فسادی (قسط نمبر٨)

ہم معاشرے کے اصولوں تلے دبے ہوئے لوگ ہیں ۔ ہمارے فیصلے ،ہماری ذات قیدی ہے۔ قیدی کیا سوچے گا اور سمجھے گا۔

نصرت کمرے میں داخل ہوئی تو آمنہ ابھی بھی پچھتاوے کی آگ میں جل رہی تھی۔ نصرت نے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ آمنہ تمہارے لیے کھانا لے آوں۔ آمنہ نے روتے ہوئے کہا۔ ایک احسان کرو۔ کھانے میں زہر ملا کر کھلا دو۔ نصرت کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے اس نے روتے ہوئے کہا۔ خود کو سنبھالو، آمنہ ۔تنزیلہ نے نصرت کو کمرے میں داخل ہوتے دیکھا تھا۔ وہ دروازے پر کھڑی آمنہ اور نصرت کی باتیں سن رہیں تھیں ۔ غصے سے چلائیں۔ زہر کھا لینے سے کون سا بندہ پاک ہو جاتا ہے۔ جو تم نے کیا ہے نا آمنہ اس کے بعد غسل کے بعد بھی تو گندی ہی رہے گئ۔ میرے گھر ہی کیوں پیدا ہوئی۔ وہ روتے روتےپیچھے کو گِری ۔ انہیں سنبھالتے ہوئے ، نصرت نے چیخ کر آفاق کو پکارا ۔ آفاق کمرے سے بھاگا ہوا آیا۔ آمنہ کو غصے سے آفاق نے پیچھے ہی رہنے کا اشارہ کیا۔ ہوسپٹل پہنچنے تک تنزیلہ نے دم توڑ دیا۔
آفاق کے دل میں افسوس کے لیے آنے والوں نے آمنہ کے لیے غیر محسوس طریقے سے ذہر بھر دیا تھا۔ جب بھی کوئی کہتا ہائے بیٹی کا غم ماں کو کھا گیا تو آفاق کے اندر کا غصہ اور بڑھ جاتا ۔ وہ آمنہ کی جلد سے جلد شادی کر کے اسے اپنی نظر سے دور کرنا چاہتا تھا۔ اس سے بات کرنا تو درکنار وہ اسے دیکھنا بھی نہیں چاہتا تھا۔ نصرت دل ہی دل میں آمنہ کے لیے نرم گوشہ رکھتی تھی۔ وہ سوچتی، کیسا ظلم ہے کہ ایک ہی غلطی لڑکا اور لڑکی دونوں کرتے ہیں ۔ لڑکی کی سزا تمام عمر جاری رہتی ہے جبکہ لڑکا ڈانٹ ڈپٹ کے بعد باعزت بری ہو جاتا ہے۔ نصرت کو آفاق نے بتایا کہ ماموں کے ایک دوست کی بیوی کی اچانک ہارٹ اٹیک سے موت ہو گئی ہے ۔ وہ جلد از جلد شادی کرنا چاہتے ہیں ۔ چار بچوں اور گھر کو سنبھالنے کے لیے عورت کی ضرورت ہے انہیں ۔ نصرت نے حیرت سے آفاق کی طرف دیکھا۔ آمنہ کیسے سنبھالے گی چار بچے۔ میرا مطلب ہے ، اپنے بچے پالنا اور ہوتا ہے ، کسی دوسرے کے بچوں کو۔۔۔۔۔۔ابھی نصرت کی بات پوری نہ ہوئی تھی کہ آفاق نے درمیان سے اچک لی ۔ کون کرتا ہے ایسی لڑکی سے شادی ۔ وہ تو ماموں کے دوست ہیں تو احسان کر رہے ہیں ورنہ۔ کسی نے اپنی ناک کٹوانی ہے جو ایسی لڑکی سے شادی کرئے گا۔
