سوشل میڈیا پر چلنے والی خبروں کیمطابق رانا مشہود سے
بیان دلوایاگیاکہ 2 ماہ بعد پنجاب میں ن لیگ کی حکومت اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے
بن جائیگی ۔۔ اس بیان کے فوری بعد ساری قوم نے دیکھا کہ شہبازشریف کو
گرفتار کرلیاگیا۔۔ تومطلب یہ ھوا کہ رانا مشہود کا بیان غلط تھا۔۔ چونکہ
ایک خبر سوشل میڈیا پر زور سے چلی کہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار فیل ھو
گیا ھے لہٰذا 2 ماہ بعد عمران خان پنجاب میں دوسرا نیا آدمی لےآئیگاکہ جب
ضمنی انتخابات کا انعقاد بھی ھوچکا ھوگا۔۔ یوں شہبازشریف نے ایسی خبروں کی
بھرمار سے فائدہ اٹھاتے ھوئے رانا مشہود کے ذریعے 2 ماہ بعد پنجاب میں ن
لیگ کی حکومت بن جانے اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ دینے پر مشتمل بیان دلوا دیا۔۔
اسکے بعد شہبازشریف کی گرفتاری سے ثابت ھوگیا کہ سول و آرمی اسٹیبلشمنٹ
پنجاب میں ن لیگ کی حکومت بن جانے کے حق میں نہیں۔۔ گمان ھے بلکہ سوشل
میڈیا سمیت الیکٹرانک میڈیا کی خبروں کیمطابق : اب شہبازشریف کے یکے بعد
دیگرے کیسز کھلیں گے۔۔ ایک سے جان چھوٹے گی تب دوسرا کیس لگ جائیگا۔۔ اب
چونکہ سلمان شہباز کو بھی نیب نے 10 اکتوبر کے دن ذاتی حیثیت میں آمدن سے
زائد اثاثوں پر طلب کر لیاھے یوں بات شفاف واضح ھوگئی کہ شریفس کیلئے ابھی
سیاسی من مانی کی اجازت نہیں ھے۔۔ اور شہبازشریف بھی آخر کار نوازشریف
کیطرح سیاسی طور پر مکمل خاموش اور ساکت میں وقت گزارنے جیسی ڈیل پر باھر
آجائیں گے۔۔ پاکستان پر عالمی بنکوں کے قرضوں کا ایک بڑا بوجھ ھے اور ورثے
میں یہ قرض عمران خان کی حکومت کو ملا ۔۔ اسوقت ملک چلانے کیلئے IMF و دیگر
عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لینا مجبوری ھے اور عالمی مالیاتی اداروں سے
معاملات طے ھوتے نظر آرھے ہیں اسکی مثال ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی کرنسی
کی گراوٹ ھے ۔۔ آج ڈالر 130 کا اوپن مارکیٹ میں ریٹ ھے۔۔ خبر ھےکہ ڈالر 150
روپے تک جا پہنچے گا جسوجہ سے مہنگائی تو بڑھے گی مگر عام پبلک کے ذرائع
آمدن وہی محدود ہی رہیں گے جو ایک خطرناک بات ھے۔۔ اور یہی اصل چیلنج ھے
اور یہی اصل عمران خان کا امتحان ھے کہ وہ کسطرح سے پاکستانی اکانومی کو
سنبھالا دیتاھے؟ بیروزگاری کی شرح میں دن بدن اضافہ ھوتا جا رھاھے اور جن
پاکستانی قدرتی وسائل کی دستیابی کی بات عمران خان نے کی اس سے فیض یاب
ھونے کیلئے الگ سے میکانزم تیار کرنا پڑیگا اور اس کیلئے بھی بھاری فنڈز کی
ضرورت پڑے گی جو قومی خزانے میں نہیں۔۔ یوں معاشی طور پر معاملات الجھے ہی
نظر آتے رہیں گے اور اس مالیاتی چیلنجز کے دوران شہبازشریف نے اچانک اپنی
انٹری ڈالنے کہ کوشش کی ۔۔ جسے مداخلت قرار دیاگیا اور ادارے ایکشن میں
آگئے۔۔ شہبازشریف گرفتاری کے بعد ریمانڈ پر چلےگئے۔۔ دراصل بات یہ ھے کہ
شہبازشریف چاھے تو وفاقی سطح پر اپنی حکومت بنالے اور خود وزیراعظم بن جائے
یا پنجاب میں ھارس ٹریڈنگ کی مدد سے صوبائی حکومت بنا لے یا حالات کی خرابی
پر مارشل لاء لگ جائے یا قومی حکومت بن جائے۔۔ تمام صورتوں میں پاکستان کی
اکانومی کو سہارا اسی طرح سے ہی ملےگا کہ جس پر عمران خان عمل پیرا ھے۔۔
داخلی سطح پر اور عالمی منظر نامے کے پیش نظر عالمی مالیاتی اداروں سے رجوع
کرنا ایک ایسی مجبوری ھے جس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا اور یہ بات بھی طے
ھے کہ چندے سے ڈیم نہیں بن سکتا کیونکہ چندے سے " قرض اتارو ملک سنوارو"
بھی بری طرح فیل ھوگیا تھا۔۔ جب تک بڑے قومی سطح کے چوروں سے ریکوری نہیں
کی جائیگی اور کونے کونے تک جا پہنچنے والی کرپشن کا سدباب نہیں ھوتا اس
وقت تک پاکستان کو اکانومی چیلنجز درپیش ہی رہیں گے۔۔ چونکہ قومی ادارے
