دست بستہ شہر میں کھولے میری زنجیر کون

ملک میں جس قدر ان پڑھوں، مجرموں، فسادیوں،قاتلوں،گھپلے بازوں، بدعنوانوں، اشتعال انگیزی کرنے والوں اور جھوٹ بولنے والوں کا بول بالا ہے اس کی مثال گزشتہ حکومتوں اور دنیا کے کسی ملک میں نہیں ملتی۔ اچھے برے حکمراں ہر دو ر میں ہوئے ہیں جنہوں نے عوام کے ساتھ ظلم کے پہاڑ توڑے ہیں ، عوام کے جذبات کچلے ہیں، لوگوں کو بھوکا مارا ہے لیکن یہ سارے واقعات شہنشاہیت ، جاہلیت کے دور اور ڈارک ایچ کے ہیں ۔ دنیا میں جمہوریت کے قیام کے بعد اس طرح کے واقعات شاذو نادر ہی ہوئے ہیں۔ ایک دوسرے ملک میں مداخلت اور تباہ کرنے واقعات تو ہیں لیکن اپنے ہی ملک کے عوام کی زمین تنگ کرنا شاید ہی کسی ملک میں ایسا واقعہ ہوا ہو۔ جمہوریت کا مطلب عوام کی حکومت اور عوام کے ذریعہ منتخب حکومت کا نام ہے۔ اسی وجہ سے عوام کے ساتھ حکومت کا سلوک حتی الامکان بہتر ہوتا ہے۔ عوامی جذبات کا خیال رکھا جاتا ہے۔ ان کے مفادات اور مرضی اور منشا کے برخلاف حکومت کام نہیں کرتی۔ یہی جمہوری حکومت کی شان اور شناخت ہے لیکن ہندوستان میں کبھی جمہوریت صحیح معنوں میں پنپ نہیں سکی اور بہت جلد استعماری قوتوں اور سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ بن گئی اور عوام کی اہمیت صرف ووٹ لینے کی حد تک محدود رہی اور رہنما خادم ہونے کی بجائے مخدوم ہوگئے۔عوام کے ٹیکس کے پیسے کا بیجا استعمال اپنی شان سمجھنے لگے۔ پولیس، انتظامیہ، اہلکارعوامی خادم ہونے کی جگہ پر عوام کے استحصال کا ذریعہ بن گئے۔ عوام کے ٹیکس پر پلنے والے افسران عوام پر حکومت کرنے لگے۔صورت حال یہ ہوگی عام لوگوں کی جان کی کوئی قیمت نہیں رہ گئی۔ اپنے حقوق کے مطالبات کے لئے مظاہرہ کرنے والے عوام پر پولیس لاٹھیاں برساتی رہیں، کسی پر گولیاں چلائیں۔حکومت اپنے مَخالفین کو دبانے کے لئے پولیس کا بیجا استعمال کرنے لگی۔ پولیس کے ذریعہ جھوٹے مقدمات قائم کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔اپنے حریفوں اور خاص طور پر سیاسی حریفوں کے خلاف کارروائی کرنے کے لئے تحقیقاتی ایجنسیوں کا بے دریغ استعمال ہوا اور رہورہا ہے۔ اس کا اثر عدلیہ پر بھی ہوا اور عدالت کے سہارے حکومت اپنے مخالفین کو کنارہ لگاتی رہی۔اس کے علاوہ حکومت نے عدالت کا سہارا لیکر پسماندہ، کمزور طبقات اور مسلمانوں کو سزا دینا شروع کیا اور ہر اس آواز کے خلاف کارروائی کی جس کے اٹھنے کا اندیشہ تھا۔ اس طرح حکومت کو عوامی فلاح و بہبود کے لئے جو قوت یا افرادی قوت صرف کرنی چاہئے وہ کچھ لوگوں کے خلاف کارروائی تک محدود ہوگئی۔ان میں سے تصادم یا انکاؤنٹر حکومت کا مؤثر ہتھیار رہا ہے۔ اس کے سہارے حکومت اچھے سے اچھوں کو خاموش کیا۔ہندوستان میں کم و بیش یہی صورت حال ہے اور خاص طور پر جہاں جہاں بی جے پی کی حکومت وہاں ماورائے عدالت قتل تو ایک فیشن بن گیا ہے۔ہندوستان خاص طور پر بی جے پی حکمرانی والی ریاست میں فرضی انکاؤنٹر ایک طرح سے حکومت کی شان بن گیا ہے۔ یوگی حکومت کے دس ماہ کے دوران 1100انکاؤنٹر ہوگئے ہیں۔اس کے ان کاؤنٹر پرسوالات اٹھائے گئے ہیں اور یہ کہا گیا ہے کہ فرضی انکاؤنٹر میں مارے گئے بیشتر کا تعلق پسماندہ یا مسلمانوں سے ہے۔ سابق آئی پی ایس افسر داراپوری نے بھی اترپردیش کے انکاؤنٹر پر سوال اٹھائے تھے اور بیشتر کو فرضی قرار دیا تھا۔ انسانی حقوق کارکنوں کا خیال ہے کہ اترپردیش میں جتنے بھی انکاؤنٹر ہوئے ہیں ان میں سے90 فیصد جعلی انکاؤنٹر ہیں۔

