اونٹ جب پہاڑ کے نیچے آتا ہے تو اس کو دال آٹے کا بھاو
پتہ چل جاتا ہے۔ بی جے پی والے جب اقتدار سے دور رہتے ہیں تو ان کو کبھی
مندر یاد آتا ہے تو کبھی مہنگائی یاد آتی ہے۔ یہ لوگ کبھی بیروزگاری
کامسئلہ اٹھاتے ہیں تو کبھی بدعنوانی کا شور مچاتے ہیں ۔ کبھی کسانوں کے
لیے آنسو بہاتے ہیں تو کبھی جوانوں کی کسمپرسی کی داستان سناتے ہیں لیکن
انتخاب جیتنے کے بعد عیش و عشرت میں اس قدر مگن ہوجاتے ہیں کہ ان کو عوام
اور ان کے مسائل سے کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ قومی معیشت کا سارا دوارومدار
فی زمانہ ایندھن پر ہے اور جب بھی ایندھن کے بازار میں شعلے اٹھتے ہیں ہر
کس و ناکس اس کی تپش محسوس کرتا ہے۔ ۲۰۱۴ انتخاب سے قبل مودی جی نےایندھن
کے مسئلہ پر عوام کے جذبات کا جی بھر کے استحصال کیا اور نہایت خوشنما خواب
دکھائے ۔ اس کے بعد بابا رام دیو نے ٹیکس کا خاتمہ کرکے ایندھن کی قیمت نصف
کرنے کی پڑیا چھوڑی تو وہ بھی لوگوں کو کڑوی لگی کیونکہ لوگ سوچنے لگے تھے
کہ اچھے دنوں میں پٹرول ڈیزل مفت ہوجائے گا۔
’بہت ہوئی ایندھن کی مار ، اب کی بار مودی سرکار ‘ کانعرہ لگا کر مودی جی
اقتدار پر براجمان ہوگئے ۔ اس وقت قسمت سے ساری دنیا میں کچے تیل کے بھاو
گرنے لگے اور وہ ۱۴۰ ڈالر فی بیرل سے گر کر ۴۰ ڈالر فی بیرل ہوگیا۔ مودی جی
کے اپنا وعدہ نبھانے کا بہترین کا موقع تھا ۔مودی جی اگر دور اندیش ہوتے تو
پٹرول کی قیمت ایک چوتھائی نہ سہی نصف ہی کردیتے تو آج عوام سے کہہ سکتے
تھے کہ جب تیل سستا ہوا تو ہم نے قیمت کم کی اب مہنگا ہورہا ہے تو ہم قیمت
بڑھانے پر مجبور ہیں ۔ کسی کو ان سے شکایت نہیں ہوتی لیکن انہوں نے اندر ہی
اندر ٹیکس بڑھانا شروع کردیا اور عوام کی جیب پر ڈاکہ ڈالتے رہے۔ لوگوں نے
جب اس جانبتوجہ مبذول کرائی تو اکڑ کرکہہ دیا کہ یہ تو میری خوش بختی ہے کہ
میرے اقتدار میں آتے ہی عالمی بازار میں معدنی تیل کی قیمت گر گئی۔ مودی
جی بھول گئے کہ انسان کے جب اچھے دن آئیں تو اسے برے دنوں کے لیے اچھے کرم
کرنے چاہئیں لیکن انسے ایسی اعلیٰ ظرفی کی توقع ہی فضول تھی۔
مودی جی نے ۳ سال تک اپنے ہی عوام کو خوب لوٹ کر جو پونجی جمع کی اسے
امبانی اور اڈانی جیسوں میں لٹا دی ۔ اب انتخابی سال میں ان کے برے دن
آگئے ۔ عالمی بازار میں تیل کا بھاو بڑھنے لگا ہندوستان میں بھی پٹرول فی
لیٹرسنچری کے قریب پہنچنے لگا تو جیٹلی جی کہتے ہیں بھائی ساری دنیا میں
ایندھن کا بھاو بڑھ رہا ہے تو ہم کیا کریں؟ عوام کا جواب ہے جب ساری دنیا
میں تیل کا بھاو گھٹ رہا تھا تو آپ نے کیا کیا؟ حقیقت تو یہ ہے کہ بی جے
پی والوں نے ہندوستانی عوام بالکل بے وقوف سمجھ رکھا ہے۔ پہلے جب مقبولیت
بہت زیادہ تھی تو صوبائی انتخاب کے وقت بھی پٹرول کا بھاو نہیں گرایا جاتا
تھا ۔ گجرات میں جھٹکا لگا تو دماغ ٹھکانے آیا اس لیے کرناٹک انتخاب سے
قبل پٹرول کے بھاو کم کیے گئے لیکن انتخاب کے جاتے ہی پھر سے یہ احسان
فراموش عوام کو بھول گئے حالانکہ کرناٹک کے لوگوں نے سب سے زیادہ نشستوں پر
کمل کھلایا۔ اب یہ حکومت نہیں بنا سکے تو اس کا کیا قصور؟
کرناٹک کے بعد چار صوبوں میں انتخاب قریب آئے۔ تمام ہی جائزوں میں یہ بات
سامنے آئی کہ راجستھان میں بی جے پی ہار جائے گی۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ
گزشتہ ماہ صرف راجستھان کے اندر پٹرول ڈیزل کے نرخ میں کمی کی گئی۔ اب پتہ
چلا کہ مدھیہ پردیش اور چھتیس گڈھ میں بھی حالت پتلی ہے تو سارے ملک میں
بھاو گرا دیئے گئے۔ اسی کے ساتھ مدھیہ پردیش اور چھتیس گڈھ کی صوبائی
حکومتوں نے مزید چھوٹ دے دی۔ اتر پردیش اور بہار والے حسرت بھری نگاہوں سے
یہ تماشہ دیکھ رہے ہیں اور سوچ رہے ہیں کہ کاش ہمارے صوبوں میں بھی بی جے
پی والی سرکار گرجائے اور الیکشن کا اعلان ہو تاکہ کم ازکم عارضی طور پر
سہی پٹرول کا بھاو تو کم ہو ۔ عوام کو اس طرح کب تک ٹھگا جائے گا ؟ انتخاب
سے قبل چند ماہ کے لیے مہنگائی کم کردینا اور انتخابی کامیابی کے فوراً بعد
پھر سے لوٹ کھسوٹ شروع کردینے کا یہ گھناونا کھیل عوام کی سمجھ میں کب آئے
گا؟ انتخاب سے قبل عوام کے زخموں کو پٹرول سے دھونے اور کامیاب ہوتے ہی اس
میں تیلی لگا دینے کاناٹک آخر کب تک چلے گا؟
|