فرخ اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا۔ اس کے والدین اس سے
بہت پیار کرتے تھے۔ اس کا بے حد خیال رکھتے۔ فرخ بھی اپنے والدین کی ہر بات
مانتا تھا۔ وہ پڑھائی میں بھی بہت اچھا تھا۔
جب فرخ نویں جماعت میں آیا تو ا س کے والد نے اس سے کہا کہ بیٹا اگر تم
میٹر ک میں اے ون گریڈ لے آؤ تو ہم تمہیں ایک نئی ہونڈا سی ڈی 70 موٹر
بائیک دلادیں گے۔
موٹر بائیک وہ بھی ہونڈا فرخ کی بہت بڑی کمزوری تھی۔یوں تووہ کبھی اپنے چچا
اورکبھی اپنے کسی دوست سے موٹر بائیک لے کر چلاتاتھا۔ وہ چلانے میں بہت
ماہر ہوچکاتھا۔ میٹرک میں اے ون گریڈ لانے پراسے اپنی دیرینہ خواہش پوری
ہوتی نظر آئی۔ اس نے فوراً اپنے والد سے وعدہ کرلیا۔
اس نے دل وجان سے محنت کی۔ پڑھائی میں دن رات ایک کردیا۔ نویں جماعت کے
نتائج کے اعلان ہوا تو وہ اپنی منزل سے ایک قدم اور قریب آگیا کیونکہ اس کا
اچھا اے ون گریڈ آیا تھا۔ پھر اس نے اپنے والد کو ان کا وعدہ یاد دلایا۔
انہوں نے کہا ہاں بیٹا ہمیں یاد ہے۔ لیکن ابھی تمہارا ایک سال باقی ہے۔
بہر حال وقت یونہی پرلگاتے ہوئے گزرتا گیا۔ فرخ دن رات سخت محنت کرتا
رہا۔بالآخر وہ گھڑی بھی آن پہنچی جس کا فرخ کا بڑی شدت سے انتظار تھا۔ اور
واقعی فرخ کا اے ون گریڈ ہی تھا۔ اس کی ٪ 85 تھی۔ سونے پر سہاگہ یہ فرخ کی
سالگرہ کا دن بھی تھا۔ اسے قوی امید تھی کہ اس سالگرہ پر اے ون گریڈ لانے
کی خوشی میں اسے بڑی ٹریٹ،بڑا انعام ہنڈا موٹربائیک کی صورت میں ملے گا۔
وہ اخبار ہاتھ میں لے کر اپنے والد کے کمرے میں داخل ہوا۔ اورانتہائی پرچوش
آواز میں پکارا۔ابا میں نے اپنا کام کرلیا ہے(اس نے اخبار ان کے سامنے
پھیلاتے ہوئے کہا)یہ رہا ثبوت !اب آپ بھی اپنا وعدہ پورا کیجئے۔
فرخ کے والد کچھ دنوں سے بہت اداس تھے۔ اس کا نتیجہ دیکھ کر بھی انہوں نے
بہت زیادہ خوشی کا اظہار نہیں کیا۔ وہ گزشتہ کئی دنوں سے بہت اپ سیٹ تھے
کیونکہ انہوں نے یہ بات گھر میں کسی کو نہیں بتائی تھی کہ ان کی ملازمت ختم
ہوچکی ہے۔ ایک ہفتہ قبل ان کی پرکشش ملازمت سے انہیں سبکدوش کیا جاچکا تھا۔
اگرچہ غلطی کسی اور کی تھی لیکن خمیازہ فرخ کے والد کو ہی بھگتنا پڑا۔
جب فرخ نے انہیں ان کا وعدہ یاد دلایا تو انہوں نے فرخ سے وقت مانگا۔ اور
اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ ابھی ان کی مالی حالت ایسی نہیں ہے۔ جیسے ہی
بہتر ہوگی وہ پہلی فرصت میں اسے موٹر بائیک دلائیں گے۔ فرخ اپنی والدہ کے
پاس گیا اور ان سے کہا کہ وہ اس کی سفارش کریں ۔
فرخ کی والدہ کے بار بار اصرار پر حمید صاحب نے اپنی اہلیہ کو تمام صورت
حال سے آگاہ کیا۔ جب انہیں اس روح فرسا خبر کا علم ہوا تو وہ شدید پریشان
ہوگئیں۔ اور فرخ کے والد کے ہمنوا ہوکروہ خود بھی فرخ کو قائل کرنے کی کوشش
کرنے لگیں۔
اس بات سے فرخ شدید ذہنی اذیت کا شکار ہوا۔ وہ افسردہ اورمایوس ہوکر خاموشی
سے وہاں سے چلاگیا۔ اب وہ بالکل خاموش رہنے لگا۔ اس کے دوستوں نے جب یہ
صورتحال دیکھی تو وہ بھی سمجھ گئے۔ کیونکہ فرخ انہیں بتاچکا تھا کہ اب اسے
موٹر بائیک ملنے ہی والی ہے۔ وہ بھی شدت سے اس کی موٹر بائیک کے منتظر تھے۔
اب بدلتی ہوئی صورتحال اورفرخ کی چال ڈھال سے وہ بہت کچھ اندازہ لگاچکے
تھے۔ لیکن انہیں اس کے اسباب کا پتہ نہ تھا۔
