احمد انکل کے بچوں کا کیا ہوا؟

اس کثیر منزلہ رہائشی عمارت کے مرکزی دروازے سے باہر آتے ہی وہ پانچ چھے سالہ بچہ اپنا سر اٹھا کر عمارت کی بالائی منزل کی طرف دیکھنے لگا اور اس کی توقع کے عین مطابق اس عمارت کی آخری منزل پر موجود گھر کی بالکنی سے چار بچے، جن میں تین لڑکے اور ایک لڑکی شامل تھی، نیچے گلی کی جانب جھانک رہے تھے۔ ا ُس کی آنکھیں اُن بچوں کی آنکھوں سے چار ہوئیں۔حالانکہ انکے درمیان فاصلہ کافی تھا لیکن پھر بھی وہ بچہ ، اوپر بالکنی سے جھانکتے بچوں کی آنکھوں سے ٹپکتی ویرانی، یاسیت اوراداسی کی تاب نہ لا سکا اور اس نے نظریں ان سے چراتے ہوئے اپنا سر جھکا لیااور زرا تیز تیز چلتا ہوا اپنے ابو کے نزدیک جا پہنچا جو اپنی سرخ رنگ کی ہنڈا ففٹی موٹر سائیکل کو پے ردپے ککیں مارکر اسٹارٹ کرنے کی کوشیش کررہے تھے او رپھر تھوڑی سی کوشیش کے بعد موٹر سائیکل کا انجن پھٹ پھٹ پھٹ پھٹ کرتا جاگ پڑا۔ بچہ فوراً ہی موٹر سائیکل کے ہینڈل اور سیٹ کے درمیان لگی سرخ رنگ والی ٹوکری میں جا بیٹھا جبکہ اسکے ابو کے پیچھے اسکی امی، جنھوں نے اپنی گود میں اسکے چھوٹے بھائی کو لیا ہوا تھا، سوار ہوگئیں اور اسکے ساتھ ہی موٹر سائیکل چل پڑی۔

سارے راستے اس بچے کی نگاہوں میں عمارت سے جھانکتے بچوں کے اداس چہرے گھومتے رہے اور وہ بالکل خاموشی کے ساتھ چلتی ہوئی موٹر سائیکل کی ٹوکری میں بیٹھا بظاہر اردگرد دوسری گاڑیوں کوتیزی کے ساتھ گزرتے ہوئے دیکھ رہا تھا لیکن اسکی آنکھیں تو بس محض خلاوں میں گھور رہی تھیں اور اسکے دل و دماغ پر تو جیسے ان بچوں کی نگاہوں میں بسی ہوئی ویرانی اور ٹپکتی ہوئی یاسیت ہی چھائی ہوئی تھی اورذہن میں رہ رہ کر ایک ہی سوال ابھرتا تھا کہ:

"اب احمد انکل کے بچوں کا کیا ہوگا؟ ا ب کون ان کے اسکول کی فیس ادا کریگا؟، کون انکو کتابیں، یونیفارم، کپڑے اور جیب خرچ دیا کریگا؟

اسکا ننھا سا ذہن ان تمام سوالات کے جوابات دینے سے قطاً قاصر تھا اور جیسے جیسے یہ سوالات یکے بعد دیگرے اس کے زہن میں آتے چلے جارہے تھے ویسے ویسے اس کے دل پر ایک عجیب سی اداسی چھاتی چلی جارہی تھی اور ایک ہلکے سے نامعلوم خوف کے سبب اسکا ننھا سا دل قدرے تیز تیز ڈھڑکنا شروع ہوگیا تھا۔ اس نے سر گھما کر اپنے ابو کی طرف دیکھا جو کے اس کی اندرونی کیفیات سے یکسر بے خبر، مکمل یکسوئی کے ساتھ سڑک کی جانب دیکھتے ہوئے، موٹر سائیکل چلانے میں مصروف تھے۔ ابو کا چہرہ دیکھ کر نہ جانے کیوں اس نے خود کو بے حدپرسکون سا محسوس کیا اوراپنی پیٹھ اور سرکو ابو سے مس کردیا اور ایسا کرکے اسے ایسا محسوس ہوا کے جیسے اب وہ بالکل محفوظ ہے۔