عمران خان کی حکومت کیساتھ ہیں کہ اسکو قوم نے ووٹ کے ذریعے حکومت کرنیکا
مینڈیٹ دیاھے یوں عمران خان کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں اسکی ایک وجہ یہ
بھی ھے کہ حکومت اور قومی سلامتی کے ادارے ایک پیج پر ہیں البتہ اکانومی
صورتحال درست کرنا ایک بہت بڑا چیلنج ھے جو ورثے میں ملا۔۔ آئندہ
سیاستدانوں کی پکڑ دھکڑ زیادہ زور سے دیکھنے میں آ سکتی ھے کیونکہ حکومت و
قومی سلامتی کے ادارے کسی صورت اندرون ملک عدم استحکام نہیں چاھتے اور جو
کوئی عدم استحکام پیدا کرنیکی کوشش کریگا اسکے سارے کیسز نکال کر چلائے
جائیں گے جس سے سیاسی عدم استحکام پیدا کرنےوالوں کی طبیعت صاف ھو جائیگی
۔۔ آئندہ اس بات کا بھی امکان ھے کہ 5 ھزار کے بعد پاکستان میں 10 ھزار کا
نوٹ سٹیٹ بنک جاری کردے تاکہ بڑے کاروباری طبقے کو پے منٹس کرنے میں آسانی
رھے۔۔ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام نہیں ھے البتہ معیشت کی حالت بہت خراب
ھے ایسے میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنیوالے سیاسی عناصرز اپنے اقدامات کا
شدید خمیازہ بھگت سکتے ہیں ۔۔ خارجی سطح پر حکومت ورکنگ میں مصروف ھے اسی
دوران بھارت نے روس سے ایک بڑا دفاعی جنگی آلات کےحصول کا معاھدہ کرلیاھے
جس کے جواب میں پاکستان کو فوری غوری میزائل کا تجربہ کرکے پیغام دینا پڑا
کہ پاکستان آنکھیں کھولے بیٹھا ھر جانب دیکھ رھا ھے۔۔ عمران خان کی حکومت
اپنی مدت پوری کریگی۔۔ شریفس ' نئے چیف جسٹس و نئے آرمی چیف کی آمد تک
خاموش رہیں گے اور اگر سول حکومت نے چیف جسٹس آف پاکستان کی مدت ملازمت میں
توسیع کر دی اور بعد ازاں آرمی چیف کو بھی 2 سال کی ایکسٹینشن مل گئی تب
عمران خان کی حکومت طے شدہ ایجنڈے و اپنے پارٹی منشور کی تکمیل کیلئے کام
کرسکے گی اور داخلی و خارجی سطح پر پاکستان کے امیج کو مثبت اجاگر کرنے میں
کامیاب رھے گی اور چونکہ تحریک انصاف کی حکومت کو ابھی 50 روز ھوئے ہیں
جبکہ میڈیا پر مصنوعی شور و غوغا پیدا کرنے اور ابھارنے کا سلسلہ جاری
ھوچکا جس کے پیچھے جو کوئی بھی فنڈنگ کریگا وہ پکڑ میں آئیگا اور بدنام
زمانہ لفافوں کو لگام دینے کیلئے بھی ادارے ھوم ورک میں مصروف ہیں اور
پیمرا بھی اچانک کوئی اھم قدم اٹھا سکتاھے۔۔ ضمنی انتخابات میں ووٹ ٹرن
نہایت کم دیکھنے کو نظر آئیگا کہ پبلک کی دلچسپی 10 فیصد بھی نہیں اور
پولنگ ڈے پر آپ میڈیا پر دیکھ لیں گے کہ سارے پولنگ اسٹیشن ویران نظر آئیں
گے جبکہ امیدواران کو بھی پولنگ ایجنٹس و انتخابی کیمپس کیلئے کارکنان کم
ہی دستیاب ھونگے۔۔ نئے بلدیاتی نظام کی آمد کے بعد جب اختیارات نچلی سطح تک
منتقل ھوں گے تب عوام کو براہ راست ریلیف ملنے کی توقع کی جاسکتی ھے اور
حکومت اس پر سنجیدگی سے کام کررہی ھے اور جسقدر جلدی نیا بلدیاتی نظام
آجائے وہ حکومت کی مضبوطی کیلئے ایک بڑا مثبت قدم ثابت ھوگا۔۔ کیونکہ نچلی
سطح پر صحت صفائی ستھرائی سمیت زکوت کمیٹیاں اور شناختی کارڈز فارم کی
تصدیق سمیت عائلی مسائل گھریلو جھگڑوں کا یونین کونسل کی سطح پر مصالحتی
عدالتوں جتنے اختیارات کے استعمال سے حل ھوجانا مقامی سطح سے متعلق ترقیاتی
امور جیسے معاملات سرکاری ڈسپنسریاں، سرکاری اسکولز، بچوں کے حفاظتی ٹیکوں
کے مراکز تک معاملات درست ھو جائیں گے اور 65 فیصد پبلک کے بنیادی مسائل
بلدیاتی نمائندوں کے ذریعے حل ھوجانے سے تحریک انصاف کی حکومت کو ایک بڑا
سہارا مل جائیگا۔۔ اسوقت سیاسی افق پر کئی موضوعات ہیں اور حکومت جہاں
پریشر میں ھے وھاں شریفس و زرداری بھی پریشان ہی رہیں گے کہ ان پر کیسز کی
تلوار لٹکتی رھے گی۔۔ اور یوں عمران خان کی حکومتی مدت پوری ھوجائیگی۔۔ اور
اسطرح کا یہ سیاسی نظام جب سے میں نے ھوش سنبھالی ھے دیکھ رھا ھوں اسی
تناظر میں مجھے آئندہ کا منظرنامہ بھی کچھ کمی بیشی کیساتھ ایسا ھی وقوع
بذیر ھوتا نظر آرھاھے*
|