پاکستان میں لفظ’ احتساب‘ مشکوک نظروں او ر غلط نظریے سے
دیکھا جاتا ہے۔احتساب کو مشکوک بلندیوں تک پہنچانے میں گزشتہ سیاسی پارٹیوں
اور آمروں کا خاصہ کردار رہا ہے۔گزشتہ ادوار میں احتساب کو ذاتی و سیاسی
مفادات و انتقام کے لئے استعمال کیا جاتا رہا۔
پاکستانی عوام برسوں سے حقیقی احتساب کی راہ تک رہی ہے۔ہمارے آباؤ اجداد
بھی اس کی گونج سننے کو بے تاب تھے۔یہی وجہ ہے لفظ احتساب کی مقبولیت آج
بھی قائم ہے۔احتساب کے معنی ’جانچ پڑتال‘ کے ہیں۔یعنی محاسبہ کرنا نفس عارف
کا تفصیل تعینات سے،ڈھونڈنا ان میں حقائق کو، اور پھر روک تھام وغیرہ۔
ہمارے ہاں درمیانہ طبقہ احتساب کا خاصہ متلاشی رہا ہے۔کیونکہ اس طبقے کو ہر
دور میں یہی ابہام رہا ہے، کہ ان کے جائز حقوق پر ڈاکا ڈالا جاتا ہے۔دوسری
طرف امراء و جاگیرداروں میں اسے مزاح کی حیثیت سے دیکھا جاتا ہے۔کیونکہ
انہیں یقین ہے کہ، یہ ممکن ہی نہیں کہ احتساب ہوسکے۔بروقت مناسب احتساب
قوموں کی تقدیر بدل دیتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج امریکہ ،یورپ، اور چائنہ
وغیرہ ہم سے بہت آگے ہیں۔بروقت احتساب نے قوموں کو بام عروج تک پہنچایا
ہے۔واقعی اس میں ان کی محنت ہی شامل ہے۔
ہمارے ہاں جیسی محنت و کارکردگی دیگر شعبوں میں ہے ،ویسی ہی احتساب کے عمل
میں۔بلکہ ہمارے ہاں حکومتیں اور ادارے احتساب کو اپنے ذاتی مفاد و مقاصد کے
حصول کے لئے استعمال کرتے آئے ہیں۔گزشتہ کئی عرصوں سے ہمارے ہاں احتساب
مسلسل ذاتی مفادات کی غرض سے جاری ہے۔کبھی پیپلز پارٹی، تو کبھی مسلم لیگ،
ایک دوسرے کو فرضی احتساب میں دھکیلتے آئے ہیں۔کیا وجہ ہے کہ ،ہمارے ہاں
بار بار وہی چہرے سامنے آرہے؟کیا وجہ ہے کہ بار بار احتساب کی ضرورت پڑتی
ہے؟وجہ یہی ہے کہ احتسابی عمل کی کبھی تکمیل ہی نہیں ہوئی۔جس کی بدولت ان
کو بار بار کرپشن کا موقع ملتا ہے۔بار بار وہی پرانے چہرے سامنے آرہے
ہیں۔ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں احتساب کی بازگشت صرف اور صرف
سیاسی انتقام کی صورت میں ہی سنائی دی۔سیاسی انتقام کی صورت میں صرف ہدف و
نشانہ بنا کر ہی احتساب ہوتا ہے۔سیاسی پارٹیوں میں انتقامی احتساب برسوں سے
چل رہا ہے۔کبھی اس کی باری تو کبھی اس کی۔اور یہ انتقامی احتساب ملک کو
تباہی کی طرف دھکیل رہا ہے۔ ہمارے ملک پر عسکری آمر بھی قابض رہے ۔سنا ہے
کہ آمریت بہت مضبوط ہوتی ہے۔مگر افسوس کہ گزشتہ ادوار کے آمر بھی فقط حدفی
احتساب کو ہی فروغ دیتے رہے۔احتساب پر مفادات اور اقتدار کو ترجیح دیتے
رہے۔بروقت اور شفاف احتساب کی تکمیل میں گزشتہ آمر و منتخب حکومتیں ہمیشہ
ناکام رہی ہیں۔احتساب کے ڈر سے پارٹی مفادات بدلتے بھی دیکھے گئے۔احتساب کے
خوف سے پارٹیاں بدلنے کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔نا مکمل احتساب کی بڑی وجہ
یہ بھی ہے کہ، بہت سے کرپٹ سیاستدان احتساب سے بچنے کے لئے سیاسی پارٹیاں
بدل لیتے۔ اس پارٹی میں شامل ہو جاتے ،جو احتساب کی صدا بلند کرتی۔مگر
افسوس کہ، احتساب کی صدا لگانے والوں کو اپنی پارٹی یا گروہ میں کبھی کوئی
بدعنوان و کرپٹ نظر نہیں آیا۔گزشتہ چند سالوں سے تبدیلی کی صورت میں احتساب
کی باز گشت پھر سنائی دے رہی ہے۔جس کا سہرا عمران خان کے سر جاتا ہے۔عمران
خان نے ہمیشہ ہر فورم پر کرپشن کے خاتمے پر زور دیا۔یہی وجہ ہے عوام نے