گھر پہنچ کر بھی وہ بس خاموش خاموش سا ایک کونے میں جا بیٹھا اور مسلسل ان بچوں کے مطالق ہی سوچتا رہا۔ اس روزگھر کا سارا ماحول بھی کچھ سوگوار سوگوار سا ہورہا تھا۔ ابو اور امی کے چہروں تک سے اداسی جھلک رہی تھی۔

کچھ دیر بعد اسکے ابو ایک تصویروں سے بھرا البم کھول کر بیٹھ گئے اور ایک کے بعد ایک صفحے کو پلٹتے جاتے اور اسمیں لگیں تصاویر دیکھتے ہوئے ان سے مطالق تفصیل اسکی امی کو بتاتے جاتے۔ پھر ایک مقام پر آکر تو انکا لہجہ بے حد قدرے جذباتی اور آواز بھاری سی ہوگئی:

"ارے دیکھنا زرا یہ احمد کی شادی کے موقعہ کی تصویر ہے، جسمیں احمد کا شہ بالا میں بنا تھا۔"

وہ بچہ بے اختیار اپنی جگہ سے اٹھا اوراپنے ابو کے پاس جا بیٹھا اور خود بھی ان تصاویر کوبڑے غور سے دیکھنے لگا۔ ایک تصویر میں احمد انکل دلہا بنے ہوئے تھے اور انکا نکاح پڑھایا جارہا تھااور انکے بالکل ساتھ میں اسکے ابو بھی بیٹھے ہوئے تھے، اگلی تصویر میں احمد انکل نکاح نامے پر دستخط کررہے تھے اور برابر بیٹھے اسکے ابو انہیں دستخط کرتا دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔

"تمھیں یاد ہے نا کے ہم ان دنوں عیدگاہ میدان کے علاقے میں سول ہسپتال کے عقب میں موجود راجہ منیشن میں رہا کرتے تھے۔"

ابو نے امی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔

"ہاں بس احمد بھائی کو اللہ نے بہت جلد ہی اپنے پاس بلالیا، حالانکہ ان کی تو شادی بھی ہمارے بعد ہوئی تھی۔" امی نے انتہائی تاسف زدہ لہجہ میں ابو کو جواب دیتے ہوئے کہا۔ "اور آج جب ہم انکے گھر گئے تھے تو مجھ سے تو انکی بیوی اور بچوں کی اداس صورتیں دیکھیں نہیں جارہی تھں"

پھراسکے ابو نے البم کا صفحہ پلٹ دیا۔ اب اس صفحے میں لگیں تصاویر میں اسکے ابو امی ا اور احمد انکل اور انکی بیگم سب ایک بڑی لانچ میں سوار ہیں اور لانچ سمندر کا سینہ چیرتی چلی جارہی ہے، سب کے چہروں سے مسکراہٹیں اور خوشیاں جھلک رہیں ہیں۔ وہ سب ایک دوسرے کو ہنستے مسکراتے ہوئے دیکھ رہے ہیں اور انکے دمکتے چہروں سے عیاں تھا کے وہ سب خوُب لطف اندوز ہورہے ہیں۔ ان تصاویر کو دیکھ کر اس کے ابو کے چہرے پر ایک غمگین سی مسکراہٹ پھیل گئی اور وہ امی کی طرف دیکھ کر گویا ہوئے:

"یاد ہے نا تم کو، احمد کی شادی کے کچھ ہی دنوں کے بعد ایک روز وہ صبح صبح اپنی بیوی کو لیکر ہمارے گھر آیا تھا اور پھر ہم سب لوگ کیماڑی سے لانچ میں سوار ہوکر منوڑا سیرکرنے کیلئے گئے تھے۔

وہ بچہ یہ بات سمجھنے سے قاصر تھا کے ان تصاویر میں موجود افراد جو اس قدر خوش وخرم نظر آ رہے ہیں اور اب اچانک احمد انکل کیسے باقی سب لوگوں کو حیران و پریشان چھوڑ کر اللہ میاں کے پاس چلے گئے اور جسطرح سے اس کے اپنے ابو سارے گھر کی زمہ داری سبھالے ہوئے تھے اور انکے ہوتے ہوئے اسے کبھی کسی بات کی کوئی فکر لاحق نہ ہوئی تھی، ہاں البتہ کبھی کھبار جب اس کے ابو دفتر سے رات بہت دیر گئے واپس آتے تو ان کے آنے سے قبل اسکے ننھے سے دل و دماغ میں طرح طرح کے اندیشیے اور وسوسے کلبلانے لگتے کے اگر خدا نہ خواستہ ابو کو کچھ ہوگیا اور اگر اللہ نہ کرے کے وہ گھر واپس نہ ہی آئیں تو پھراسکا، اسکے چھوٹے بھائی اور اسکی امی کا کیا ہوگا؟ کون اسکول کی فیس ادا کریگا؟، کون انکو کتابیں، یونیفارم، کپڑے خرید کر دے گا، کون جیب خرچ دیا کریگا اور وہ سب لوگ کھانا کیسے کھائیں گے؟

