جنگل کے الیکشن میں شیر اور بندر کے مابین مقابلہ
تھا ۔ حسن اتفاق سے بندر الیکشن جیت گیا اور شیر کو شکست ہوئی ۔ ایک دن ہرن
بندر کی عدالت میں پیش ہوااور کہا شیر میرے بچے کھا گیا ‘مجھے انصاف چاہیئے
۔ بندر نے ہرن کی بات سنی اور اوچھل کود شروع کردی کبھی درخت کی ایک شاخ
پرتو کبھی دوسری شاخ پر۔ ہرن کچھ دیرانتظار کرتا رہا پھر بولا میں آپ کے
پاس انصاف کے لیے آیا ہوں ۔ بند ر نے کہا اے بیوقوف ‘ بچوں کو بھول جا ‘بس
میری آنیاں جانیاں دیکھ۔ کچھ یہی عالم اس وقت نئے پاکستان کا ہے ‘ عمران
خان نے جلسو ں اور دھرنوں میں جو دعوی اور وعدے کیے ۔ اقتدار سنبھالے پچاس
دن ہوچکے۔ روزانہ اجلاس منعقد ہورہے ہیں ۔ نئی سے نئی ٹاسک فورس اور
کمیٹیاں بن رہی ہیں ابھی تک کسی ٹاسک فورس نے گورنرہاؤسز کھولنے ‘ گاڑیاں
اور بھینسیں فروخت کرنے کے سواکچھ نہیں کیا ۔ تمام کے تمام دعوے اور وعدے
ابھی تک تشنہ چلے آرہے ہیں۔ کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ عمران خان اپنے ہی
وعدوں کے بوجھ تلے دب کر رہ گئے ہیں ۔خان صاحب نے کہا تھا مجھے اقتدار مل
جائے تو میں شیر اور بکری کو ایک گھاٹ پر پانی پینے پر مجبور کردوں گا۔ پی
ٹی آئی کے ایم این اے کھلے عام قبضہ گروپوں اور غنڈہ عناصر کی سرپرستی
کررہے ہیں ۔ ڈیرہ غازی خان ‘ چکوال کے ڈپٹی کمشنرزکی تحریک انصاف کے ایم
این اے کی حکم عدولی کی پاداش میں جواب طلبی ہوچکی ہے ۔ پاکپتن کے ڈی پی او
کی ٹرانسفر اورخاور مانیکا سے معافی مانگنے کے واقعات کا تذکرہ تو سپریم
کورٹ تک بھی پہنچ چکا ۔ جس میں پولیس پر سیاسی دباؤ ڈالنے کا اظہار
ہوتاہے۔چند دن پہلے چیف جسٹس ثاقب نثارنے لاہور رجسٹری میں پی ٹی آئی کے
ایم این اے کو قبضہ گروپوں کی سرپرستی کرنے پر سپریم کورٹ میں طلب کیا تو
کرامت کھوکھر نے کہا میں منشا بم نامی شخص کو نہیں جانتا۔جبکہ ڈی آئی جی کو
منشا بم کے بیٹوں کی رہائی کے لیے فون انہوں نے ہی کیا تھا ۔ چیف جسٹس نے
کہا آپ عدالت کے سامنے جھوٹ بول رہے ہیں آپ تو صادق امین ہی نہیں رہے کیوں
نہ آپ کو ڈس کوالیفائی کردیا جائے۔ کیااس طرح نیا پاکستان بنے گا ۔کیا عوام
نے آپ کو اس غنڈہ گردی کرنے کے لیے ووٹ دیئے ہیں ۔ اس طرح " دو نہیں ایک
پاکستان کا وعدہ " اپنے انجام کو پہنچا ۔ عمران خان نے اپنی پہلی تقریر میں
کہا تھا بچوں کے ساتھ زیادتی کرنے والوں کو عبرت کانشان بنایا جائے گا ۔
بچوں سے زیادتی اور قتل کرنے کے واقعات روزانہ ہورہے ہیں کوئی پوچھنے والا
نہیں ۔دوسرے ملکوں میں قیدپاکستانیوں کی رہائی کا وعدہ بھی عملی روپ نہیں
دھار سکا ۔ سرکاری اور پرائیویٹ سکولوں کی فیسوں اور نصاب کا فرق بھی اپنی
جگہ موجود ہے ۔ہسپتالوں میں آج بھی لوگ دھکے کھاتے ہیں ۔ عمران خان کا وہ
وعدہ بھی ابھی تک تشنہ ہے کہ ہر پاکستانی شہری کو ساڑھے پانچ لاکھ روپے
مالیت کا صحت کارڈ دیاجائے گا تاکہ وہ اپنی مرضی کے ہسپتالوں میں علاج کروا
سکے ۔ پچاس دنوں میں تھر میں مرنے والے کا حساب بھی عمران کو ہی دینا پڑے
گا انہوں نے ان بچوں کی جان بچانے کے لیے کیوں اقدامات نہیں کیے۔سادگی کے
نام پر مرکز اور پنجاب میں وزیر وں اور مشیروں کی فوج اکٹھی کرلی گئی ہے ان
میں سے کوئی ایک بھی وزارت کے لائق نہیں ۔ حالانکہ وزیراعظم خود غیر قانونی
گھر میں رہائش پذیر ہیں وہ دوسروں کو قانون پر عمل کرنے کی کیا تلقین کریں
گے۔ سب سے بڑی زیادتی پنجاب کے ساتھ ہوئی ہے جہاں ایک ایسے شخص کو وزیر