حالیہ 29 ستمبر 2018کے ویویک تیواری فرضی انکاؤنٹر فرضی انکاؤنٹر کے سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ابھی علی گڑھ میں 20ستمبر کو پولیس نے نوشاد اور مستقیم کا لائیو انکاؤنٹر کیا تھا اور اس کے لئے میڈیا کو بلایا گیا تھا آؤ ہم انکاؤنٹر کرنے والے ہیں۔ اس کے بارے میں بھی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔خاندان والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ دونوں کو موٹر سائیکل چلانی آتی ہی نہیں ہے تو وہ موٹر سائیکل سے کیسے بھاگ سکتے ہیں۔ پولیس کی تھیوری میں کہا گیا ہے کہ دونوں موٹر سائیکل سے بھاگ رہے تھے تو انہیں رکنے کا اشارہ دیا تھا لیکن وہ بھاگنے لگے تو پولیس نے ان کو گھیر کر انکاؤنٹر کردیا۔ اگر پولیس کی بات مان لیں تو پولیس اتنا وقت کیسے مل گیا کہ وہ میڈیا کو لائیو انکاؤنٹر دکھانے اور کوریج کے لئے بلائے۔ پولیس نے دونوں کا بیان لینے کا بھی دعوی کیا ہے جب کہ اس کی کوئی ریکارڈنگ موجود نہیں ہے۔ پولیس لائیو انکاؤنٹر کرسکتی ہے لیکن ہلاک شدگان زخمیوں کا بیان ریکارڈ کرنے سے کیسے چک گئی۔پولیس نے مندر میں چوری کرنے اور پجاری کے قتل کا بھی الزام لگایا ہے۔جب کہ ان کے رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ ان پر کوئی مقدمہ نہیں تھا۔ جو بھی مقدمات ہیں وہ موت سے کچھ گھنٹے پہلے اور بعد میں قائم کئے گئے ہیں۔ پولیس کی دیدہ دلیری اور قانون کو جوتیوں کی نوک پر رکھنے والے پولیس افسر نے فیکٹ فائنڈنگ کرنے والی ٹیم پر ہی مہلوکین کے خاندان والوں کے اغوا کا مقدمہ درج کرلیا۔ جس کو خاندان والوں نے کورے کاغذ پر دستخط کرکے پولیس نے خود ہی مقدمہ درج کرلیا ۔ انکاؤنٹر میں مارے گئے رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ پولیس نے ان دونوں کو دو دن پہلے اٹھالیا تھا۔پولیس کی تھیوری تضادات سے بھرپور ہے۔

علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اسٹوڈینٹ یونین کے صدر مشکور عثمانی اور سابق فیضل الحسن کی تحقیقات کے مطابق اترولی میں نوشاد مستقٖیم کرائے کے مکان میں رہتے تھے اور وہ مزدوری کرتے تھے اور وہ یہاں تقریباَ دس بارہ سال سے رہ رہے تھے کبھی ان کے یہاں پولیس نہیں آئی تھی۔ ان کے خلاف کوئی معاملہ ہوتا تو پولیس ضرور آتی ۔ 16 ستمبر کو پولیس آئی اور ان سے پوچھ گچھ کے بہانے سے لے گئی اور پھر 18ستمبر کو پولیس آتی ہے اور کہتی ہے کہ دونوں پولیس حراست سے بھاگ گئے۔ جب کہ قانون کے مطابق پولیس کو 24گھنٹے کے اندر ملزم کو عدالت میں پیش کرنا ہوتا لیکن نوشاد اورمستقیم کو پولیس نے کیوں نہیں پیش کیا۔ اس نقطے کو نہ تو میڈیا اٹھایا اور نہ ہی عدالت نے نوٹس لیا اور نہ ہی انسانی حقوق کمیشن نے۔ اس کے بعد پولیس نے پہلے سے مکتوب اسکرپٹ کے مطابق 20ستمبر کو پولیس نے لائیو انکاؤنٹر کردیا ۔ اس کے بعد خاندان والوں کو اطلاع دی جاتی ہے کہ نوشاد اور مستقیم میڈیکل میں ہے اسے دیکھ لیں، جب خاندان والے دیکھنے جاتے ہیں تو انہیں نہیں دکھایا جاتا اور آناَ فاناً ان دونوں کو بغیر کسی مذہبی رسم و رواج ،جنازے اور کفن کے گڈھوں میں دبادیا جاتاہے جس طرح جانوروں کو گڈھوں میں دبایا جاتا ہے۔ ان دونوں کی قبر بھی تیار نہیں کی گئی۔پوسٹ مارٹم رپورٹ اب تک مہیا نہیں کرائی گئی ہے اور پوسٹ مارٹم میں کہا گیا ہے کہ دو گولی دل اور گردے کو پھاڑ کر پار نکل گئی۔ جب ایسا ہوتا ہے کہ گولی لگنے والا ایک دو منٹ بھی زندہ نہیں رہ پاتا۔ تو پھر اسپتال لے جاتے ہوئے پولیس نے اس کا بیان کیسے لیا۔ یک سوال یہ بھی اٹھتا ہے کہ تصادم میں ایک پوائنٹ پر دو گولی نہیں لگتی جب کہ تک بہت ہی نزدیک سے گولی نہ ماری جائے۔مشکور عثمانی اور فیض الحسن نے دعوی کیا کہ اس قتل ایس ایس پی ملوث ہے ۔ بتایا گیا ہے کہ سادھو کے قتل میں یہ دونوں ملوث تھے جب کہ مقتول سادھو کے خاندان والے کہہ رہے ہیں ان دونوں کا کوئی ہاتھ نہیں ہے۔جب کہ کلیان سنگھ کے بیٹے راجویر سنگھ کے رشتہ داروں کا شک کا اظہار کیا ہے۔ دونوں نے یہ بھی بتایا کہ اترولی تھانہ میں پہلے دونوں کے خلاف کوئی ایف آئی آر درج نہیں تھی۔ ایس ایس پی کے ملوث ہونے کا ثبوت یہ بھی بجرنگ دل کی پوسٹ کو ایس ایس پی شیئر کر رہے ہیں۔ ایس ایس پی نے سادھو قتل معاملہ کو ختم کرنے کے لئے دو بے قصور مسلمانوں کا قتل کردیا۔اگر اس کی تحقیقات ہوجائے گی تو سب کچھ سامنے آجائے گا۔ معمولی سمجھ رکھنے والا انسان بھی اس کو فرضی انکاؤنٹر قرار دے رہا ہے تو پھر یہاں کے ہندی اور انگریزی کے صحافیوں، قانون داں، ججز․، وکلاء انسانی حقوق کی سرکاری اور رضاکار تنظیموں، سماجی اور انسانی حقوق کارکنوں،سیاست دانوں، وزراء، انتظامیہ اور دیگر کو سمجھ میں کیوں نہیں آرہی ہے۔ کیا ان لوگوں نے طے رکھا ہے کہ مسلمانوں کے معاملات کو نہیں اٹھائیں گے اور مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کی حمایت کرنا ہندوستان میں حب الوطنی کی علامت ہے؟

اس طرح کی صورت حال میں پولیس کا حوصلہ اس قدر بڑھ گیا کہ وہ خاطی اور معصوم کے درمیان تمیز کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتی ۔ویویک تیواری کا انکاؤنٹر اسی زعم میں کردیا۔ اگر معلوم ہوتا ہے کہ وہ ویویک تیواری ہے تو پولیس ایسی حماقت نہیں کرتی۔ پولیس کو انکاؤنٹر کی اتنی لت گئی کہ وہ بھول گئی کہ وہ کوئی مسلمان یادلت اور کمزور طبقے نہیں ہے وہ ایک برہمن ہے جس کی اکثریت حکومت کے تمام شعبہائے جات میں ہے۔اسی موقع کے لئے راحت اندوری نے کہا ہے۔

لگے گی آگ تو آئیں گے زد میں کئی گھر۔ یہاں پر صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے

ویویک تیواری اسی طرح زد میں آگئے اور گاڑی نہ روکنے کے جرم میں ان کا انکاؤنٹر کردیا گیا۔جسے یوگی نے بھی ا نکاؤنٹر کے بجائے قتل تسلیم کیا ہے اور فوری کارروائی کرتے ہوئے دونوں پولیس اہلکار پرشانت ملک اور سندیپ چودھری برخاست کردیا اور قتل کا مقدمہ درج کرتے ہوئے جیل بھیج دیا۔ یہی ویویک کے خاندان کے مطالبات کے سامنے بھی یوگی حکومت نے سرخم تسلیم کرلیا ہے۔ یہ اچھی بات ہے کہ خاطی پولیس والوں کے خلاف کاررورائی ہوئی ہے لیکن اسی طرح کی فوری کارروائی تمام فرضی انکاؤنٹر انجام دینے والے افسران کے خلاف کی جانی چاہئے۔ علی گڑھ فرضی انکاؤنٹر کے خلاف تحقیقات کے ساتھ ان میں ملوث سارے افسران کو معطل کرنا چاہئے تاکہ سچ کا پتہ لگایا جاسکے۔

مودی کے دور حکومت میں گجرات قتل عام کے بعد مسلم نوجوانوں کا انکاؤنٹر میں قتل کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ جس میں سہراب الدین انکاؤنٹر کافی مشہور ہوا جس میں بی جے پی کے موجودہ صدر امت شاہ پر انکاؤنٹر کروانے کا الزام ہے۔ اس کے دوران درجنوں انکاؤنٹر گجرات میں ہوئے اور شوشہ یہ چھوڑا جاتا تھا کہ یہ لوگ وزیر اعلی نریندر مودی کو قتل کرنے آئے تھے۔ اس کے بعد سب سے مضحکہ خیز انکاؤنٹر بھوپال انکاؤنٹرتھا جس میں مدھیہ پردیش پولیس نے اسلام پسند طلبہ کی ممنوعہ تنظیم اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا (سیمی) کے ہندوستان کی محفوظ ترین جیلوں میں سے ایک بھوپال سینٹرل جیل سے فرار ہونے والے آٹھ مبینہ انتہا پسندوں کے اکتیس اکتوبر کو ایک مسلح تصادم کے دوران مارے جانے کو اپنی بڑی کامیابی قرار دیا تھا لیکن موبائل فون سے بنائے گئے دو ویڈیوز کے منظر عام پر آجانے سے اس بارے میں پولیس کے دعوے مشکوک ہوگئے ہیں۔ان میں سے ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کس طرح زمین پر گرے ہوئے ایک زخمی قیدی کو بہت قریب سے گولی ماری گئی جب کہ دوسری ویڈیو میں ایک شخص ایک دوسرے شخص کو ایک زخمی قیدی کو ماں کی گالی دیتے ہوئے اسے گولی مار دینے کے لیے کہتا سنائی دیتا ہے۔ ویڈیوز کے منظر عام پر آنے کے بعد ہندوستانی اپوزیشن جماعتوں اور حقوق انسانی کی تنظیموں نے مدھیہ پردیش میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے اس پولیس مقابلے کو جعلی قرار دیا ہے۔مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ ان پر الزام تھا کہ ان لوگوں نے لکڑی کی چابی سے تالا کھولا اور چادر کے سہارے ایک نہیں تین دیوار پار کیا۔ یہ اتنا مضحکہ خیز تھا کہ پوری نے اسے فرضی من گھڑت قرار دیا لیکن یہاں عدلیہ اور حکومت کو فرضی انکاؤنٹر نظر نہیں آیا۔ دلائل اور حقائق کو کوڑے دان میں ڈالا دیا گیا تھا اور اس کوا سی طرح تسلیم کیا گیا جس طرح پشپک ویمان کا تصور ہے یا گنیش جی کی پلاسٹک سرجری کا تصور ہے۔ اگریہ دونوں صحیح ہیں توبھوپال انکاؤنٹر بھی صحیح ہے۔ اس پر سیاست دانوں، سماجی کارکنوں، وکلاء اور یہاں تک سپریم کورٹ کے سابق جج تک انگلی اٹھائی تھی اور فرضی انکاؤنٹر قرار دیا تھا۔ اس معاملے قومی انسانی حقوق کا رویہ آر ایس ایس والا رویہ تھا۔ اسی طرح حیدرآباد میں پانچ مسلم نوجوانوں کو ورنگل سینٹرل جیل سے سات اپریل2015 کوعدالت میں پیش کرنے کے لئے حیدرآباد لے جا رہی تھی کہ وقارالد ین احمد سمیت پانچ افراد کو ہلاک کر دیا تھا ۔لیکن اس واقعے کے فورا بعد سے میڈیا میں جاری تصویروں پر شوسل میڈیا پر اس انکاونٹر پر سوال اٹھنے لگے ہیں ، تصویروں میں سبھی پانچوں نوجوانوں کے ہاتھ میں ہتھکڑیا ں لگی ہیں اور ان کے ہاتھوں میں رائفل پکڑا دی گئی تھی جسے دیکھ کر کسی بھی کو یہ سمجھنے میں دیر نہیں لگے گی کہ یہ انکاونٹر بھی ماضی میں ہوئے انکاونٹرس کی طرز پر فرضی طریقے سے انجام دیا گیا ہے۔حیدرآباد کے یہ پانچ مسلم نو جوان کو بہت ہی ڈرامائی انداز میں قتل کرکے تصادم کا جامہ پہنادیا گیا․ حیرانی کی بات یہ تھی کہ یہ شخص ہتھکڑیوں میں جکڑا ہے، اپنی سیٹ پر بے ہوش سا پڑا ہے، اس کے پورے جسم پر خون کے چھینٹے ہیں ان کی یہ حالت تلنگانہ پولیس کے ساتھ ہوئے انکاؤنٹر میں ہوئی۔اس انکاؤنٹر پر ایمنسٹی انترنیشنل انڈیا کے وی پی ابھیر نے کہا تھا ’’غیر عدالتی ہلاکت ہندستان میں ایک سنگین مسئلہ ہے کہ عدالت کے فیصلہ کے بغیر مجرموں کو بڑی بے خوفی سے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے اور ایسا کرنے والے چھوٹ بھی جاتے ہیں‘‘۔