نصرت نے آفاق کے چہرے پر آنے والے غضب ناک جذبات کو دیکھ لیا تھا۔ وہ چپ چاپ سوچتی رہی ۔ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد آفاق نے فیصلہ صادر کرتے ہوئے کہا۔ آمنہ کو بتا دینا ۔ اس سے پوچھا نہیں جا رہا ، اسے بتایا جا رہا ہے ۔ اگر اسے شادی نہیں کرنی تو دیکھ لے کیا کرنا ہے۔ میں تو سوچ رہا ہوں یہ گھر ور سب بیچ کر دُبئی شفٹ ہو جاوں ۔ عارف کب سے مجھے اپنے ساتھ آ کر کام کا کہہ رہا تھا۔ میں ہی امی کو چھوڑ کر کہیں نہیں جانا چاہ رہا تھا۔ اب امی نہیں ہیں تو یہاں رہ کر کیا کروں گا۔ نصرت نے حیرت سے پھٹی پھٹی انکھوں سے آفاق کو دیکھا۔ یہ وہ آفاق نہیں تھا جو اپنے وطن کی خدمت ، انسانیت کی بھلائی کے لیے ختم ہو جانے کی دہائی دیتا تھا۔ حالات نے اسے توڑ دیا تھا۔ جذبات کو کیسے قابو میں رکھنا چاہیے یہ نصرت کو سمجھاتا تھا۔ فیصلے کیسے کرنے چاہیں ، اس پر بڑے بڑے لیکچر دیتے نہیں تھکتا تھا۔
نصرت نے دبے دبے لہجے میں کہا۔ ہم کہیں بھی چلیں جائیں ۔ ماضی کو تو ساتھ ہی لے کر جانا ہوتا ہے۔آفاق نے نصرت کی طرف دیکھ کر بد دلی سے کہا۔ کتابی باتیں بے معنی ہوتی ہیں ۔گولی کھانے کی باتیں کرنا اور گولی کھا کر سرحد پر بنے رہنا دو الگ باتیں ہیں ۔ زندگی کا یہ روپ میں نے اب دیکھا ہے کہ انسان اِتنا بھی با اختیار نہیں ہے جتنا وہ بنتا ہے۔ کبھی کبھی ہم خود فیصلے نہیں کرتے ،وقت بتاتا ہے اور ہم صرف پیروی کرتے ہیں ۔ نصرت نے اس کے لہجہ میں بیزاری دیکھی۔ نصرت نے دل ہی دل میں سوچا ۔ خود سے بھاگنے والوں کے لیے دنیا چھوٹی ہو جایا کرتی ہے۔
آمنہ کو جب نصرت نے نہ چاہتے ہوئے بھی ماموں کے لائے ہوئے رشتے کے بارے میں بتایا تو اس نے انکھیں بند کرتے ہوئے کہا۔ آپ بھائی سے کہیں ،جو بھی وہ فیصلہ کرئیں مجھے منظور ہے ، بس وہ مجھے معاف کر دیں ۔ نصرت کی انکھوں میں آنسو تھے مگر آمنہ کی انکھیں پتھر سی سخت تھیں۔ نصرت نے روتے ہوئے کہا۔ اگر تم اپنی ذات کے لیے احتجاج کرو۔ جو ہو چکا اس سے نکلنے کی کوشش کرو تو میں تمہارا ساتھ دوں گی۔ آمنہ نے افسردگی سے کہا۔ مجھ میں اتنی ہمت نہیں کہ خود کو معاف کر دوں ۔ آپ کیسے امید کرتی ہیں کہ لوگ مجھے معاف کر دیں گئے۔دیکھو آمنہ جو انسان خود سے اوپر نہیں اُٹھ سکتا اسے انسانوں کے نیچے دب کر ہی رہنا ہوتا ہے۔ نصرت نے آمنہ کا ہاتھ پکڑ کر کہا۔ تم وہ کرو جو ٹھیک ہے خواہ وہ کس قدر ہی مشکل ہو۔ آمنہ بھنوو ں کو سمیٹتے ہوئے کہا، کیا ہم میں سے کوئی ٹھیک اور غلط کا فیصلہ کر سکتا ہے ۔ ہم معاشرے کے اصولوں تلے دبے ہوئے لوگ ہیں ۔ ہمارے فیصلے ،ہماری ذات قیدی ہے۔ قیدی کیا سوچے گا اور سمجھے گا۔
نصرت نے کڑنے والے لہجے میں کہا۔ عزت جسم کے اندر نہیں ہوتی ۔ میں کسی ایسے اصول کو نہیں مانتی ،جو انسان سے اس کے جینے کا حق چھین لے۔ آمنہ نے اپنے دونوں ہاتھ نصرت کے کندھوں پر رکھتے ہوئے کہا۔ ہم معاشرے سے ٹکرا کے خود ہی ٹوٹ سکتے ہیں ۔ صدیوں سے بنے اصولوں کو توڑنے کے لیے بھی صدیاں ہی چاہیں ۔ نصرت نے نہ ماننے والے انداز میں کہا، جن لوگوں نے اصول بنائے تھے ، وہ انسان ہی تھے ۔ ہم بھی انسان ہی ہیں ۔ طے تو یہ کرنا ہے کہ ہم وہ قیمت دے سکتے ہیں جو اصول بنانے والوں نے اصول بنانے کے لیے دی تھی۔ میں پھر کہتی ہوں ۔ اپنی زندگی چار بچوں والے آدمی کے ساتھ گزارنے سے بہت اچھا ہو گا۔ تم خود کو کسی قابل بنا لو ۔ ممکن ہے کوئی ایسا ہمسفر تمہیں مل جائے ، جو اس بات کو تسلیم کرتا ہو کہ عزت کوئی نہیں لوٹ سکتا ۔ عزت ایک جذبہ ہے ۔ جذبےقید نہیں ہوتے، نہ ہی خریدے اور بیچے جاتے ہیں ۔ جذبوں کو غلام نہیں بنایا جاتا۔ بس یہ اچھے اور بُرے ہو سکتے ہیں ، مجبور اور قیدی نہیں ہو سکتے۔ آمنہ نے بیزاری سے کہا۔ آپ یہ اس لیے کہہ سکتی ہیں کہ آپ کو لوگ اس نظر سے نہیں دیکھتے جس نظر سے مجھے دیکھتے ہیں ۔ ایسی سرگوشیوں سے آپ کا واسطہ نہیں پڑا ، جو مجھے سننی پڑتی ہیں ۔ میری ماں کے جنازے پر میں نے لوگوں کو روتے کم اور اپنے بارے میں باتیں کرتے ذیادہ سنا ہے۔ آپ یہ سب محسوس بھی نہیں کر سکتی بھابھی۔ مجھ پر جان دینے والا بھائی آج میری صورت بھی نہیں دیکھنا چاہتا۔ میری ہر غلطی معاف کر دینے والی ماں نے بھی مجھے معاف نہیں کیا۔ ایک آپ کی وجہ سے میں کیسے مان لوں کہ عزت چھینی نہیں جاتی۔ آپ یہ کہنا چاہ رہی ہیں کہ کچھ ہوا ہی نہیں ۔
نصرت نے کچھ دیر خاموشی کے بعد کہا۔ ہاں میں کہتی ہوں ، مجھے یقین ہے جو میں نے کہا ہے وہ بلکل ٹھیک ہے۔ اب تمہاری مرضی ہے تم مانو یا نہ مانو۔ کاش کہ میں تمہیں سمجھا پاتی ۔ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد آمنہ نے پتھرائی ہوئی انکھوں اور سوکھے ہوئے ہونٹوں کے ساتھ نصرت کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ آپ بھائی سے وہی کہیں جو میں نے کہا ہے۔
نصرت مایوسی سے دانتوں کو پیستے ہوئے کمرے سے نکل گئی۔ دل ہی دل میں نصرت نے کہا، کوئی کسی کے لیے کچھ نہیں کر سکتا ، ہم خودکشی کرنے والے کو روک سکتے ہیں ۔ وہ رُکتا ہے یا نہیں ،یہ تو وہ ہی طے کرتا ہے۔ کچھ ہی دنوں میں خاموشی سے نکاح کر کے آمنہ کو رخصت کر دیا گیا۔ زندگی اپنے طور پر جاری رہتی ہے۔ اگلے لمحے کیا ہو جائے کچھ خبر نہیں ۔نصرت آمنہ سے متعلق سوچ رہی تھی۔ کیسے ہنسنے بولنے والی زندہ دل لڑکی اپنی ہی غلط روش کا شکار بن چکی تھی۔ نصرت نے ایک آہ بھرتے ہوئے البم رکھا۔ جو یادوں کو اپنے اندر سمیٹے ہوئے تھا۔ اس کی ساس اور نند اس گھر میں نہیں تھیں ۔ دونوں اپنے نئے گھر جا چکی تھیں ۔ نصرت کے پاس وہ کام والی آئی جو ارحم کو دیکھتی تھی۔ باجی میں جا رہی ہوں پانچ ہو گئے۔ نصرت نے اسے رخصت کیا ۔ آمنہ کی شادی کو سات ماہ ہو چکے تھے۔ آفاق ابھی بھی شش و پنج میں تھا کہ دُبئی جائے یا نہ جائے۔ اس نے دوبارہ سے کالج میں پڑھانا شروع کر دیا تھا۔ نصرت شام کو کام سے فارغ ہو کر بیٹھی تھی کہ اسے متلی محسوس ہوئی۔ اس کو اپنے پورے جسم میں نقاہت اور کمزوری کے احساس نے گھیر لیا۔ آفاق جب رات کو واپس آیا تو نصرت نے اپنی طبعیت کی خرابی کا بتایا۔ آفاق نے اسے چھٹی کر کے ڈاکٹر کے پاس جانے کا مشورہ دیا۔ جب وہ ڈاکٹر کے پاس گئی تو اس کے ٹیسٹ پازٹیو تھے۔ وہ پھر سے ماں بننے والی تھی۔ آفاق نے اسے کام چھوڑنے کا مشورہ دیاتو نصرت نے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ وہ سنبھال لے گی۔