جب فرخ کے دوستوں نے اسے چھیڑا تو وہ گویا پھٹ پڑا۔ اوراپنے دوستوں سے کہنے
لگا۔اب میں اپنے والدین کو پڑھ کر دکھاؤں گا کہ کیسے پڑھا جاتا ہے۔ اب میں
صرف اور صرف وقت اورسرمایہ ضائع کروں گا۔ وقت اپنا اورسرمایہ اپنے والدین
کا۔ یہ کہتے ہوئے اس نے زور سے قہقہ لگایا!!!یہ مجھے بیوقوف سمجھتے تھے۔
مجھے ٹریپ کیا گیا۔ اب یہ جلد جان جائیں گے کہ کون ٹریپ ہوا اورکس کانقصان
ہوا۔
اب اس نے اپنے سلجھے ہوئے تمیزداردوستوں کے بجائے آوارہ ،لچے لفنگے دوستوں
کی صحبت اختیار کرلی۔ وہ ان کے ساتھ گپ شپ اورفضول اورلغو کاموں میں وقت
ضائع کرنے لگا۔کالج میں آکر وہ اوربھی زیدہ بدتمیز ،آوارہ اورمنشیات
استعمال کرنے والا بن گیا۔ اس طرح اس نے اپنا پورا سال ضائع کرلیا۔ جب رزلٹ
آؤٹ ہوا تو وہ تمام پرچوں میں بری طرح فیل ہوچکا تھا۔
یہ صورتحال اس کے والدین کے لئے اور بھی زیادہ گھمبیر تھی۔ اس کے والد اپنے
مالی بحران پر بھی ابھی تک قابو نہ پاسکے تھے کہ اس سے انہیں شدید صدمہ
ہوا۔
لیکن وہ فرخ کو مزید بگڑتا ہوا نہ دیکھ سکتے تھے۔ جب انہوں نے محسوس کیا
فرخ ان کی کسی بات کو مثبت انداز سے قبول نہیں کرتا تو انہوں نے اپنے ایک
دوست سائیکیٹرسٹ (Psychiatrist) ڈاکٹرجہانزیب کی خدمات لیں۔ ان کے سامنے
اپنا مسئلہ پیش کیا۔ڈاکٹرصاحب نے فرخ سے تنہائی میں ملاقات کی۔کھوج کرید کے
بعد وہ معاملے کی تہہ تک پہنچ گئے۔ پھر اس نےفرخ کی ذہن سازی کی۔اس کے اہم
ترین متاع زندگی (وقت)ضائع ہونے کے بارے میں خبردارکیا۔ اس سے کہا کہ عربی
محاورہ ہے الوقت ذھب وذاھب ۔وقت ایسا سونا ہے جو ہاتھوں سے جاتارہتاہے۔ جسے
سنبھال کرمحفوظ نہیں کیاجاسکتا۔ایک اورمحاورہ ہے الوقت ثلج ویذوب ۔وقت برف
کی مانند ہے جو پگھلتاجارہاہے۔ اوراس سے کہا کہ بیٹا تم تواپنانقصان
کررہے۔اتنا اچھاذہن رکھنے کے باوجود انتہائی ناقص کارکردگی۔ جب عملی زندگی
کا تم پر بوجھ آئے گا تو تم کیسے اس کے متحمل ہوگے۔ بہرحال طویل گفت وشنید
کے بعد وہ فرخ کو قائل کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ فرخ نے ان سے عہد کیا کہ وہ
اب بری صحبت اختیارنہیں کرے گا اوروقت ضائع نہیں کرے گا۔
پھر ڈاکٹرصاحب نے فرخ کے والدین سے بھی رابطہ کیا اوران سے کہا کہ اس غلط
فہمی کی بہت بڑی ذمہ داری خود ان (والد)کے سرہے۔کیونکہ والدین کو چاہئے کہ
وہ ہر اچھی بری گھڑی میں اپنے بچوں کو مکمل اعتماد میں لیں ان سے ان کی
ذہنی سطح کے مطابق اپنے مسائل پربحث ومباحثہ (ڈسکس) کریں۔ اگر کسی وجہ سے
ان کی کوئی خواہش پوری نہ کرسکتے ہوں تو ان کے سامنے معروضی حقائق پیش
کریں۔ بچوں کو احساس ہو کہ والدین مشکل دور سے گزررہے ہیں۔ اس وقت وہ ہماری
خواہشات کوپوراکرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ لیکن وہ ہماری خواہشات کی تکمیل
میں سنجیدہ ہیں ۔ وہ ہمیں بیوقوف نہیں بنارہے۔اس طرح بچوں کے رویوں میں
والدین سے بیزاری نہیں بلکہ ہمدردی اورمحبت کے جذبات ابھریں گے اور وہ کسی
انتہائی اقدام سے گریز کریں گے۔ فرخ کے والد کو یہ بات اچھی طرح سے سمجھ
آگئی۔ اس طرح ان کا بیٹا برباد ہونے سے بچ گیا۔اوراس نے والدین سے معافی
مانگ کر دوبارہ محنت شروع کردی۔ اورپھر ایک اچھاطالبعلم بن گیا۔اللہ تعالیٰ
وطن عزیز کے تمام بچوں کوعقل سلیم اورہدایت عطافرمائے ۔اوروہ اپنے ملک
اوروالدین کے لئے باعث فخر بنیں نہ کہ باعث ذلت۔آمین |