لوٹ مار کہاں کہاں ہوئی

یہ کہانی کچھ مہینے پہلے مردان میں پیش آئی جب شاد علی خان نے 5 روپے گم ہونے پر اپنی 8 سالہ بیٹی سدرہ پر تشدد کیا ۔ والد نے سدرہ کو سوروپے سود سلف خر یدنے کیلئے دیے تھے ۔ سودا خریدنے کے بعد باقی رقم میں5 روپے چھوٹی بچی سے راستے میں گم ہوئے تو ان کے والد شاد علی نے اپنی سگی بیٹی کولاٹھی سے مار نا شروع کیاجب وہ لاٹھی ٹوٹی گئی تو کرنٹ لگاتا رہا جس کی وجہ سے بچی کی کیاحالت ہوگئی تھی اس کو میں بیان نہیں کر سکتا ‘ کہ جس معاشرے میں غربت کے ڈھیرے ہووہاں باپ 5روپے گم ہونے پر تشدد کرتے ہیں اور یہ کہانی صرف مردان میں شاد علی کی نہیں بلکہ ہر جگہ اس طرح کے واقعات و قتاً فو قتاً پیش آتے رہتے ہیں ۔ اس غم زدہ واقعے کے بعد پولیس نے مجرم باپ کو گرفتا ر کیا۔ایک طرف ملک میں یہ حالات ہے کہ غربت کی وجہ سے تشد د اور مار پیٹ ہوتی ہے ، مائیں اور باپ بچوں سمیت غربت اور افلاس کی وجہ سے خودکشیاں اور مار پیٹ کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف اس مملکت خداداد میں حکمرانوں کی عیاشیوں اور لوٹ مار نے ملک اور اداروں کا ایسا حال کر دیا ہے کہ ہر جگہ تباہی و بربادی کی گئی ہے جو ہمارے دشمن بھی نہ کر سکے وہاں ہمارے سیاست دانوں کی لوٹ مار نے پورے ملک کو خالی کردیا ۔کرپشن اور لوٹ مار کی کچھ اعداد وشمار پیش کرتا ہوں۔

356ارب قرضوں میں جکڑی پی آئی اے کاسالانہ خسارہ‘45ارب سے زیادہ ہے۔پی آئی اے کے ایک جہاز کیلئے ساڑھے تین سو ملازم بھرتی کیے گئے ہیں ۔ یہ بھرتی میرٹ تو کیا بغیر آسامیوں اور حساب کتاب کے لاکھوں روپے ماہنا تنخواہ پر اپنے اعزاز واقارب کوپی پی اور ن لیگ نے بانٹے جس کا خمیازہ آج پوری قوم اٹھا رہی ہے۔ اس طرح 2007سے مسلسل خسارے میں اسٹیل مل سالانہ خسارہ2 سو ارب سے زیادہ ہے۔اب حالات اسٹیل مل کی اس پوزیشن پر پہنچ گئے ہیں کہ اسٹیل مل کو فروخت کرکے بھی نقصان پورا نہیں ہوسکتا ۔ ایک طرف اسٹیل مل خسارے میں تو دوسری طرف ن لیگ اور پی پی قائدین کی اپنی ملز اربوں روپے سالانہ کمائی کرتی ہے۔

ریڈیو پاکستان کا سالانہ خسارہ1 ارب25 کروڑ روپے بنتا ہے۔ ن لیگ اور پی پی دور میں اتنے لوگ بغیر ضرورت کے رکھے گئے جس کی وجہ سے کام کرنے والے اینکرز ، نیوز کاسٹر، تجزیہ کاروں سمیت نیوز ڈسک پر کام کرنے والوں کا حال یہ ہے کہ پچھلے چار سالوں سے ان کو مہینے کی تنخواہ 15فی صد ٹیکس نکال کر بعض کے 5،8، اور بعض کے 10،12ہزار روپے بھی نہیں مل رہے ہیں ۔ ان میں بعض کے چھ اور سات مہینوں کی تنخواہ رہتی ہے جبکہ بعض پڑھ لکھے ان میں سے بارہ ماہ سے بھی زیادہ کی رہتی ہے۔ یہ وہ افراد ہے جن کی وجہ سے ریڈیو چلتا ہے یعنی یہ لوگ پروگرام اور خبریں بناتے اور پڑھتے ہیں جن میں 99فی صدمیر ٹ پر کام ہوتا ہیں، یہاں سفارش کم ہی چلتی ہے کیوں کہ کام کرنا پڑتا ہے جبکہ سیاسی اثرو رسوخ والے افراد جن کا کا م تو کوئی نہیں لیکن ان کو مہینہ پچاس ہزار سے لے کر ایک لاکھ تک ملتے ہیں ۔یہی حال پی ٹی وی کا ہے جس میں ہر مہینے پی ٹی وی کو بجلی بل میں ٹیکس دینے کے باوجود جس سے ہر مہینے 7ارب روپے بنتے ہیں اوراربوں کے اشتہارات اس کے علاوہ ہیں اس کے باوجود 2 ارب کاخسارہ سمجھ سے بالاتر ہے ۔پی ٹی وی میں 800 غیر قانونی بھرتیوں کا اوروزارت سائنس میں 3 ہزار غیرقانونی بھرتیوں کا انکشاف بھی ہوا ہے۔

