عصاء

دستہ کا لفظ ذہن میں گڈمڈ رہتا ہے ، فیصلہ نہیں ہو پا رہا کہ اس کو متبرک عصاء کہا جائے، حکومتی رٹ قائم رکھنے والا ڈنڈا کہا جائے، با اختیار چھڑی میں شمار کیا جائے ، عوامی ڈانگ کہا جائے یا نا اہلی کی لٹھ کا نام دیا جائے۔

اللہ تعالیٰ نے انسان کو علم عطا فرمایا اور اشرف کہہ کر حکمرانی کی کرسی پر بٹھا دیا، اٹھارہ ہزار نعمتیں اس کے آگے رکھ دیں کہ اس سے لطف اندوز ہو۔ لکڑی بھی ان اٹھارہ ہزار نعمتوں میں شامل ہے، ابتداء سے ہی انسان اس نعمت سے مستفید ہوتا آ رہا ہے،کھانا پکانے ، سردیوں مین جسم تاپنے، گھر بنانے کے بعد انسان نے اسی لکڑی سے بنے کوئلے سے ریل انجن چلانے سے بجلی پیدا کرنے تک کا کام لیا۔ لکڑی سے انسان نے تسبیح بنائی، کرسی، میز اور پلنگ تیار کیے۔ عصاء بھی لکڑی کا بنا ہوتا ہے جو ان انسان اپنے مقصد کے لیے ہاتھ میں لے کر چلتا ہے۔اس کو لاٹھی ، چھڑی ،سوٹا ، لٹھ،سہارا اور ڈانگ بھی کہاجاتا ہے۔نام کی بڑی اہمیت ہوتی ہے کہ نام کے سہارے ہی تصویر ذہن میں محفوط یادداشت سے ابھرتی ہے۔

عصاء سے عقیدت اور بزرگی کا عکس ابھرتا ہے،کچھ عصاء مشہور بھی ہوئے کچھ عقیدتوں کا محور بنے، کچھ کو تاریخ نے یاد رکھا۔معلوم تاریخ میں اللہ کے نبی سلیمان کے عصاء کو خاص اہمیت حاصل ہے،نبی اللہ موسی کے عصاء کا ذکر کتاب میں محفوظ ہے،عصاء کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ نبی خاتم المرسلین نے بھی اس کو ہاتھ میں رکھا۔ موجودہ تاریخ میں میانوالی والے مولانا عبد الستار خان نیازی کے عصاء نے بھی اپنے وقت میں خوب شہرت پائی تھی۔مولانا دوسرے بزرگوں کی طرح اسے اپنے نبی کے عمل کی تقلید میں ہاتھ میں رکھا کرتے تھے۔انھوں نے عصاء پر گرفت مضبوط رکھی اور اللہ نے ان کے شملے کو بلند رکھااور ان کے عصاء کو کوئی دوسرا نام دینے کی کسی کو اللہ نے توفیق ہی نہ دی۔

چھڑی عصا ، ہی کی چھوٹی بہن ہے مگر نام کے بدلنے سے ہی ذہن میں موجود عصاء کے ساتھ عقیدت بھی ختم ہو جاتی ہے۔چھڑی کے مختلف علاقوں میں استعمال مختلف ہیں، چھڑی کا عام استعمال کتوں سے بچنا ہے۔کچھ علاقوں میں اسے تعلیم کے فروغ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے،بعض تعلیمی اداروں میں چھڑی کو بطورپوانٹر استعمال کیا جاتا ہے۔پاکستان کی سیاست میں اس سے استعفیٰ وغیرہ لینے کا کام بھی لیا جاتا رہا ہے۔

عصاء کو ڈنڈا کہیں تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے نمازی بے وضو ہو گیا ہو۔اور حقیقتا ڈنڈے کا استعمال رحمت العالمین کے پیرو کاروں کو بے وضو ہی کرتا ہے۔ڈنڈا چھڑی سے بڑا ہوتا ہے اور ہمیشہ بطور ہتھیار ہی استعمال ہوا ہے۔جس نسل نے ٹاٹ والے سکولوں میں تعلیم حاصل کی ہے وہ ڈنڈے کی اہمیت سے بھی واقف ہیں۔سرکار کے پاس بھی ایک ڈنڈا ہوتا ہے جو معلمانہ ڈنڈے سے کافی تگڑا ہوتا ہے اور پولیس کے ہاتھوں استعمال ہوتا ہے۔اور سرکار کا رعب اور دبدبہ قائم رکھنے کے کام آتا ہے۔عصر جدید میں اس کو حکومت کی رٹ قائم رکھنے کا نام دیا گیا ہے۔رٹ قائم رکھنے کی ضرورت ہر طبقے،معاشرے اور ملک میں ہوتی ہے، اس میں ترقی یافتہ اور پسماندہ کی تفریق کرنا بے معنی ہے۔ڈنڈے کا سیاسی استعمال
1971میں بنگالیوں پر ہوا تھا۔ایف ۔ایس ۔ ایف نامی ایک فورس کے پاس بھی کافی مضبوط ڈنڈا ہوتا تھا۔آئی جے آئی ایک تحریک تھی جو ڈنڈے کے ساتھ آئی تھی مگر خالی ہاتھ لوٹ گئی تھی۔

لکڑی ہی سے انسان نے دستہ دریافت کیا تھا جو مختلف ہتھیاروں کے استعمال کو سہل بنانے کے کام آتا ہے۔ جیسے درانتی، کھرپا ، بھالا، کلہاڑی وغیرہ کے دستے۔ ایک دستہ گینتی میں بھی استعمال ہوتا ہے مگرسیاسی جماعت کے جھنڈے کی طرح گینتی کا دستہ بھی کثیر المقاصد شے ہے۔

2014میں اسلام آباد میں یہ دستہ عصمت اللہ جونیجو کا سر پھاڑنے میں استعمال ہوا تھا۔پاکستان ٹیلیویژن کی عمارت پر قبضہ کرنے والوں کو22 کروڑ کی آبادی نے جب سے پہچاننے سے انکار کیا ہے ، اس کے بعد دستہ کا لفظ ذہن میں گڈمڈ رہتا ہے ، فیصلہ نہیں ہو پا رہا کہ اس کو متبرک عصاء کہا جائے، حکومتی رٹ قائم رکھنے والا ڈنڈا کہا جائے، با اختیار چھڑی میں شمار کیا جائے ، عوامی ڈانگ کہا جائے یا نا اہلی کی لٹھ کا نام دیا جائے۔
 

Dilpazir Ahmed
About the Author: Dilpazir Ahmed Read More Articles by Dilpazir Ahmed: 135 Articles with 149462 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.