آفاق کی کزن راحت کا فون آیا ۔ نصرت کو اس نے روتے ہوئے بتایا کہ اس کے شوہر نے اسے طلاق دے دی ہے۔ نصرت نے افسردگی سے پوچھا ۔ آخر وجہ کیا تھی ۔ راحت نے روتے ہوئے بتایا کہ اس کے شوہر کا کہنا ہے کہ وہ بانجھ ہے۔ راحت نے سسکیاں بھرتے ہوئے کہا۔ ڈاکٹر نے کہا کہ میں بانجھ نہیں ہوں ۔ میں نے جب رپورٹ دیکھائی تو انہوں نے غصے سے مجھے طلاق دے دی ،یہ کہہ کر کہ تم نے ٹیسٹ کیوں کروایا ۔ روز روز بانجھ کے طعنے سننے کی وجہ سے میں نے ایسا کیا تھا۔آپ ابھی کہاں ہیں ۔
نصرت جانتی تھی ،راحت کی امی چھ ماں پہلے دنیا کے غموں سے آزاد ہو چکی تھیں ۔ راحت کے شوہر نے ان کا گھر بھی یہ کہہ کر بیچ دیا تھا کہ اسے پاکستان میں رہنا ہی نہیں ہے۔ کبھی کبھار آنے کے لیے میرے والدین کا گھر ہے نا۔ راحت نے شوہر کی محبت میں اپنے ماں باپ کا وہ گھر بھی دے دیا ،جہاں وہ پیدا ہوئی تھی۔ راحت نے درد سے بھرے لہجے میں کہا میر اٹکٹ کروا دیا ہے انہوں نے۔ میں مگر جاوں کہاں ۔ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ نصرت نے دل ہی دل میں سوچا لوگ کہتے ہیں پڑھی لکھی عورت ،،،،،،،،،پھر اس نے ایک آہ بھرتے ہوئے کہا۔ آپ یہاں آ جائیں نا۔ ہمارا گھر بھی آپ ہی کا گھر ہے۔ یہی تو سننے کے لیے راحت نے فون کیا تھا۔وہ کیسے اپنے منہ سے کہتی کہ میرے پاس کوئی اور جگہ نہیں ہے۔ میں تمہارےپاس آ رہی ہوں ۔
جب آفاق شام کو آیا تو نصرت نے راحت سے متعلق بتایا۔ اس نے افسردگی سے کہا ۔ کب تک پہنچیں گی وہ پاکستان ۔ نصرت نے کہا کل چار بجے تک کا کہہ رہی تھیں ۔
آفاق نے افسردگی سے کہا، یہ تو بہت بُرا ہوا ۔ وہ تو بہت اچھی ہیں ۔نصرت نے بھی اداس لہجے میں کہا۔ یہاں اچھے بندوں کے ساتھ ہی بُرا ہوتا ہے۔ آفاق نے کہا۔ چلو جو ہوا سو ہوا ۔ تم خیال رکھنا ۔انہیں ہمارے گھر میں کوئی تکلیف نہ ہو۔ ہم اگر کسی کے لیے سکون مہیا کر سکیں تو اس سے بڑی بات اور کیا ہو گی۔ نصرت کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ اس نے دل ہی دل میں سوچا کہ وہ کتنی خوش قسمت ہے ، اسے ایک ایسے انسان کا ساتھ ملا ہے جو انسانیت کو سمجھتا اور انسان کی قدر کرتا ہے۔ وہ آفاق کی طرف محبت سے دیکھ رہی تھی جبکہ وہ موبائل میں کچھ دیکھ رہا تھا۔