اعلی کے منصب پر بٹھادیاگیا جس میں نہ صرف صرف قوت فیصلہ کی شدید کمی ہے
بلکہ ان کی سوچ کا محور بھی تونسہ شریف تک محدود ہے ۔ انہوں نے خود بتایا
تھا کہ ان کے علاقے کے لوگوں نے ہیلی کاپٹر بھی اس وقت دیکھا جب پرویز الہی
ان کے علاقے میں دورے پر گئے ۔تکلیف دہ بات تو یہ ہے وہ صرف جنوبی پنجاب کے
تین اضلاع پر ہی فوکس کیے ہوئے ہیں جیسے وہ جنوبی پنجاب کے ہی وزیر اعلی
ہوں ۔ اگر شہباز شریف نے لاہور شہر کی شکل نہ سنواری ہوتی تو لاہور شہر بھی
ڈیرہ غازی خان سے بھی بدتر حالت میں ہوتا۔ لاہور وہ شہر ہے جس نے پورے
پاکستان کے لوگوں کو اپنے دل میں بسا رکھا ہے ۔اس شہر کو مزید خوبصورت
بنانے اور ترقی دینے کے لیے نئے پاکستان میں کوئی گنجائش نظر نہیں آتی۔
فواد چوھدری جو اہم ترین وزارت پر فائز تو ہوچکے ‘ انہیں اپنی زبان پر
کنٹرول نہیں ۔ عمران خان کی حکومت اگر وقت سے پہلے ختم ہوئی تو اس کی تمام
تر ذمہ داری فواد چوھدری پر ہوگی ۔ اگر انہیں رانا ثنا اﷲ کی فوٹوکاپی کہا
جائے تو غلط نہ ہوگا ۔وہ بات نہیں کرتے زہر اگلتے ہیں۔رانا مشہودنے ایک
انٹرویو میں دو ماہ بعد مسلم لیگی حکومت بننے کی پیشین گوئی کی اس پر فواد
چوہدری کا تبصرہ ملاحظہ ہو ۔"ذات دی کوڑ کرلی چھتیروں نوں جپھے"۔کیا ایسے
الفاظ کو کسی مہذب شخص کے ہوسکتے ہیں ۔ عمران خان نے اپنے جلسوں میں عوام
کو گیس ‘ بجلی ‘ پٹرول اور اشیائے خورد نوش کی قیمتوں میں ریلیف دینے کا
وعدہ کرتے رہے ۔ جب اقتدار ملا تو ریلیف کی بجائے تکلیف دینا شروع کردی ۔
صرف 50 دنوں میں آٹے ‘ چینی ‘گوشت ‘ دود ھ ‘ چاول ‘ سبزیوں ‘پھلوں سمیت
انسانی استعمال کی ہر چیز کی قیمتوں میں 15 فیصد اضافہ ہوچکا ہے جس کی وجہ
سے مہنگائی کاسونامی ہر گھر میں تباہی مچارہا ہے ۔ تنخواہیں وہی جبکہ
اخراجات آسمان کو پہنچ چکے ‘وہ ایک کروڑ نوکریوں اور سرکاری سکولوں میں ڈبل
شفٹ کے وعدے کہاں گئے ۔خزانہ خالی کا رونا تو ہر نیا حکمران روتا چلا آیا
ہے ۔کیاعمران خان کو پہلے علم نہیں تھا کہ خزانہ خالی اور بین الاقوامی
قرضے انتہاء کو پہنچ چکے ہیں ۔بجلی کا سرکلر ڈیٹ گیارہ سو ارب ہوچکا ہے ۔
ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا والی بات ہے۔ عوام کے لیے خالی وعدوں کی کوئی اہمیت
نہیں وہ پیٹ بھرکر روٹی ‘ سستا علاج ‘ باعزت روزگار اور معیاری تعلیم چاہتے
ہیں جو ابھی تک انہیں فراہم نہیں کی جا سکی بلکہ بجلی ‘ گیس سمیت نئے ٹیکس
نافذکرکے غریبوں کے منہ سے نوالہ بھی چھین جارہا ہے۔ نئے پاکستان کو بنے
پچاس دن ہوچکے ‘کوئی شخص رشوت کے بغیر بجلی کا میٹر ‘ جائیداد کی رجسٹری ‘
گیس کا کنکشن ‘ ڈرائیونگ لائسنس بنا کے دکھائے ۔آج بھی پبلک ڈیلنگ کے تمام
دفاتر میں عوام ذلیل و خوار ہورہے ہیں ۔بہتری پیدا ہونے کی بجائے حالات دن
بدن خراب ہورہے ہیں ۔ مجھے کہنے دیجیئے کہ عمران خان کے پاس نہ تواپنے وعدے
پورے کرنے کا وژن ہے اور نہ ہی اچھی ٹیم ۔ہر وزیر اور مشیر روزانہ عوام کو
کوئی نیا خواب دکھاتے ہیں ۔عوام بندر کی اچھل کود اور دوڑ بھاگ کی طرح ان
کی آنیاں جانیاں دیکھ رہے ہیں ۔تحریک انصاف کی حکومت میں دور دور تک انصاف
دکھائی نہیں دیتا ۔آخر میں یہ بات کہوں گاکہ باتوں سے ہوائی قلعے تو تعمیر
ہوسکتے ہیں چاند پر کمندنہیں ڈالی جاسکتی ۔ نئے پاکستان کا چاند کچھ دھندلا
سا ہوتا جارہا ہے ۔جو لوگ عمران خان کی وکالت کرتے نہیں تھکتے تھے اب وہ
بھی تنقیدکرنے لگے ہیں ۔ |