
بڑھتی ہوئی جارحیت کے خلاف پاکستان دنیاکے تمام فورمزپرآوازبلندکرتارہے
گا۔کشمیری عوام خود کو اکیلاتصورنہ کریں ان کوہرممکن مدددیتے رہیں گے۔شاہ
محمودقریشی نے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے مطالبہ کیاکہ وہ اس اہم
ایشوپرایک اعلیٰ سطحی کمیشن تشکیل دیں تاکہ ظالم بھارتی فوجیوں کااصل چہرہ
دنیاکے سامنے لایاجاسکے۔ کشمیری عوام اپنے حق خودارادیت کی جنگ لڑرہے
ہیں۔آج بھارت اوربڑی طاقتیں جان لیں کہ کشمیریوں کی آزادی تک پوری دنیامیں
امن قائم نہیں ہوسکتا۔کشمیرکے مسئلے پراوآئی سی کاکردارقابل تحسین ہے۔اس
گروپ نے فلسطین اورکشمیرکے ایشوز پر جس جرات مندانہ طریقے سے
کرداراداکیااسے فراموش نہیں کیاجاسکتا۔نجی ٹی وی سے گفتگوکرتے ہوئے شاہ
محمودقریشی نے کہا کہ اقوام متحدہ میں بہت سے ممالک کے حکام سے اہم
ملاقاتیں ہورہی ہیں ایکشن فارپیس گینگ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے
وزیرخارجہ نے کہا کہ پاکستان نے گزشتہ پانچ دہائیوں میں یواین مشن کے لیے
دولاکھ سے زائداہلکاربھیجے۔جدیدپیس کیپنگ کومتددچیلنجزکاسامناہے۔ہمیں پیس
کیپنگ میں توازن قائم کرنے کی ضرورت ہے۔سیکیورٹی کونسل ریفارمزگروپ کے
ارکان سے ملاقات کرتے ہوئے وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی نے کہا کہ پاکستان
سیکیورٹی کونسل ریفارمزکومزیدفعال بنانے کا خواہش مندہے۔ان ریفامزسے دنیاکے
تمام ممالک کواقوام متحدہ میں مستقل سیٹوں پرشامل ہونے میں مددملے گی۔ہم
تبدیلی کے نام پراستحصال کے حامی نہیں۔نیویارک میں نجی ٹی وی سے گفتگوکرتے
ہوئے شاہ محمودقریشی نے کہا کہ پچھلے دنوں امریکاکی جانب سے سخت بیانات
سامنے آئے لیکن ہم کوشش کریں گے کہ امریکاکوزمینی حقائق اوراپنے تعاون سے
آگاہ کریں ۔بھارت اورامریکاکااسٹرٹیجک الائنس ان کااپنافیصلہ ہے وہ ہمارے
کہمے پرتونظرثانی نہیں کریں گے ۔ لیکن پاکستان نے ان مشکلات کے باوجودحالات
کوتبدیل کرناہے۔ہمیں مشکل حالات سے نمٹناہے اورہمیں مفادات کاخیال رکھتے
ہوئے آگے بڑھناہے ہم نے اپنے مفادکاتحفظ کرناہے اورامریکاکوباورکراناہے کہ
جب بھی انہوں نے پاکستان کے ساتھ مل کرآگے بڑھ کرآگے بڑھنے کی کوشش کی توان
کوفائدہ ہوا۔شاہ محمودقریشی کاکہناتھا کہ چینی وزیرخارجہ سے طے ہواکہ
دسمبرمیں کابل میں اکٹھے ہوں گے۔پاکستان ، افغانستان اورچین مل بیٹھ
کرمعاملات کوآگے بڑھانے کی کوشش کریں گے۔وزیرخارجہ نے بتایا کہ بھارت کے
ساتھ مثبت بات چیت کرنے کی کوشش کی۔اب مذاکرات کے لیے آگے بڑھناہوگا۔بھارت
نے آمادگی ظاہرکرکے، تاریخ طے کرکے نظرثانی کرلی۔وزیرخارجہ نے بتایا کہ
مقبوضہ کشمیرسے متعلق اقوم متحدہ کی رپورٹ نے اجلاس کی اہمیت بڑھادی تھی۔اس
رپورٹ نے نیاتجسس اورنئی بحث کوجنم دیاہے۔اقوام متحدہ کی رپورٹ
کشمیرپرہمارے سوالات کی ہی توثیق کررہی ہے۔اوآئی سی کے جموں وکشمیررابطہ
گروپ کے اجلاس میں انہوں نے پاکستان کاموقف پیش کیا۔شاہ محمودقریشی نے
بتایا کہ اجلاس کے شرکاء نے مسئلہ کشمیرسے متعلق اپنابھرپورموقف پیش
کیااوراوآئی سی سیکرٹری جنرل کویادداشت نامہ پیش کیا۔شاہ محمودقریشی کی
نیویارک میں برطانوی ہم منصب سے ملاقات میں دوطرفہ تعلقات میں مزیدبہتری ،دفاع،
تجارت، سرمایہ کاری اورتعلیم سمیت مخلتف شعبوں میں تعاون بڑھانے پراتفاق