راحت کے آنے کے بعد گھر کے سناٹے میں کچھ کمی ہو گئی تھی ۔ نصرت بھی بغیر فکر کے کام پر جانے لگی ۔ راحت کچھ موٹی ہو چکی تھی مگر ابھی بھی نسوانی حسن سے مالا مال تھی۔ نصرت نے راحت سے بات کرتے ہوئے کہا۔ باجی آپ دوبارہ شادی کا کیوں نہیں سوچتی۔ اگر آپ کہیں تو۔ ۔۔۔۔۔۔۔راحت نے افسردہ لہجے میں کہا۔ چھوڑو ، کیوں تم تنگ آ گئی ہو مجھ سے ۔ نصرت نے نفی میں سر ہلاتے ہوئے کہا۔ کیسی باتیں کر رہی ہیں ۔ شام کو راحت نے یہ ساری باتیں جو نصرت اور راحت کے درمیاں ہوئیں تھیں آفاق کو بتائیں تو آفاق نے مسکراتے ہوئے کہا ۔ ویسے آپ شادی کر سکتی ہیں ، آپ میں کوئی کمی نہیں ۔ نصرت کو آفاق کا راحت کی طرف دیکھ کر ایسا کہنا اور مسکرا کر بات کرنا پسند نہیں آیا ۔ اب تور وز شام کو راحت ارحم سے متعلقہ ایک ایک بات آفاق کو بتاتی۔ وہ دیر تک آفاق کے پاس ہی بیٹھی رہتی۔ آفاق بھی بغور اس کی باتیں سنتا۔ نصرت کو ان تمام حالات سے شدید کوفت ہوتی مگر وہ خاموشی سے یہ سب برداشت کر رہی تھی۔ اس مصیبت کا اسے باظاہر کوئی حل نظر نہیں آ رہا تھا۔ راحت چونکہ نصرت کی ٹیچر بھی رہی تھی تو وہ اس سے تحکمانہ لہجے میں بات جیت کرتی ۔ اسے بتاتی کہ وہ کیا کرئے اور کیا نہ کرئے۔ ارحم ہر وقت اسی کے پاس رہنے لگا ۔ وہ بھی دل کھول کر ارحم سے پیار کرتی۔ یہاں تک کہ نصرت کے ہونے پر بھی ارحم ،نصرت سے ذیادہ راحت کے پاس رہنے کو ترجیح دینے لگا تھا۔ یہ بات نصرت کے لیے سب سے ذیادہ تکلیف دہ تھی۔
نصرت نے پانچویں ماہ میں جو الٹراساونڈ کروایا تھا ، اس کے مطابق پیدا ہونے والے بچے میں پرابلم کا پتہ چلا تھا۔آفاق نے دوبارہ تین جگہ سے الٹراساونڈ کروایا تو ایک جیسے ہی رذلٹ تھے۔ آفاق نے پریشانی سے نصرت کو مشورہ دیا ۔ ہمیں اس بچے کو نہیں رکھنا چاہیے۔ یہ ہمارے لیے اور اپنے لیے مصیبت ہی ہو گا۔
نصرت نے حیرت سےسے آفاق کو دیکھتے ہوئے کہا۔ آپ کا مطلب ہے ہم ابوشن کروا لیں ۔ آفاق نے ایک لمبی آہ بھرتے ہوئے کہا۔ تو اور کیا۔ بلکل ۔ ہمیں یہ کام جلد اذ جلد کرنا ہو گا۔ ا س سے پہلے کے مذید دیر ہو جائے۔ نصرت نے خاموشی اختیار کی وہ گھر آ چکے تھے ۔ گاڑی میں ہونے والی گفتگو،اب گھر میں بھی موضوع بن چکی تھی۔ راحت کو پتہ چلا تو اس نے فوراً کہا ۔ آفاق ٹھیک کہتا ہے ۔ اللہ بچہ دے تو ارحم جیسا ٹھیک ٹھاک ۔ اس نے ارحم کو بے اختیار چومتے ہوئے کہا۔ ورنہ نہ دے۔ نصرت نے گھور کر راحت کی طرف دیکھا ،بغیر کچھ کہے کچن میں چلی گئی۔
راحت اور آفاق آپس میں باتیں کر رہے تھے اور نصرت کچن میں دودھ گرم کرتے ہوئے جل کر بجھ جانے والی ماچس کی تیلی سے کھیل رہی تھی۔ نصرت کی انکھوں میں آنسو تھے ۔ وہ کچھ ماہ پہلے ہونے والی آمنہ اور اپنی گفتگو کا اعادہ کر رہی تھی۔ جس میں وہ اسے ڈٹ جانے اور اپنے لیے لڑنے کے مشورے دے رہی تھی۔ آج وہ بے بسی سے جلی ہوئی تیلی کو کھرچ رہی تھی۔ اس نے اپنی امی کو جب الٹراساونڈ سے متعلق بتایا تو وہ افسردہ ہو گئیں ۔ نصرت نے جب آفاق کے فیصلے کی بات کی تو وہ خاموش ہو گئیں ۔ نصرت نے اداس لہجے میں کہا۔ امی کیا ایک بچے کی جان لینا درست ہو گا۔ جب کہ وہ میرے جسم میں حرکت کر رہا ہے۔ اس کے دل کی دھڑکن میں کہیں بار سن چکی ہوں ۔ نصرت کی امی نے کچھ دیر خاموشی کے بعد کہا بیٹا جو آفاق کہتا ہے وہ کرو۔ تم دونوں مل کر جو فیصلہ کرو گئے وہ ٹھیک ہی ہو گا۔ پیدا ہونے کے بعد جو تمہاری پریشانی کا باعث بنے ،ایسے بچے کا کیا فائدہ۔ نصرت کی انکھوں میں آنسو تھے ، اس نے اداسی سے کہا۔ اپنی تکلیف سے بچنے کے لیے ہم قتل کر دیں ۔ دوسری طرف بلکل خاموشی تھی ۔ نصرت نے فون بند کر دیا۔
دودھ ابل کر چولھے پر گِر رہا تھا۔ راحت نے چولھا بند کرتے ہوئے نصرت کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔نصرت روتے ہوئے کمرے میں چلی گئی۔ آفاق نے اسے روتے ہوئے دیکھا تو سمجھاتے ہوئے کہا۔ دیکھو نصرت کچھ فیصلے جذبات میں آ کر نہیں کئے جاتے ۔ میں نے بھی یہ فیصلہ خوشی سے نہیں لیا۔ سوچو! جب وہ بچہ معاشرے کے معیار پر پورا نہیں اُترے گا تو کیا ہوگا۔ یہاں ٹھیک ٹھاک انسان کو جینے کے لیے جانے کیا کیا تکالیف کا سامنا ہوتا ہے ۔ تم سمجھدار ہو خود ہی سوچو۔
نصرت نے آفاق کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ آ پ کو اس بچے کی تکلیف کی فکر ہے یا اپنی اور میری تکلیف کی۔ آفاق نے غصے سے کہا۔ تم بات کو سیدھے طریقے سے سمجھو گی نہیں ۔ دیکھو نصرت مجھے یہ بچہ نہیں چاہیے سنا تم نے۔۔اس نے اپنے لہجے پر زور دیتے ہوئے کہا۔نہیں چاہیے۔ ہم کل ہی جا کر یہ کام ختم کریں گئے۔ میں نے ڈاکٹر سے وقت لے لیا ہے۔ نصرت نے حیرت سے کہا ، کیوں ۔ مجھ سے پوچھے بغیر۔ آفاق نے سنجیدگی سے اسے دیکھا اور بولا ۔ طے کر لو ،فیصلے تم کرو گی یا میں ۔ اس گھر کا سربراہ کون ہے؟ نصرت نے تیکھے لہجے میں کہا سربراہی اور ڈکٹیٹر شپ میں فرق ہوتا ہے۔میں فیصلہ کر چکی ہوں ،میں اس بچے کی جان نہیں لوں گی۔ نہ ہی کسی کو اس کی جان لینے دوں گی۔ اگر اللہ تعالیٰ کی آزمائش ہے تو مجھے قبول ہے۔
آفاق نے غصے میں کہا مجھے قبول نہیں ، اگر تمہیں میرے ساتھ اس گھر میں رہنا ہے تو تمہیں اس بچے کو بھولنا ہو گا۔ نصرت کی انکھوں میں آنسو بھر آئے ، اس نے غصے سے آفاق کی طرف گھورتے ہوئے کہا۔ اگر آپ کو مجھے اپنے ساتھ رکھنا ہے تو یہ بچہ تو آپ کوقبول کرنا ہی ہو گا۔ میں کسی قیمت پر بھی اپنے فیصلے سے پیچھے نہیں ہٹوں گی۔ میں اس قدر خود غرض نہیں ہو سکتی ۔ تکلیف سے بچنے کے لیے قتل کر دوں ۔ کبھی نہیں۔