انہیں آج ایوانوں میں پہنچایا ہے۔عوام آج احتساب کے مطالبے پر عملدرآمد
چاہتی ہے۔ مانتے ہیں کہ، عمران خان بھی اپنے اس وعدے پر قائم ہوں گے۔یہی
وجہ ہے کہ شہباز شریف آج دس روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کی تحویل میں
ہیں۔شہباز شریف کو صاف پانی کیس میں بلا کر، آشیانہ ہاؤسنگ کیس میں گرفتار
کیا گیا ۔اس میں کوئی مزائقہ نہیں۔نیب ایک آزاد و خودمختار ادارہ ہے۔ اسی
لئے اسپیکر قومی اسمبلی کو بتائے بغیر گرفتار کیا گیا۔مگر سوال یہ ہے کہ
نیب کی گزشتہ کارکردگی کیا ہے؟ سوالات جنم لے رہے ہیں کہ، ضمنی انتخابات سے
پہلے ہی کیوں گرفتار کیا گیا؟ کیا یہ گرفتاری انتخابات پر اثر انداز نہیں
ہوگی؟کہیں ایسا تو نہیں تھا کہ انتخابات میں ہارنے کے خوف سے گرفتاری عمل
میں لائی گئی ہو؟ چلیں ہم مان لیتے ہیں کہ ایسا ہرگز نہیں۔ موجودہ حکومت
صدق دل سے احتساب کا عمل چاہتی ہے۔مگر سوال یہ ہے کہ، احتساب صرف ایک پارٹی
تک ہی محدود کیوں؟کیا دیگر پارٹیوں میں موجود وزراء اور منتخب نمائندے بھی
نیب و دیگر کیسوں میں ملوث نہیں؟نیب کی لسٹ میں موجود ، زلفی بخاری، علیم
خان،پرویز خٹک ، پرویز الہی اور دیگر نمائندوں کو کیوں نہیں بلایا جا رہا؟
کیا نیب کے پاس ان کے لئے وقت نہیں؟ عوام ایسا احتساب ہر گز نہیں چاہتی ،جس
میں ایک ہی جماعت کو نشانہ بنایا جائے۔ سب کا احتساب چاہتی ہے ،نہ کہ صرف
حدفی احتساب۔عوام ہر گز یہ نہیں چاہتی کے پارٹی کے بڑے رہنماؤں کو ہاتھ نہ
ڈالا جائے۔ضرور ڈالا جائے۔مگر عوام کو بتایا جائے نیب والے کب آصف زرداری
اور شجاعب حسین کو بلا رہے ہیں؟ کب بیرون ملک موجود پرویز مشرف کا احتساب
ہوگا؟عوام تو چاہتی ہے کہ، جلد از جلد ملک کو نقصان پہنچانے والے سلاخوں کے
پیچھے ہوں۔ چاہے کسی بھی پارٹی سے ہوں۔اگر حکومت ایسا نہیں کر سکتی تو پھر
اسے انتقامی سیاست سمجھا جائے ؟روایتی سیاست کو ہر گز احتساب کا رنگ نہ دیں
۔احتساب کے لئے کچھ نیا کرنا پڑے گا ۔اپنی صفوں سے بھی صفایا کرنا پڑے
گا۔پشاور میٹرو جس کی لاگت میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے۔کیا اس منصوبے کا
فرانزک آڈٹ ضروری نہیں؟ احتساب کی جیسی فضا آج چل رہی ہے۔ایسی ہی فضا گزشتہ
ادوار میں بھی چلتی رہی ہے۔گزشتہ منتخب حکومتوں اور آمروں نے اداروں کو
ذاتی مفادات کے لئے استعمال نہ کیا ہوتا۔تو آج ہمارے اداروں پر سوالیہ نشان
نہ ہوتا۔ویسی ہی غلطی موجودہ حکومت کر رہی ہے۔موجودہ حکومت کی طرف سے
احتساب کی فضا صرف سیاسی حدف حاصل کرنے کا شاخسانہ نظر آرہی ہے۔وریراعظم
صاحب اگر واقعی احتساب چاہتے ہیں، تو پارٹیوں کی تفریق کئے بغیر ہر رنگ کی
پارٹی کے شخص کو جو مطلوب ہو، کٹہرے میں لایا جائے۔چاہے اپنی ہی پارٹی کا
کیوں نہ ہو۔ ابھی عوام موجودہ حکومت پر اعتماد کرتی ہے، اور امید کرتی ہے
کہ یہ گزشتہ ادوار کی طرح لوگوں کو حدف بنا کر احتساب کے کٹہرے میں کھڑا
نہیں کریں گے۔بلکہ صدق دل سے سیاسی انتقام، پارٹی، اور ذاتی مفادات کو پرے
رکھ کر احتساب کے عمل کو تکمیل تک پہنچائیں گے۔اگر موجودہ حکومت ایسا کرنے
میں ناکام رہی تو اس میں او ر جنرل مشرف کے دور میں کوئی فرق نہیں ہوگا۔
بہت سے شکوک و شبہات جنم لیں گے۔اگر حالات ایسے ہی رہے تو حکومت سے عوام کا
اعتماد جلد اٹھ جائے گا۔ |