اوراب احمد انکل کے جانے کے بعد ان کے بچوں کی یہ تمام زمہ داریاں بھلا کون اٹھائے گا؟

جسطرح سے ہر چھٹی والے دن اس کے ابو اسے اپنی موٹر سائیکل میں سوار کروا کر تو کبھی پیدل ہی ٹاور، بولٹن مارکیٹ اور ریگل صدر پر زمین پر لگنے والے پرانی کتابوں کے پتھاروں پر اکڑوں بیٹھ کر پرانی کتابوں کو گھنگالتے تو وہ بھی ان ہی کی طرح سے ان کے برابر اکڑوں بیٹھ جاتا اور ان نا سمجھ میں آنے والی موٹی موٹی کتابوں کو اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں میں بمشکل تھام کر ان کے صفحے پلٹتا تو اسے اپنے دل میں بڑی ہی طمانیت سی محسوس ہوتی تھی اور وہ خود کو دل ہی دل ا ن کتابوں کو پڑھے بنا ہی اپنے ابو کی طرح سے کوئی بڑا ہی قابل اور عالم و فاضل قسم کا انسان محسوس کرتا لیکن اب احمد انکل کے بچے بھلا کیسے اس عظیم احساس سے بہرہ مند ہوسکیں گے؟

جسطرح سے وہ اپنے ابو کے ہمراہ کھارادر میں قائد۱عظمؒ کی جائے پیدائش وزیر منیشن کی نچلی منزل میں قائم لائبریری تو کبھی بند روڈ پر خالقدینا ہال لائبریری، رنچھوڑلین میں قائم صدیق بابا کی ہلال لائبریری اور کبھی کلفٹن بریج شروع ہونے سے کچھ ہی پہلے قائم فرئیر ہال کی پرُشکوہ عمارت میں موجود لائبریری میں اپنے ابو کے ہمراہ جا کر ان لائبریریوں کی فضاوں میں پھیلی ہوئی کتابوں کی مخصوص خوشبو کو اپنے دل و دماغ میں رچا بس اکر آنے والے کئی دنوں تک انہیں محسوس کرتا رہتا اور پھر اپنے دل میں دوبارہ وہاں جا کراپنے اُسی احساس کی تجدیدِنو کرنے کی دل ہی دل میں سعی کرتا رہتا، لیکن اب احمد انکل کے بچے بھلا کیسے ان کتابوں کی پیاری پیاری خوشبووں کو اپنے دل و دماغ میں مقید کرسکیں گے اور کون ان کو ان لائبریریوں میں لے جایا کرے گا؟

اکثر رات کو کھانے کے بعد گھر سے کچھ ہی فاصلے پر موجود جبیب بنک پلازہ کے عین سامنے والے مکمل تاریکی میں ڈوبے انگریروں کے دُور کے بنے ہوئے پل پر کھڑے ہو کر وہاں سے نظر آنے والے تھوڑی ہی فاصلے پر موجود سٹی ریلوے اسٹیشن کی روشنیاں اور طویل سفر پر روانہ ہونے سے قبل گاڑیوں کے انجن جب شنٹنگ کرتے رات کے سنا ٹے اور تاریکی میں پل کے نیچے سے زور زور سے سیٹیاں بجاتے ہوئے گزرتے تو اپنا سیاہ دھواں اڑاتے ہوئے وہ انجن اپنے پیچھے ڈیزل اور موبائل آئل کی ملی جلی بو سے فضاءکو آلودہ کرجاتے لیکن اب احمد انکل کے بچے اس اندھیرے پل پر دور سے نظر آتیں سٹی اسٹیشن کی روشنیوں اور ان شنٹنگ کرتے ریلوے انجنوں اور اپنے پیچھے چھوڑ جانے والے دھویں اور اس میں سے آتی ڈیزل اور موبائل آئل کی ملی جلی بو سے کیسے آشنا ہوسکیں گے؟