اس طرح ایف بی آر ،پاکستان ریلوے ، واپڈا ، سوئی گیس اور یو ٹیلیٹی کارپوریشنز سمیت کوئی ادارہ ایسا نہیں ہے جہاں میرٹ کا نظام ہواور وہاں لوٹ مار نہ کی گئی ہو، جس کا جہاں بس چلا ہے انہوں نے وہاں ہاتھ صاف کیا ۔ریڈیو اور پی ٹی دی کا خسار کم ہے لیکن وہاں نظام اور پروگرامز کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے اور یہ ادارے اسٹیٹ کے ادارے کہلائے جاتے ہیں ۔ ان کی اپنی الگ مقام اور اہمیت ہے ان کو قائم رہنا چاہیے۔

یہ صرف چند اداروں کا حال ہے باقی کیا ہورہاہے ہر جگہ کی اپنی الگ کہا نی موجود ہے۔دوسری طرف 150ارب روپے ایم این اے میں یوسف رضاگیلانی کے دور میں تقسیم ہوئے لیکن ریکارڈ نہیں۔اس طرح جاتے جاتے آخری دنوں میں ن لیگ وزیراعظم عباسی نے دو سو ارب روپے اپنے نمائندوں میں تقسیم کیے۔ ظلم وستم کی کہانی یہ بھی ہے کہ کراچی میں سندھ حکومت نے سینکڑوں ہزار کنال زمین 7ہزار فی کنال پراپرٹی ڈیلر کو دی وہ زمین وہ آج کل دو کروڑ روپے میں فی کنال بیج رہاہے۔اس طرح میٹرو بسوں کا ہر ماہ اربوں روپے خرچ الگ لیکن اس میں اربوں روپے کی لوٹ مار اور کرپشن کی داستان جدا ہے۔ اس طرح اسلام آباد ائرپورٹ سمیت مختلف بجلی گھروں میں اربوں کی کرپشن اور بعدازاں ریکارڈ کو جلانا بھی تفتیش اور کارروائی کی منتظر ہے۔

دوسری طرف نواز شریف ، شہباز شریف اور زرداری اینڈ کمپنی کو چھوڑیں صرف اسحاق ڈار کے اثاثے ہی 1 سال میں9 سو گنا بڑھ گئے۔ان بڑے بڑے اسکینڈل کا حساب حکومت کو جلد ازجلد شروع کرنا چاہیے کہ جن مگر مچھوں نے کھربوں روپے یعنی دس سال میں23ہزار ارب روپے قر ضہ لیا جس میں ایسے ایسے قرضے بھی لیے گئے ہیں جن کا حساب کتاب دیکھا کر معلوم ہوتا ہے کہ اس سے بڑھ ملک و قوم کے ساتھ ظلم نہیں ہوسکتا تھا ۔ سچ تو یہ بھی ہے کہ ان قر ضوں کے بدلے سارے قومی اثاثوں کو ن لیگ نے گروی رکھا دیا ہے جبکہ قر ضے کہاں خرچ ہوئے کوئی حساب کتاب نہیں ۔ موجود ہ حکومت کے پاس آپشن کم ہے انہوں نے عوام کوخوش کرنا ہے تو اسی طرح قرضے لے جس طرح ن لیگ اور پی پی والوں نے لیے ہیں لیکن آنے والے ہماری نسلوں کو پھر آزاد ملک نہیں ملے گا۔ اب تو ہر مہینے قر ض واپس کرنے کیلئے تین سو ارب چاہیے‘پھر واپس کرنے پر پورا ملک حوالے کرنا پڑے گا۔ اس لوٹ مار کی کہانی کو ختم کرنے کیلئے سخت سے سخت قونین بنانا چاہیے اور تمام متعلق لوگوں سے حساب لینا چاہیے۔

Haq Nawaz Jillani
About the Author: Haq Nawaz Jillani Read More Articles by Haq Nawaz Jillani: 268 Articles with 202651 views I am a Journalist, writer, broadcaster,alsoWrite a book.
Kia Pakistan dot Jia ka . Great game k pase parda haqeaq. Available all major book shop.
.. View More