( منشیات کا عفریت کس طرح انسانوں کو نگل جاتا ہے)
میں جب بھی مسجد جاتا مجھے وہ ادھیڑ عمر شخص نظر آتا، کسی زمانے میں وہ
ہینڈسم ہوگا ،مگر اب وہ ایک کان سے نہ صرف بہرہ تھا، بلکہ اس کی ٹانگ بھی
کٹی ہوئی تھی ۔ہر نماز کے بعد وہ شخص دیر تک دعا کے لئے ہاتھ بلند رکھتا ،مگر
صرف اس کی آنکھوں سے آنسو ہی بہتے۔ایک دن میں نے تجسس سے اس سے کہا:
بابا جی مجھے اپنی کہانی سنانا پسند کرینگے ۔
وہ مسکرایا اور بولا :
اب تو اس دل پر اتنا بوجھ ہے کہ دل کرتا ہے کہ اب کسی سے یہ بوجھ بانٹ ہی
لوں ۔وہ کھوئے کھوئے لہجے میں بولا۔تو چلئے میں آپ کو اس بے نام تارے کی
کہانی اسی کے الفاظ میں سناتا ہوں۔اس نے اپنی کہانی کچھ اس طرح سنائی۔
میں اپنا سر اپنے ہاتھوں میں لے کر بےبس بیٹھا تھا، ۔میں زندگی کی دوڑ میں
سب کچھ ہار چکا تھا۔کچھ عرصے پہلے تک میں ایک مشہور زمانہ ڈاکٹر تھا، میرا
جھیل کے کنارے ایک خوبصورت گھر تھا، میری بیوی مجھ پر جان چھڑکتی تھی، میرے
تین خوبصورت بچے تھے۔ میری سماج میں ایک عزت تھی۔ مگر میری نشے کی علت نے
سب کچھ نگل لیا،میرا ہر پیارا رشتہ مجھ سے دور ہوگیا، آج میں جیل کی سلاخوں
کے پیچھے سڑ رہا تھا۔
میرے والدین نئی نئی شادی کے بعد فورا کینیڈا آگئے، میں جب پیدا ہوا تو صرف
تین پاونڈ وزنی تھا، میرا نظام انہظام انتہائی خراب تھا، میرا بچپن صحت کی
پیچیدگیوں کے باعث بے رنگ گزرا۔جب میں ہائی اسکول پہنچا تو اپنے ساتھی
طالبعلموں کو شراب، مارفین،ہیروئین ،درد کی گولیوں کے نشے میں غرق پایا،
میں نے ایک آدھ دفعہ نشہ کرنے کی کوشش کی مگر کمزور صحت کے باعث خوفزدہ
ہوکر ترک کردیا۔انھی دنوں مجھے ایک اسپتال میں رضاکارانہ کام کرنے کا موقع
ملا تو مجھے پہلی دفعہ اپنا نصب العین دکھائی دیا۔میں نے ڈاکٹر بننے کا
فیصلہ کیا ۔ایک دن میں سیڑھیوں سے اترتے ہوئے گر گیا میری کمر میں چوٹ آئی
۔ڈاکٹر نے مجھے درد کی گولیاں دیں، مجھے وہ گولیاں بڑی سکون بخش محسوس
ہوئیں ۔میں نے اپنا کو زندگی میں پہلی بار چاک و چوبند، زیادہ حاضر جواب،
زیادہ نڈر اور بے خوف پایا ۔ مجھے پہلی بار خواہش ہوئی کہ کاش میرے پاس
زیادہ مقدار میں درد کی گولیاں ہوتیں اور میں ان کو مستقل استعمال کرسکتا۔
میڈیکل کی پڑھائی کی مصروفیات میں اپنا یہ تجربہ بھول گیا ۔میں تعلیم سے
فارغ ہوکر ایک مقامی ہاسپٹل میں ایمرجنسی میں ڈاکٹر کے طور پر تعنیات
ہوگیا۔اس عرصے میں میرے والدین نے حوریہ سے میری شادی کر دی ۔شادی کے بعد
ایک دفعہ کیمپنگ کے دوران میری کمر میں تکلیف ہوئی اور ڈاکٹر نے بتایا کہ
میرے ریڑھ کی ہڈی کے مہروں میں فاصلہ آگیا ہے ۔اس نے مجھے درد کم کرنے کے
لئے گولیاں لکھ کر دیں ۔میں نے ایک دن تفریح طبع کے طور پر چار گولیاں
اکٹھی کھالیں، میرے جسم میں ایک مدہوشی اور خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔میں نے
محسوس کیا یہ گولیاں میرے تمام مسائل کا حل ہیں ۔میں ایک مسیحا تھا، مجھے
نشے کی علت کا بھرپور علم تھا۔مجھے پتا تھا کہ کینیڈا کیا پورے دنیا میں