جسطرح وہ اکژ اپنے ابو کے ہمراہ انکے دفتر جایا کرتا اور وہاں نصب خودکار ٹیلی پرنٹر اذخود چلتے ہوئے اور کاغذ پر زور زور سے کھٹ کھٹ کھٹ کرکے انگریزی میں نہ معلوم کیا کچھ لکھتا پھر لکھے ہوئے کاغذ اس بڑی سی مشین سے خود بخود باہر آتے اور پھر ہر تھوڑی دیر بعد دفتر کا کوئی کارندہ آکر ان کاغذات کو اس ٹیلی پرنٹر سے کاٹ کر لے جاتا اور وہ دیر تک خاموش کھڑا یہ سب کچھ دیکھتا رہتا۔ پھر جب وہ یہ سب دیکھ دیکھ کر تھک جاتا تو پھر اپنے ابو کی میز پر رکھے سیاہ رنگت والے فون کے بھاری بھرکم چوگے کو بمشکل اٹھا کراپنے چہرے پر، جو کے اس چوگے کے تناسب سے کہیں زیادہ چھوٹا تھا، کو اگر اپنے کان پر لگاتا تو کبھی اسکا منہّ اس کی پہنچ سے بہت ہی دوُر رہتا اور جو اگر اسے اپنے منہّ کے قریب لانے کی کو شیش کرتا تو اسکا اسپیکر اسکے کان سے کہیں اوپر ہوا ہی میں مہلک رہتا۔ بجرطور جوُں توُں کر کے وہ فون کے چوگے کو اپنے چہرے پر رکھ کر اپنی ننھی منی انگلیوں سے فون کے ڈائل پر بس اندھا دھند نمبر گھماتا رہتا اور فون اکثر کسی نامعلوم مقام پر جا لگتا اور پھر دوسری جانب سے آنے والی بھاری بھرکم سی آواز کو سن کر وہ ہمیشہ کی طرح سے گھبرا کر چوگے کو واپس فون کے کریڈل پر رکھ دیتا لیکن یہ سب کر کے وہ خود کو اس اخباری دفتر جہاں اسکے ابو کام کرتے تھے، کا کوئی اعلیٰ کارکن تصور کرنے لگتا اور یہ احساس اسے بے حد اعتماد بخشتا تھا، لیکن اب احمد انکل کے چلے جانے کے بعد بھلا وہ اعتماد انکے بچوں کو کیسے میسر آ سکے گا؟
نچلے متوسط طبقے کا یہ گھرانہ دھیرے دھیرے اپنے معمولاتِ زندگی میں مشغول ہوتا چلاگیااور وقت کا پہیہ اپنی غیر محسوس رفتار سے چلتا رہا۔

اس واقعہ کو لگ بھگ دس برس کا عرصہ بیت گیا اوراب وہ بچہ ایک سولہ برس کے نوجوان کا روپ دھار چکا ہے اور کورنگی انڈسڑیل ایریا میں واقع نیشنل آئل ریفائنری کے عقبی علاقے چمڑہ منڈی میں قائم ایک لیدر فیکڑی سے باہر نکل رہا ہے اور اس نے اپنے ہاتھ میں تھامی ہوئیں کتابوں کو یکجا کرکے انہیں اپنے ہاتھوں میں اسرِنو مصبوطی سے پکڑلیا اور پھر ایک دم سے دوڑ لگا دی۔