ہوا۔پاکستان اورسعودی عرب کے وزرائے خارجہ نے دونوں ملکوں کے بڑھتے ہوئے
تعلقات پر اطمینان کااظہارکیا۔نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے
خطاب کے بعدمیڈیاسے گفتگوکرتے ہوئے شاہ محمودقریشی نے کہا کہ بھارتی سیاست
دان سیاسی ضرورتوں کے قیدی بنے ہوئے ہیں۔شاہ محمودقریشی نے کہا کہ کچھ
چیزیں توجہ ہٹانے کے لیے کی جاتی ہیں۔اگربھارت نے کوئی حماقت کی توپوری قوم
یکجا ہو کر مقابلہ کرے گی۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل پاکستان آئیں گے
بھارت بھی جائیں گے۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے ملاقات میں کہا ہے کہ
بھارت جائیں توبھارتی قیادت سے ذمہ دارانہ رویہ اپنانے کوکہیں وزیرخارجہ نے
کہا کہ امریکاسے عافیہ صدیقی کے معاملے پربیٹھ کربات کریں گے۔اس معاملے
پرپیش رفت کی خواہش ہے۔انسانی حقوق کمیشن کی رپورٹ سے کشمیریوں پرڈھائے
جانے والے مظالم کے حوالے سے بین الاقوامی برادری اورعالمی راہنماؤں کی
ہمدردیاں کشمیری عوام کے ساتھ ہیں۔شاہ محمودقریشی نے کہا کہ مقبوضہ
کشمیرمیں بھارتی سیکیورٹی فورسزکے مظالم پرمشتمل رپورٹ درحقیقت پاکستانی
موقف کی تصدیق ہے جس سے وہ کشمیرکی صورت حال کے حوالے سے عالمی برادری
کوآگاہ کرتارہا ہے۔وزیرخارجہ نے کہا کہ ہماری حکومت عالمی برادری سے
پاکستان کے تعلقات کووسعت دیناچاہتی ہے۔وزیرخارجہ نے کہا کہ مجھے یہ بات
جان کرخوشی ہوئی کہ اقوم متحدہ میں پاکستان کے مثبت کردارکوعزت کی نگاہ سے
دیکھا جاتاہے۔جب کہ عالمی سطح پراقوام متحدہ کی امن کارروائیوں میں پاکستان
کے فوجیوں کی شمولیت کی خصوصی طورپرتعریف کی جاتی ہے۔ایشیاء سوسائٹی کی
تقریب میں گفتگوکرتے ہوئے شاہ محمودقریشی کاکہناتھا کہ افغانستان صرف
پاکستان کی ذمہ داری نہیں ہے۔امریکاافغانستان میں اپنی ناکامیوں کوچھپانے
کے لیے پاکستان کوقربانی کابکرابناناچاہتاہے۔بھارت نے سارک ممالک کویرغمال
بنایاہواہے۔بھارتی رویے کی وجہ سے خطے میں روابط آگے نہیں بڑھ رہے ۔ امریکا
کو پاکسان کی مددچاہیے تواپنے دوست بھارت کومذاکرات کی
میزپرلائے۔اگرامریکاچاہتاہے کہ پاکستان مددکرے توہمیں مشرقی سرحدپرمحفوظ
ماحول فراہم کیاجائے۔ایک ملک کی وجہ سے جنوبی ایشیاکاامن خطرے سے
دوچارہے۔امریکاجومقاصدحاصل نہ کرسکااس کی وجوہات سوچے۔
وزیرخارجہ شاہ محمودقریشی نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب
کرتے ہوئے، مختلف تنظیموں، گروپس، شخصیات اورامیڈیاسے خطاب اورگفتگوکرتے
ہوئے پاکستان کاموقف جس جرات مندانہ اورجانداراندازمیں پیش کیاہے اس پرقوم
انہیں خراج تحسین پیش کرتی ہے۔وزیرخارجہ نے اقوام عالم کے سامنے پاکستان
کاموقف پیش کرتے ہوئے کسی مصلحت سے کام نہیں لیا۔انہوں نے تمام فورمزپراپنے
ملک اورقوم کاموقف دوٹوک اورواضح الفاظ میں پیش کیا۔کشمیر، فلسطین،
افغانستان کے بارے میں دنیاکووہ بتایاجوحقیقت تھی۔اب دیکھنایہ ہے کہ عالمی
برادری پاکستان کے اس حقیقی موقف کودنیاکتنی اہمیت دیتی ہے ۔اقوام متحدہ
اپنی قراردادوں پرعمل درآمدکرانے میں کتنی سنجیدہ دکھائی دیتی ہے اورکتنے
ممالک بھارت پرسفارتی دباؤڈال کرمسئلہ کشمیرحل کرنے اورپاکستان کی مشرقی
سرحدپرشرارتیں نہ کرنے پرآمادہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ |