افغان انتخابات، امریکی انخلاء اور علاقائی استحکام

بسم اﷲ الرحمن الرحیم

جنگ زدہ اور سیاسی بحران سے متاثرہ افغانستان میں تین سال کی تاخیر کے بعد قانون ساز اسمبلی کے لیے انتخابات 20اکتوبر کو ہو رہے ہیں ۔اس سلسلہ میں انتخابی مہم کا آغاز 28ستمبر سے شروع ہو چکا ہے لیکن بدقسمتی سے اس کا آغاز اچھا نہیں ہو سکا۔افغان عوام گزشتہ کئی دہائیوں سے جنگ کی تباہیوں سے دوچار ہے ایسے موقع پر انتخابات کو امن کی جانب ایک مثبت پیش رفت کے طور پر دیکھا جا رہا تھا ۔اتفاق ہے کہ انتخابات کے ذریعے جنگ زدہ ماحول سے فوری چھٹکارا پانا ممکن نہیں لیکن افغانستان کی مختلف دیواروں پر لکھے یہ لفظ’’گولی نہیں ووٹ‘‘عوام میں ایک ایسے افغانستان کے لیے امید پیدا کررہے ہیں جہاں امن ، خوشحالی اور جمہوریت کا دور دورہ ہو ۔گزشتہ انتخابات حتمی ووٹ نہ لینے کی وجہ سے دو مراحل میں مکمل کیے گئے لیکن دونوں مراحل کے دوران افغان عوام نے بہت سے خونی مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے تھے ۔ان انتخابات کے لیے بھی ابھی انتخابی مہم کا آغاز ہوا ہی تھا کہ ننگر ہار میں انتخابی ریلی پر خود کش حملے کے دوران تیس کے قریب افراد جاں بحق اور درجنوں زخمی ہو گئے ہیں ۔اس حملے کی ذمہ داری دہشت گرد تنظیم داعش نے قبول کی ہے۔ پاکستان کی سرحد کے قریب اس علاقہ میں طالبان کے علاوہ ایسے جنگجو افراد کی بڑی تعداد موجود ہے جن کا تعلق داعش سے بتایا جاتا ہے ۔داعش کی موجودگی نے افغانستان کے حالات کو مزید سنگین کر دیا ہے ۔افغان سیکورٹی فورسز کی جانب سے امن برقرار رکھنے کی ہر کوشش ناکام نظر آتی ہے جس کی بڑی وجہ پیشہ وارانہ تربیت کافقدان ،دہشت گردی کے خلاف استعمال ہونے والے جدید آلات کی کمی کے علاوہ عالمی طاقتوں کے مفادات بھی ہیں ۔امریکی و نیٹو افواج کی موجودگی کے باوجود ایسے حملوں کا ہونا اس بات کا بین ثبوت ہے کہ یہ افواج یا تو ناکام ہو چکی ہیں یا پھر یہ ان حملوں کو روکنا نہیں چاہتیں ۔ ماضی میں ہیلری کلنٹن کی جانب سے یہ اعتراف کہ داعش کا وجود ان کا مرہون منت ہے اور سابق افغان صدر حامد کرزئی کا یہ کہنا کہ داعش کو افغانستان میں امریکی افواج کی مدد مل رہی ہے بہت سے سوالات کو جنم دے رہے ہیں۔