یہ اسکا روزانہ کا معمول تھا۔ وہ اس لیدر فیکڑی کے اندر قائم دفتر میں بطور آفس اسسٹنٹ کے کام کرتا تھا اور شام پانچ بجے جب اسکی چھٹی ہوتی تھی تو وہ اپنی فرسٹ ائیر کی کتابوں کو بغل میں داب کر فوراً وہاں سے چمڑہ چورنگی کے بس اسٹاپ جو کم ازکم ایک میل کے فاصلے پر تھا، پہنچنے کیلئے روڑ تا کیونکہ اسے شام چھے بجے تک ناظم آباد، انکوائیری آفس کے بس اسٹاپ پر موجود گورنمینٹ پریمئیر ایونیگ کالج پہنچنا ہوتا تھا اور چمڑہ چورنگی سے ملنے والی بس صرف صدر ایمپریس مارکیٹ تک ہی چھوڑتی تھی اور پھر وہاں سے اسے دوسری بس پر سوار ہوکر کالج پہچنا ہوتا تھا ، لہذا آفس سے چھٹی ہوتے ہی وہ بس اسٹاپ تک کا سارا راستا بھاگ کر طے کرتا اور کم و بیش روزانہ ہی جب وہ اپنے آفس سے نکل کر بس اسٹاپ تک پہنچنے کیلئے سڑک کے کنارے بھاگ رہا ہوتا تھا تو اسے احمد انکل کے بچے صرور یاد آتے کے آخر احمد انکل کے بچوں کا کیا ہوا ہوگا؟ ان کے تو ابو بہت پہلے ہی فوت ہوگئے تھے، ضرور بیچارے سخت مشکلات کا شکار ہوگئے ہونگے اور ذندگی کی اس مشکل دوڑ میں بےچارے بہت پیچھے رہگئے ہونگے اور بھاگتے بھاگتے بھی اس کے ذہن میں یہ خیال آتا کے اللہ کا شکر ہے کے اس کے ابو زندہ ہیں کے جن کے ہوتے ہوئے اس نے نہ صرف میڑک تک تعلیم بھی حاصل کرلی ہے بلکہ انہوں نے اپنے ایک واقف کار جنھیں اپنی شہر سے دور فیکڑی میں قائم دفتر کیلئے ایک اسے آفس اسسٹنٹ کی صرورت تھی جو کے ٹائپینگ کے علاوہ دیگر دفتری امور میں انکا ہاتھ بٹا سکے، کے پاس بھجواکر نوکری بھی دلوادی اور اب وہ نہ صرف وہ نوکری کر رہا تھا بلکہ ساتھ ہی ساتھ شام کے کالج میں فرسٹ ائیر کامرس کی کلاسیں بھی باقاعدگی کے ساتھ لے رہا تھا۔ ہاں البتہ اتنا ضر ور تھا کے چونکہ اس کے آفس اور کالج کے درمیان کافی فاصلہ تھا لہذا اسے ہر روز وقت پر کالج پہنچنےکیلیئے بس اسٹاپ تک دوڑ لگا کر جانا پڑتا اور صرف اتنا ہی نہیں بلکہ عموماً بس اسٹاپ سے صدر جانے والی بس کے پائیدانوں پر سفر کرنا پڑتا تھا کیونکہ وہ وقت ہی ایسا ہوا کرتا تھا کے اس سارے انڈسڑیل ایریا میں قائم دفاتر اور کارخانوں میں کام کرنے والوں کی چھٹی اسی وقت ہوا کرتی تھی تو ایسے میں اگر کسی کو صدر جانے والی بس کے پائیدانوں پر اپنے دونوں اور اکژ اوقات تو محض ایک ہی پاوں جمانے بھر ہی کو جگہ میسر آ جائے تو اسے بھی خوش نصیبی ہی سے تعبیر کیا جانا چاہیے اور پھر جب وہ بس صدر ایمپریس مارکیٹ، بس اسٹاپ پر پہنچتی تو وہ فوراً بس سے اترتا اور دوبارہ بھاگ کر ناظم آباد، انکوائیری آفس جانے والی وہ بس پکڑتا جو کے بسوں کی قطار میں سب سے آگے کھڑی ہوتی، کیونکہ آگے والی بس پہلے نکلتی اور وہ اس طرح سے جلد از جلد اپنے کالج پہنچ سکتا تھا مگر اب یہ اور بات ہے کہ اسقدر بھاگ دوڑ کے باوجور بھی کالج پہنچتے پہنچتے اسکا پہلا پیریڈ ہمیشہ ضایع ہی ہو جایا کرتا تھا لیکن چونکہ پہلا پیریڈ اردو کا ہوا کرتا تھااور انتہائی چھوٹی عمر سے ہی ابنِ صفی (مرحوم) کے جاسوسی ناول پڑھ پڑھ کر اسکی اردو کافی اچھی ہوگئی تھی وہ اردو کے مضمون میں ہمیشہ سے ہی اچھا رہا تھا، لہذا اس سے اسے کوئی خاص فرق نہ پڑتا تھا۔

اس نے اکژ سوچا کے وہ کسی روز فرصت میں اپنے ابو سے احمد انکل کے بچوں کے بارے میں ضرور سوال کریگا لیکن اپنی ہفتے میں چھے روزہ جاب، پانچ روزہ تعلیمی مصروفیات اور اسکے بعد جسقدر وقت بچ رہتا تھا وہ کتابیں پڑھنے اور لکھنے لکھانے میں مشغول رہتا اور اسکے ابو سے اسکی مختلیف موصوعات پر اکژ بھرپور گفتگو بھی ہوتی اور اکثر دورانِ گفتگو اسے احمد انکل یاد بھی آتے لیکن نہ جانے کیوں وہ چاہنے کے باوجود بھی کبھی ابو سے ان کے بارے میں کوئی سوال نہ کرسکا اور نہ ہی کبھی ابو ہی نے ان کے بارے میں کچھ تذکرہ کیا۔

انہی مصروفیات میں شب و روز گزرتے چلے گئے اور پھر ایک روز اپنے دفتر میں اسنے اخبار میں چھپے انڑمیڈیٹ کے نتائج میں اپنا رول نمبر فرسٹ ڈویژن کے کالم میں پایا اور اپنے ساتھی کارکنوں کی مبارکباد وصول کرتے ہوئے جہاں اسنے اللہ کا شکر ادا کیا اور خود اپنی پیٹھ آپ ٹھوک کر خود کو اپنی شب و روز کی محنت اور بھاگ دوڑ کا اتنا اچھا پھل پانے پرمبارک باد پیش کی وہیں یک لخت وہی دیرینہ سوال ذہن کے کسی نہاں خانے سے پھر ابھر کر گونجنے لگا:

"احمد انکل کے بچوں کا بھلا کیا ہوا ہوگا

ایک بار پھر وہ اپنی زندگی کے اگلے مراحل کی تکمیل میں جت گیا، وقت اپنی خاموش مگر نپی تلی رفتار سے گزرتا رہا، کچھ اور برس بیت گئے اب وہ گریجویشن کرچکا ہے اور پھر اسکی شادی بھی ہوگئی اور پھر شادی کے کچھ عرصے کے بعد اللہ نے اسے ایک عدد انتہائی پیاری سی بیٹی کا باپ بنا دیا اور پھر چندبرسوں میں وہ اپنے اور اپنے اہلِ خانہ کے اعلیٰ مستقبل کیلئیے امریکا چلاگیا اور پھر اسنے کچھ ہی عرصے کے بعد اپنے بیوی بچوں کو بھی اپنے پاس امریکا بلوالیا۔

یہ 2005 کی بات ہے، اب احمد انکل کو اس جہانِ فانی سے کوچ کئے کم وبیش تیس سالوں کا طویل عرصہ بیت چکا ہے او ر اللہ کے حکم سے خود اس کے اپنے ابو بھی ایک برس قبل اللہ کو پیارے ہوچکے ہیں جبکہ بفصلِ خدا وہ ایک پیاری سی بیٹی کے ساتھ ایک پیارے سے بیٹے کا باپ بھی بن چکا تھا۔لیکن آج بھی اکثر اس کے زہن میںوہ ہی تیس برسوں پرانا سوال گونجتا ہے:

"آخر احمد انکل کے بچوں کا بھلا کیا ہوا ہوگا?"

اب وہ امریکی ریاست فلوریڈا کے ایک چھوٹے مگر انتہائی مقبول سیاحتی و ساحلی قصبے ڈےٹونا بیچ میں اپنے جاب کے سلسلے میں اپنے اہلِ خانہ کے ہمراہ مقیم ہے ۔ وہاں سے ہر اتوار کے اتوار وہ اپنے بیوی بچوں سمیت قریباً 70 میل دور اورلینڈو شہر ڈرائیو کرکے جاتا۔

ایک اتوار کی شام حسبِ معمول وہ سب اورلینڈو جانے کیلئے نکلے لیکن اسے یہ نہ معلوم تھا کے آج کا سفر اس کے پچھلے تمام سفروں سے بالکل مختلیف تھا کیونکہ آج کا یہ سفر اسے اس کے اس دیرینہ سوال کے جواب کی طرف لے کرجارہا تھا جو اسکے زہن میں گذشتہ تیس سالوں سے جواب طلب تھا، جسکے ملنے کی امید اب ویسے بھی ابو کے انتقال کے بعد اسکے دل میں بالکل باقی نہ رہی تھی۔

مقامِ مطلوبہ پر پہنچ کر اور پھر وہاں سے فارغ ہوکر جب وہ اپنے بیوی بچوں کو لیکر واپس گھر جانے کیلیئے وہاں سے نکل رہا تھا تو لوگوں کے ہجوم میں اسکی نظر ایک ایسی خاتون پر پڑی جسے وہ دیکھتے ہی پہلی ہی نظر میں پہچان گیا! وہ کوئی اور نہیں تھی! وہ احمد انکل کی بیوہ تھیں۔۔۔۔۔۔۔!!!