آفاق نے غصے سے چلاتے ہوئے کہا تو پھر میرا بھی آخری فیصلہ سن لو ، اگر تم کل میرے ساتھ ڈاکٹر کے پاس نہیں گئی تو پھر اپنی ماں کے گھر جاو گی ۔ میں تمہیں طلاق دے دوں گا۔ اس بچے سے میرا کوئی واسطہ نہیں ہو گا۔ سمجھی۔ وہ کپڑے جھاڑتے ہوئے اُٹھ کھڑا ہوا۔ نصرت نے روتے ہوئے خود کو سمجھانے کی کوشش کی ، آفاق ابھی غصے میں ہیں ۔ جب بچہ ہو جائے گا تو وہ اسے قبول کر لیں گئے۔
نصرت ڈائری لکھ رہی تھی۔ اس نے آمنہ کے لیے جو غزل لکھی تھی اسے پڑھنے لگی۔
سمجھ سکو تو سمجھو تم
خاموشی میں اک بات ہے
جب راستے بہت مشکل ہو ں تو
آسانی کے لیے شروعات ہے
جو دینا سیکھ لیتا ہے
اسی کے لیے سوغات ہے
چمکتے ہیں تارے جس میں
وہ دن نہیں وہ رات ہے
جو بدل سکتی ہے تمہاری دنیا کو
فقط وہ تمہاری اپنی ذات ہے
آفاق نے اس کی ڈائری اس کے سامنے سے ہٹاتے ہوئے ،بڑے پیار سے کہا۔ چلو ڈاکٹر کے پاس جانے کا وقت ہو گیا۔ نصرت نے بیزاری سے آفاق کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ میں نہیں جاوں گی۔ راحت نے کمرے میں آ کر نصرت کو سمجھانے کی کوشش کی ،نصرت نے اس کی طرف بھی بیزاری سے دیکھتے ہوئے کہا۔ میں کبھی بھی اپنے بچے کا قتل نہیں کروں گی۔
آفاق نے غصے سے چلاتے ہوئے کہا تو ٹھیک ہے۔ اس نے الماری کے اوپر سے اٹیچی کو کھینچ کر نیچے کرتے ہوئے ،بیڈ پر پھینکا۔ نصرت کے کپڑے نکال کر اٹیچی میں مڑوڑ کر غصے سے دباتے ہوئے اٹیچی کو بند کیا۔ دفع ہو جاو پھر اپنی ماں کے گھر ۔ مجھے ایسی عورت نہیں چاہیے جو میری نہ سنتی ہو۔ نصرت نے روتے ہوئے آفاق کی طرف دیکھا۔ آپ اس ایک بات کو چھوڑ کر جو کہیں میں ماننے کو تیار ہوں ۔ آفاق نے غصے سے کہا دیکھو نصرت تمہیں فیصلہ کرنا ہو گا۔ میں یا یہ بچہ۔ نصرت نے روتے ہوئے کہا۔ میں اپنا بچہ قتل نہیں کروں گی۔ نہ ہی کرنے دوں گی۔ آفاق نے اسے بازو سے پکڑتے ہوئے گھسیٹا اور گاڑی تک لے آیا۔ پھرغصے سے چلایا ، دیکھ لو۔ پھر سوچ لو۔ یہ نہ کہنا کہ میں نے تمہیں موقع نہیں دیا۔ راحت نے نصرت کو کہا۔ نصرت کیوں پاگل بن رہی ہو۔ دیکھو جو آفاق کہتا ہے مان لو۔ نصرت نے روتے ہوئے کہا۔ آپ ہمارے پرسنل معاملے میں نہ بولیں ۔ ارحم کے رونے کی آواز آ رہی تھی ۔ نصرت کمرے میں جانے لگی تو آفاق نے راحت سے کہا ۔ آپ ارحم کے پاس جائیں ، خود کمرے سے اٹیچی لے آیا اور ڈکی میں رکھتے ہوئے ڈگی بند کی۔ نصرت پھر سوچ لو ۔ ڈاکٹر کے پاس جانا ہے یا اپنی ماں کے گھر۔ میں تمہیں طلاق دے دوں گا۔ ارحم کو بھی بھول جانا۔ بیٹھی رہنا اپنا بچہ لے کر۔سڑک پر بھیک مانگتے پھرتے ہیں ایسے بچے۔تمہارا بچہ اور تم جاو پہاڑ میں میری طرف سے سمجھی۔