نشہ آور ادویات بھی بطور نشہ استعمال کی جاتی ہیں مجھے علم تھا کہ نشئی ان
ادویات کے زیر اثر جو محسوسات محسوس کرتے ہیں اس سے زیادہ احساس
گناہ،شرمندگی اور فرسٹریشن نشہ اترنے پر محسوس کرتے ہیں اور آہستہ آہستہ ان
کی نشے کی طلب اتنی بڑھ جاتی ہے کہ وہ اوور ڈرگ سے یا تو مر جاتے ہیں یا
ڈپریشن کے باعث خودکشی کرلیتے ہیں ۔ مگر یہ سب جانتے ہوئے بھی میں نے
گولیوں کا استعمال بڑھا دیا۔میں ہر دفعہ اپنے ڈاکٹر کو اپنے درد کی جھوٹی
کہانی سنا کر مزید prescription لکھوا لاتا۔میرے اس دوران میں تین بچے
ہوچکے تھے۔ میری والدہ اور حوریہ کے بیچ ساس بہو کی سرد جنگ شروع ہوچکی تھی
۔وہ دونوں مجھے اپنی اپنی طرف کھینچنا چاہتی تھیں ۔میری والدہ کمر کی مریضہ
تھیں۔وہ Fentanyl کے درد کے پیچز استعمال کرتی تھیں ۔میں نے ان کے پیچز چرا
کر گوگل سے Fentanyl سموک کرنے کا طریقہ سیکھ لیا۔ میری نشے کی طلب اب دن
بدن بڑھتی جارہی تھی ۔میں نے اپنے ساتھی ڈاکٹروں کے prescription pads پر
جعلسازی کر کے مختلف مریضوں کے نام سے Fentanyl pads لینے شروع کردئے ۔میں
اب اپنے گھر کی basement میں یہ شوق کرتا، مجھے کبھی کبھی اپنے آپ سے گھن
آتی ، مگر میرے سارے ارادے میرے نشے کی علت کے آگے ٹوٹ جاتے۔ میں اپنی بیوی
کو مارنے پیٹنے لگا، میرا رویہ میرے والدین سے بھی گستاِخانہ ہوتا گیا۔میری
توجہ میرے بچوں سے ہٹتی گئی۔میرا تیس پاؤنڈ کے قریب وزن گر گیا۔
ایک دن ایسا بھی آیا کہ میرے نشے کی فراہمی ختم ہوگئی اور اس طلب کی
کپکپاہٹ میں میرے ہاتھوں ایک مریض کی جان چلی گئی ۔میرے پاپوں کا گھڑا بھر
چکا تھا۔اس لیئے ہی شاید اس دن جب میں فارمیسی Fentanyl patches لینے گیا
تو pharmacist نے اسپتال فون کر کے تفشیش کی اور میرے جھوٹ کا بھانڈا پھوٹ
گیا۔ مجھے پولیس نے گرفتار کرلیا، میرا میڈیکل کا لائسنس سسپینڈ
suspendہوگیا ۔میری بیوی میرے بچے لے کر اپنے میکے چلی گئی ۔میرا مارٹگیجڈ
گھر نیلام ہوگیا ۔میرے والدہ یہ صدمہ برداشت نہ کر پائیں اور اللہ کو پیاری
ہوگئیں، میرے والد کو الزائیمر Alzheimer تھا وہ اکیلے رہ گئے اور ایک روز
اپنی غیب دماغی میں انھوں نے گیس کا چولہا کھلا چھوڑ دیا اور وہ بھی اس
جہان فانی سے کوچ کر گئے ۔میری بیوی نے مجھ سے طلاق لے لی اور بچوں کو لے
کر پاکستان چلی گئی، میں نے اسے بہت ڈھونڈا مگر وہ مجھے نہ ملی، میں اپنے
بچوں کی شکلیں دیکھنے کو ترس گیا۔میرا گھر اور تمام اثاثے نیلام ہوگئے
۔میرے روشن مستقبل کا ستارہ میری ناعاقبت اندیشی سے ڈوب گیا ۔میں اب اللہ
تعالی سے معافی کا خواستگار ہوں اور اپنی زندگی کے بچے کھچے دن گزار رہا
ہوں۔
یہ کہہ کر اس نے اپنے آنسو صاف کئے اور مسجد سے باہر چل پڑا، میں نے بے
اختیار اسے آواز دے کر پوچھا:
اپنا نام تو بتاتے جائیں؟
وہ پلٹ کر بولا:
"میں وہ سکندر ہو جس نے اپنے مقدر کا ستارہ خود غروب کردیا۔
مجھے اپنے بنائے ہوئے زندان سے جب رہائی ملی ،اس وقت تک دیر ہوچکی تھی۔" |