گو کہ ماہ و سال کی گرد نے انکا چہرہ گدلا ضروردیا تھالیکن اس نے انہیں پہچانے میں ہرگز کوئی غلطی نہ کی تھی وہ سو فیصدی وہی تھیں۔ اس نے اپنی بیوی کو دھیرے سے کہونی ماری اپنی آنکھوں سے اشارہ کرتے ہوئے ان کی طرف متوجہ کیا اور اسکے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے بول

"ارے یہ ان ہی احمد انکل مرحوم کی بیوہ ہیں جن کے بارے میں اکژ ذکر کرتا رہتا ہوں اور مجھے ان سے ضرور ملنا ہے اور آ ج تو مجھے یہ ضرور جاننا ہے کے آخر انکا اور انکے بچوں کا کیا ہوا؟"

وہ تیر کی طرح سے ان کے پاس جا پہنچا اور انہیں اپنی جانب متوجہ کرکے ان سے گویا ہوا:

"اگر آپ برا نہ مانے تو کیا میں آپ یہ کچھ پوچھ سکتا ہوں؟"

انہوں نے کچھ نہ سمجھتے ہوئے اثبات میں سر ہلادیا۔

"کیا آپ کے شوہر کا نام احمد تھا؟"

اسکا یہ سوال سن کر ان کے چہرے پر ایک عجب سی حیرانگی سی چھاگئی اور وہ بولیں:

"ہاں بیٹا انکا نام احمد ہی تھا لیکن بھلا تم کیا انکو جانو، انکے تو انتقال کو بھی کوئی تیس ایک برس بیت گئے ہیں۔"

اپنی پہچان کی یقین دھانی کرچکنے کے بعد اسے مکمل اطمینان ہوگیا کے یہ وہ ہی ہیں تو اس نے ان سے اپنا تعارف کروایا:

"جی میرا نام امین ہے اور میں آپ کے مرحوم شوہر احمد انکل کے دیرینہ دوست صدرالدین کا بیٹا ہوں۔"

"کون صدرالدین؟" وہ اپنے حافظے پر زور ڈالتی ہوئیں بولیں۔

"جی وہ ہی صدرالدین بھایانی جو آپ کی شادی پر احمد انکل کے شہ بالے بنے تھے۔" میں نے انہیں یاد دلاتے ہوئے کہا اور یہ سنتے ہی ان کی بوڑھی آنکھوں میں ایک ہلکی سی چمک نظر آئی

"اوہ اچھا تو تم ان کے بیٹے ہو۔ کیسے ہیں اب وہ؟" ان کے چہرے پر شناسائی کی جھلک نظر آنے لگی۔

"جی انکا تو گذشتہ برس پاکستان میں انتقال ہوگیا تھا۔" میں نے قدرے دھیرے سے کہا۔

"اور تھماری امی، وہ کہاں ہیں؟" انہوں نے افسردہ لہجے میں دریافت کیا؟

"جی وہ تو فی الحال پاکستان میں ہی ہیں لیکن میں کوشیش کررہا ہوں اور انشاءاللہ انہیں بھی یہاں ہی اپنے پاس بلوالوں۔"

اب اس سے پہلے کے وہ کوئی اور نیا سوال کرتیں میں نے ہی ان سے وہ سوال کرڈالا جو کے گذشتہ تیس برسوں سے میرے زہن میں کلبلا رہا تھا۔

"آنٹی آپکے تین بیٹے اور ایک بیٹی تھی وہ سب اب کہا ں ہیں؟"