نصرت نے روتے ہوئے کہا۔ میرا بچہ ۔ یہ بچہ آپ کا نہیں ہے۔ آفاق انسانیت کا سبق دینے والا ، دوسروں کے حقوق کے لیے لڑنے والا وہ آدمی کہاں ہے۔ آج اپنے ہی بچے کے قتل کے در پے کیسے ہو گیا۔ ارحم میرا بچہ ہے ، جہاں میں جاوں گی وہ بھی جائے گا۔ آفاق نے راحت سے کہا۔ارحم کو لے کر آپ اندر جائیں ۔ نصرت نے چیخ کر کہا ۔ ارحم کی ماں میں ہوں ، راحت نہیں ۔ آفاق نے غصے سے کہا۔ ماں بننے میں کون سی دیر لگتی ہے۔ نصرت کو اپنے پیروں کے نیچے سے زمین سرکتی ہوئی محسوس ہوئی۔ راحت اور آفاق کب اس قدر قریب آ چکے تھے ، اسے کچھ اندازہ نہیں تھا۔ اس نے ہمدردی کے نام پر اپنے پیروں پر کلہاڑی ماری تھی۔
وہ گم سم سی کھڑی تھی کہ آفاق نے گاڑی کا دروازہ کھولا ،اسے گاڑی میں دھکیلا۔ وہ ارحم کی طرف سکتے کی سی حالت میں دیکھ رہی تھی۔ جو اس کے جانے پر کسی قسم کا ردعمل نہیں کر رہا تھا۔ بلکہ بائے بائے کر رہا تھا۔ جو روز راحت اسے کروایا کرتی تھی۔ وہ دل پر بھاری بوجھ کے ساتھ گاڑی میں خاموشی سے بیٹھی تھی۔ دل ہی دل میں سوچ رہی تھی۔ یہ ہے وہ شخص جس کے لیے میں راتوں کو اُٹھ اُٹھ کر دُعائیں مانگتی تھی کہ وہ واپس آئے ۔ یہ ہے وہ شخص جس کو پوری ایمانداری سے میں نے اپنا آپ دیا۔ آفاق اور باجی راحت ۔ اس نے ایک لمبی آہ بھری ۔ اسے کے دماغ میں امی کی باتیں ۔ آمنہ کی باتیں اور وہ بہت سی باتیں گھوم رہی تھیں جو عورت کی بے بسی کی دلالت کرتی ہوں ۔ آفاق نے نصرت کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ابھی بھی وقت ہے نصرت ۔اپنے بنے بنائے گھر کو نہ خراب کرو ۔ ڈاکٹر کے پاس چلیں ۔ نصرت نے غصے سے آفاق کی طرف دیکھا، وہ اسے اس وقت دنیا کا گھٹیا ترین انسان معلوم ہو رہا تھا، اس نے غصے سے چیخ کر کہا۔ کبھی نہیں ۔کسی قیمت پر نہیں ، جہنم میں جائے وہ گھر ، جہاں رہنے کے لیے مجھے قتل کرنا پڑے۔ زندگی اتنی لمبی نہیں آفاق صاحب کہ میں اس کے لیے اپنی آخرت برباد کر دوں۔
اللہ تعالیٰ نے صاف صاف کہا ہے ،جس نے ایک انسان کا قتل کیا تو اس تمام انسانوں کا قتل کیا۔ میں کسی قیمت پر بھی آپ جیسی نہیں ہو سکتی ۔ آپ کر لیں راحت سے شادی ۔ لے لیں ارحم کو مجھ سے پھر بھی میں وہ نہیں کروں گی۔ جو غلط ہے۔ اللہ تعالیٰ مجھے ثابت قدم رکھے ۔وہ اپنے دوپٹے سے اپنا چہرہ صاف کر چکی تھی ۔ آفاق کے چہرے پر شدید بے بسی تھی۔ اس نے دانت پیستے ہوئے ،گاڑی نصرت کے گھر کے قریب روکی ، اٹیچی کو ڈگی سے نکالا ۔ نصرت گاڑی کا دروازہ کھول کر باہر نکلی تو آفاق نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے فیصلہ کن انداز میں کہا۔ اگر تم دس دن تک ابوشن کروا کے واپس گھر آ گئی تو ٹھیک ورنہ گیارہویں دن میں راحت سے نکاح کر لوں گا۔ تمہیں طلاق دے دوں گا۔


 

kanwalnaveed
About the Author: kanwalnaveed Read More Articles by kanwalnaveed: 124 Articles with 281214 views Most important thing in life is respect. According to human being we should chose good words even in unhappy situations of life. I like those people w.. View More