خراج تحسین شاہ محمود قریشی صاحب
چند گزارشات
تاریخ کا مطالعہ کریں تو پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کی قومی زبان کو کسی بھی
پلیٹ فارم پہ وہ عزت نہیں دی گئی جیسی انگریزی زبان کو دی گئی ہے، لیکن ایک
پاکستانی ہونے کی حثییت سے میں اعتراف کرتی ہوں کہ شاہ صاحب آپ نے واقعی
پاکستانی ہونے کا حق ادا کیا۔ اقوام متحدہ میں اپنی قومی زبان میں بات کرنا
ظاہر کرتا ہے کہ پاکستانی قومی زبان کی اہمیت سلامت ہے اور ان شاء اللہ
امید کرتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں ہر فرد اس کی اہمیت کو مانے گا۔
آج تک ہر جگہ پہ انگریزی زبان کی اجارہ داری دیکھی ہے تو لگتا تھا کہ کچھ
سالوں میں اردو کا وجود ہی ناپید ہو جاۓ گا لیکن آپ کے بیان سے ثابت ہوا کہ
محبان اردو آج بھی موجود ہیں۔
بڑے لوگ کہتے ہیں کہ کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا۔ سابق حکمرانوں
کی نجی زندگی کا مطالعہ کیا جاۓ تو سب یورپی ممالک میں رہائش پذیر نظر آتے
ہیں۔ تو جن کو خود اردو بولنا نہیں آتی انہوں نے اس کو کیا عزت دلوانی تھی۔
جس انداز میں آپ نے رسول اکرم ﷺ کی عزت پر حملہ کرنے والوں کو عالمی دنیا
کہ سامنے پیش کیا ہے ناقابل فراموش ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ نئی حکومت کو آتے ہی بہت سارے چیلنجز کا سامنا ہے۔ ملکی
صورتحال کو ایک طرف رکھ کر دیکھا جاۓ تو کافر ممالک کی مکارانہ چالیں اور
کبھی آقاﷺ کی عزت پہ حملہ تو ایک طرف کشمیر میں قتل و غارت کا بازار جو ہر
وقت گرم رہتا ہے تو مظلوم فلسطینیوں پہ ظلم کی انتہا بھی کسی سے چھپی ہوئی
نہیں۔ آج تک ہمارے سابق حکمران میں سے کسی نے بھی آواز نہیں اٹھائی۔ ایسے
میں شاہ صاحب، اقوام متحدہ میں آپ کے دبنگ بیان نے سب پاکستانیوں کے دل جیت
لیےہیں۔
دل کو ایک ڈھارس سی ملی ہے کہ تبدیلی کا نعرہ مثبت انداز میں کام کرتا ہوا
نظر آرہا ہے، گزشتہ سالوں کی حکومت سے موجودہ حکومت کا موازنہ کیا جاۓ تو
یہ کہنے میں عار نہیں محسوس نہیں کرتی کہ اس حکومت میں واضح تبدیلی نظر
آرہی ہے، سب سے اہم بات اسلام کا دفاع کرنا اور اس کی بقا کے لیے آواز بلند
کرنا ان مسلم ممالک کے لیے خوشخبری ہے جن ممالک کے افراد صرف مسلمان ہونے
کی وجہ سے ظلم ستم کا شکار ہیں۔
شاہ صاحب آپ اور پاکستان کی حکومت جب ، جب مثبت انداز اپنا کر ملک وملت کے
لیے کچھ کرے گی ہم تب ،تب آپ کو سراہیں گے اگر کچھ غلط کریں گے تو بھی
ہمارے قلم حرکت میں آئیں گے ممکن ہے میری تحریر کو پڑھ کر کسی کہ دل میں
خیال آئے کہ مجھے کوئی لالچ ہے تو ان کی سوچ غلط ہو گی۔ میں بتا دینا چاہتی
ہوں ان لوگوں کو جب تک جسم میں جان ہے اور منہ میں زبان ہے اللہ کی توفیق
سے حق اور سچ کا ساتھ دیتے رہے گے۔
شاہ صاحب آپ کا ناموس رسالت، مسئلہ کشمیر، مسئلہ فلسطین اور مسلم ممالک کو
درپیش مسائل اور اس سے بھی بڑھ کر کشمیر کی بیواؤں اور اس بچے کیلئے آواز
بلند کرنا جو پیلٹ گن سے آنکھوں سے محروم ہو چکا ہے تحسین کے قابل ہے آپ کے
وہ الفاظ شاہ صاحب آپ کا یہ کہنا کہ ہم مربوط اور مثبت انداز میں تنازعات
کا حل چاہتے ہیں دشمنوں کے منہ پہ ایک طمانچہ ہے۔ امن کے خواہاں ہیں ہم یہ
الفاظ بھارت کے لیےسبق آموز بیان ہے اگر وہ اس کو مثبت انداز میں لے ۔
شاہ صاحب آپ کا سارا بیان ظاہر کرتا ہے کہ آپ ایک محب وطن، محب رسولﷺ، محب
اسلام اور انسانیت کے ہمدرد انسان ہے۔ شاہ صاحب آپ سے گزارش ہے کہ پاکستان
کے تعلیمی اداروں میں اردو کو لازم وملزوم قرار دیں، دفتری سطح پر بھی اس
زبان کو اجاگر کریں، نصاب کے اندر اسلامی تاریخ کو پڑھایا جاۓ، انگریزی
مضامین میں بھی عنوان سیرت مصطفیﷺ، سیرت ازواج مطہرات، سیرت خلفائے راشدین
جیسے عنوان پڑھاۓ جاۓ۔
تبدیلی اس وقت تک نہیں آسکتی جب تک ہم قرآن کی تعلیمات کو نہیں اپنائیں گے۔
ایک اچھا انسان بننے کے لیے اچھے قوانین و ضوابط کی ضرورت ہوتی ہیں۔ لیکن
اچھا مسلمان بننے کے لیے اسلامی تعلیمات کی ضرورت ہوتی ہے۔
ان الفاظ پہ اپنی بات ختم کرتی ہوں کہ آپ کے بیان کا ایک ایک لفظ گوہر
نایاب ہے۔
|