بیٹا وہ تو سب کے سب اب امریکی شہری بن چکے ہیں ۔بچوں میں سب سے بڑی تو میری بیٹی ہے جسکی بہت سالوں قبل ایک پاکستانی نژاد امریکی نوجوان جسکا کیلیفورینا میں اپنا کاروبار ہے، سے شادی ہوگئی تھی۔ ماشاءاللہ وہ خوش و خرم زندگی گزار رہی ہے۔میرے بیٹے بھی عرصہ ِدراز ہوئے امریکا آ گئے تھے اور ریاستِ ٹکساس میں مقیم ہیں اور اپنے اپنے کاروبار میں مصروف ہیں اور میں اب اپنے بچوں کے پاس یہی امریکا میں ہی مقیم ہوں اور یہاں اورلینڈو اپنے ایک عزیز کے بچوں کی شادی میں شرکت کی غرص سے آئی ہوں۔

اس روز اورلینڈو سے ڈیٹونا بیچ کا 70 میل کا سفر کرتے ہوئے میرے دل و دماغ میں بس یہ ہی بات گردش کررہی تھی:

بے شک اللہ بڑا مُسبب الاسباب ہے

اور اسی روز مجھ پر یہ راز بھی افشاں ہوا کے آخر اس سوال کے جواب کو پاتے پاتے تیس سالوں کا طویل ترین عرصہ ہی کیوں لگا ؟ شاید اللہ تعالیٰ مجھ پر یہ بات اپنے پورے اور مکمل انجام پر آشکارہ کرنا چاہتا تھا کے وہ کتنا بڑا مُسبب الاسباب ہے اور اللہ نے میرے سوال کا جواب خود مجھے پر دنیا کے اس کونے پر آشکار کیا کے جہاں مجھے اس کے ملنے کی کوئی موہوم سی بھی امید نہ تھی کیونکہ یہ سوال میرے زہن میں شہر کراچی میں اس وقت جاگا تھا کے جب میں صرف چھے سال کا ایک کمسن اور ناسمجھ سا بچہ تھا اور اسکا جواب مجھے تیس سالوں بعد لاکھوں میل دور سات سمندر پار خود میرے سامنے لاکر اس وقت فراہم کیا جب وہ ہی چھے سال کا ایک کمسن اور ناسمجھ سا بچہ چھتیس سالہ دو بچوں کا باپ بن چکا تھا! اور اس سوال کا جواب مکمل طور پر پایہء تکمیل کو پہنچ چکا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!!!۔

کچھ عرصے بعد جب امی میرے پاس امریکا آگئیں اور میں نے ان سے اس بات کو تذکرہ کیا تو انہوں نے مجھ پر یہ حیرت انگیز انکشاف کیا کہ وہ اور ابو تو ہمیشہ سے ہی احمد انکل کے بچوں کے حالات سے آگا ہ تھے اور وہ اس بات سے بھی مکمل طور پر واقف تھے کہ وہ سب لوگ عرصہ دراز ہوئے، امریکا جا بسے تھے لیکن نہ تو انہیں اور نہ ہی ابا (مرحوم) کو ہرگز کبھی یہ اندازہ تک ہوسکا کہ میں یہ سوال اس وقت سے اپنے زہن میں لیئے پھر رہا ہوں اور ہو بھی کیسے سکتا تھا کیونکہ ایک پانچ چھے سالہ بچے سے بھلا کون ایسی سوچ کی امید رکھ سکتا تھا اور وہ تو ہمیشہ یہ ہی سمجھتے رہے کہ شاید مجھے احمد انکل کے بچے تو کیا خود احمد انکل تک یاد نہ ہوں اور شاید یہ بھی اسکی ہی کوئی مشیت خاص تھی کہ میں ہمیشہ چاہتے ہوئے بھی امی اور ابو دونوں ہی سے یہ سوال کرتے ہوئے کتراتا رہا اور اکژ یہ سوال ذبان کی نوک پر آ کر واپس پلٹ گیا اور واقعی اس میں اس کی کوئی خاص ہی رمز تھی، کیونکہ اس سوال کا جواب اگر مجھے امی یا ابو کی زبانی محض لفظوں کی صورت ہی میں مل جاتا تو شاید وہ بات مجھ پر اسقدر اثر انداز نہ ہوتی کہ جتنا اس جواب کو 30 سالوں کے بعد اس طرح سے پا کر ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔!!!!!!!!!!!
Amin Sadruddin Bhayani
About the Author: Amin Sadruddin Bhayani Read More Articles by Amin Sadruddin Bhayani: 43 Articles with 55146 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.