ملک میں فر ضی انکاؤنٹر کے ذریعہ مسلمانوں کا قتل، ماب لنچنگ میں مسلمانوں کا قتل، تین طلاق پر منمانہ طریقہ کا آرڈی نینس، تین طلاق پر سپریم کورٹ کا فیصلہ اور مسجد کو نماز کے لئے سپریم کورٹ کا ضروری قرار نہ دینا۔ یہ ایسے معاملات میں جس کے اثرات دور رس ہوں گے۔ مسلمانوں کاچہار جانب سے محاصرہ کرنے کی سازش کی گئی ہے اور حکومت اپنی مشنری کے ذریعہ اس کو انجام دینے اور اس کو نافذ کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ مسلمان میں خاموشی چھائی ہوئی ہے اور ان کی طرف سے کسی طرح موثر احتجاج دیکھنے کو نہیں مل رہا ہے۔ مولانا قائد اور مسٹر قائد دونوں کو سانپ سونگھ گیا ہے، بات بات بیان جاری کرنے والی تنظیمیں خاموش ہیں۔ یوپی کے علماء، ممبران اسمبلی،مسلم سیاسی لیڈران، بات بات پر دھاڑنے والے اعظم کا بھی کوئی رول نظر نہیں آرہا ہے۔ کچھ سیاسی پارٹیاں بیان دیکر اپنا فرض پورا کرنے کو کافی سمجھ رہی ہیں۔ جس طرح ویویک تیواری کے معاملے میں پورا، میڈیا، ساری سیاسی پارٹیاں، سماجی کارکن، انسانی حقوق کے علمبردار، وکلاء اور دیگر تنظیمیں کھڑی ہوگئیں اس طرح نوشاد اور مستقیم کے معاملے میں کھڑی کیوں نہیں ہورہی ہیں ۔ کیا اس لئے وہ مسلمان ہیں اور ہندوستان میں مسلمانوں کا قتل جائز ہے؟ کیا ہندوستانی پولیس ، عدالت، مقننہ، انتظامیہ سب بھگوا رنگ میں رنگ چکی ہے؟ اگر انہیں تو پھر ایس ایس پی کے خلاف کارروائی کیوں نہیں ہوئی، نوشاد مستقیم کے خاندان کے لئے ویویک تیواری کی طرح معاوضہ کا اعلان کیوں نہیں ہوا، خاطی پولیس کو برخاست کیوں نہیں کیاگیا۔ کیاں یہاں کا قانون ہندو اور مسلمان ہوگیا ہے۔پہلو خاں کے قاتلوں کے خلاف گواہی دینے والے اور ان کے بھائی پر فائرنگ ، ماب لنچنگ انجام دینے والوں کی حوصلہ افزائی اور حکومت کی طرف سے شہہ ، مسلمانوں کے ساتھ تمام شعبہائے حیات میں امتیاز اور ان کے لئے تمام ترقی کے دروازے بند کردینا وغیرہ ایسے معاملات ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان کے ہاتھ پیر باندھ دئے گئے ہیں۔ ان کے ہاتھ پیر سے زنجیر کھولنے والا کوئی نہیں ہے۔

Abid Anwar
About the Author: Abid Anwar Read More Articles by Abid Anwar: 132 Articles with 87188 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.