افغان عوام اپنے ملک میں امن ، خوشحالی اور جمہوریت کا دور دیکھنا چاہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ خونی حالات کے باوجود وہ ان انتخابات میں حصہ لینے کے لیے پرجوش اور پرامید دکھائی دیتے ہیں ۔تاہم بہت سی طاقتیں ان انتخابات کو ثبوتاز کر کے افغان عوام کی یہ امید بھی ختم کرنے کے در پہ ہیں ۔ انتخابات ایک بار پھر امریکہ و نیٹو افواج کے لیے ٹیسٹ کیس بنتا جا رہا ہے ۔امن کا قیام اور دہشت گرد قوتوں کاخاتمہ ان فورسز کی موجودگی کہ وجہ بنتا رہا ہے لیکن اگر یہ فورسز اپنے ان مقصد کے لیے ناکام ہو چکی ہو ں تو اس کا حل کیا ہے یہ ایک ایسا سوال ہے جس کی جواب تلاش کرنے کی بجائے اسے دبانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ابھی تک یہی دیکھنے میں آیا ہے کہ افغانستان میں پرامن حالات کے لیے درست سمت سفر طے کرنے میں تمام فریق ناکام رہے ہیں ۔ ان فریقین کی مثال اس برساتی نالے کی طرح کی ہے جو اپنا راستہ اس وقت تک بناتا رہتا ہے جب تک کوئی رکاوٹ نہ آ جائے اور جونہی رکاوٹ آتی ہے وہ اسے ختم کرنے کی بجائے اپنی سمت بدل لیتا ہے یہی حال افغانستان میں موجود عالمی قوتوں کا ہے۔ بہت عرصہ بعد امریکہ کو اس بات کا احساس ہوا ہے کہ افغانستان کی صورتحال میں طالبان ایک فریق ہیں جن سے راہ فرار اختیار نہیں کیا جاتا لیکن ابھی تک طالبان کے اس موقف پر دھیان نہیں دیا جا رہا جس میں وہ غیر ملکی افواج کے مکمل انخلاء کی بات کر رہے ہیں ۔سترہ سالہ افغان جنگ میں اب تک 840بلین ڈالر خرچ کرنے کے باوجود امریکہ آج اس مقام پر کھڑا ہے جہاں سے اس نے سفر کا آغاز کیا تھا ۔طالبان سے براہ راست مذاکرات کی پالیسی کے باجود امریکہ نے دیگر فریقین جن میں افغان حکومت سرفہرست ہے اعتماد میں لینے کی کوشش نہیں کی جس کی وجہ سے موجودہ حکومت اور امریکہ کے درمیان فاصلوں میں اضافہ ہو رہا ہے ۔دوسری جانب امریکہ اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں کہ وہ زمینی طور پر افغانستان کا فریق نہیں ہے بلکہ اس کے وجودکو افغان طالبان اور عوام ایک قابض کی حیثیت سے دیکھ رہے یہں ۔دوسری جانب امریکہ اپنے مفادات کے لیے اس خطے میں بھارت کو اس کے وجود سے بڑھ کر حصہ دینے کی کوششوں میں مصروف ہے جس کے نتیجہ میں پاک افغان تعلقات میں بھی مسلسل کشیدگی پیدا ہو چکی ہے ۔ پاکستان میں نئی حکومت کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی افغان دورے کے بعد ایک بار پھر دونوں ممالک میں بہتری کے تعلقات کی امید کی جا رہی ہے لیکن درحقیقت یہ سوچ بہت سطحی قسم کی ہے ۔اس اپروچ نے پہلے بھی پائیدار امن اور استحکام کو فروغ دینے میں کسی قسم کی مدد نہیں کی ۔ پاک افغان تعلقات میں کشیدگی کی بڑی وجہ بھارت کی افغانستان میں موجودگی اور پاک امریکہ تعلقات کشیدگی میں تعلقات کی بڑی وجہ افغانستان ہے ۔ کشیدگی کی یہ مثلث محض بھارت کی افغانستان میں پراکسی وار کی وجہ سے برقرار ہے ۔جنوبی ایشیا کے ساتھ ساتھ ایشیا پیسفک میں چین کے ساتھ امریکہ کشیدگی کے امریکہ کے مفادات بھارت کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ امریکہ اس موقع پر بھارت کو افغانستان میں اس کے وجود اور ضرورت سے بڑھ کر حصہ دینے کئی کوششوں میں ہے۔اس خطے میں روس چین اور ایران بھارت کی نسبت ذیادہ اہم فریق ہیں جن کو امریکہ جان بوجھ کر نظر انداز کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے ۔روس اور چین خطے میں معاشی استحکام کے لیے کوشاں ہیں جس کی وجہ سے دونوں ممالک نے مشترکہ طور پر طالبان سے مذاکرات کی کوشش کی ہے تاکہ علاقے میں پائیدار امن کے لیے راہ ہموار ہو سکے لیکن دوسری جانب امریکہ روس کی ان کوششوں کو سراہنے کی بجائے الزامات لگا رہا ہے ۔ گزشتہ ماہ امریکی جنرل نکلسن نے روس پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ ان کی امن کوششوں کو ثبوتاز کرنے کے لیے اتحادیوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کر رہا ہے۔

مختلف فریقین کے درمیان اس کشیدگی کا سب سے بڑا نقصان افغان عوام کو ہو رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے کوارڈینیشن دفتر برائے انسانی معاملات UNOCHA کی طرف سے گزشتہ ماہ جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق رواں برس یکم جنوری سے دو ستمبر تک کُل دو لاکھ چھ ہزار افغان شہری اپنے گھر بار چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ یہ تعداد ایک ماہ قبل سامنے آنے والے اعداد وشمار کے مقابلے میں چوالیس ہزار زائد ہے جاری کردہ رپورٹ میں بتائی گئی تعداد میں وہ تیس ہزار افغان شہری بھی شامل ہیں جو صوبہ غزنی میں اگست کے وسط میں ہونے والی لڑائی کی وجہ سے عارضی طور پر بے گھر ہوئے تھے۔ افغانستان میں جاری تنازعات کے سبب گزشتہ برس 445,000 سے زائد افراد بے گھر ہوئے تھے۔اس موقع پر افغان حکومت کی جانب سے پاکستان کے رہنما مولانا سمیع الحق کو طالبان سے مذاکرات کے لیے درخواست کرنا ایک اور مثبت قدم ہے تاہم افغان حکومت کے ساتھ ساتھ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ علاقائی استحکام کے لیے امریکی و دیگر غیر ملکی طاقتوں کا افغانستان سے انخلابہت ضروری ہے ان کی موجودگی میں امن کی تمام کوششیں کسی بھی موقع پر رائگاں جا سکتی ہیں۔

Asif Khurshid
About the Author: Asif Khurshid Read More Articles by Asif Khurshid: 97 Articles with 64633 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.