ہمیں اکثر پاکستان کی موجودہ اور سابقہ حکومتوں کی جانب
سے بین الاقوامی مالیاتی ادارے یعنی آئی ایم ایف (انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ)
سے قرضے مانگنے کی خبریں سننے کو ملتی رہی ہیں، ہر دور میں عام انتخابات
لڑنے والی جماعتوں نے کشکول توڑ کر خود مختار ہونے کے نام پر عوام سے یہ
وعدہ کیا ہے کہ وہ قطعی طور پر انٹرنیشنل ایجنسیز ، ورلڈ بینک یا آئی ایم
ایف وغیرہ سے کوئی قرضہ نہیں لیں گے اور اس وعدے کی بنیاد پر ووٹ مانگا ہے
، حال ہی پاکستان میں اقتدار میں آنے والی جماعت تحریک انصاف کی جانب سے
بھی ماضی میں اس قسم کے بے شمار آسمانی دعوے سامنے آتے رہے لیکن آ ج تحریک
انصاف کی منتخب حکومت نے بھی یہ کشکول توڑنے کی بجائے بھیک مانگنے کے اس
سلسلے کو جاری رکھنے کا اعلان کرتے ہوئے آئی ایم ایف کے پاس جا کر اپنی قوم
کے حال اور مستقبل کو ذلیل کرنے فیصلہ کیا تو یہاں ہمیں ایک بار اس معاملے
کے حوالے سے کچھ باتیں بہت اچھے سے معلوم ہونی چاہیے ہیں ، جیسے سب سے پہلے
تو یہ بات کہ آئی ایم ایف یا کسی بھی انٹرنیشنل ایجنسی سے قرضہ لینا کسی
ملک کی معیشت کے لیے کیوں برا ہوسکتا ہے؟ یہ بیرونی قرضہ کس طرح ہماری قوم
کے ایک ایک بچے کو متاثر کر رہا ہے؟اس وقت ایک انفرادی پاکستانی پر یا
اجتماعی طور پر پورے پاکستان پر بیرونی قرضے کی مقدار کیا ہے؟ یہ قرضے کس
طرح مہنگائی کا طوفان برپا کرتے ہیں اور کسی بھی قرض دار ملک کی معاشرت،
معیشت ، آزادی ،بقا اور سالمیت پر کیسے برے اثرات مرتب کرتے ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ کوئی پہلی حکومت آئی ایم ایف سے قرضہ لے رہی ہے، اس سے
قبل1990 کے بعد سے سابقہ حکومتیں 10 یا اس سے زیادہ مرتبہ آئی ایم ایف سے
رجوع کرنے کے بعد قرضہ منظور کروانے میں اور اپنی مٹی رہن رکھنے میں کامیاب
ہوئی ہیں، یہی بیرونی قرضہ اس وقت پاکستان کے سر پر تقریبا 91.3بلین ڈالرز
یعنی کم و بیش 1181ارب روپیہ بنتا ہے اور آئی ایم ایف کی ہی ایک رپورٹ کے
مطابق جون 2019 میں یہ قرضہ 103ارب ڈالر یعنی کم و بیش 1325ارب روپے تک بڑھ
جائے گا۔ آئی ایم ایف سے قرضہ لینے کے بعد کسی بھی ملک کی منتخب حکومت کو
آئی ایم ایف کے پالیسی میکرز کی تشکیل کردہ پالیسیز اور پروگرامز کو بھی
قبول کرنا پڑتا ہےجیسا کہ اس بار ہو رہا ہے کہ پاکستانی وزیر خزانہ ہاتھ
جوڑ کر آئی ایم ایف سے 7 سے 8 ارب ڈالر تک کی بھیک عرصہ تین سال کے لیے
مانگیں گے اور ممکن ہے کہ 8ارب ڈالر کے علاوہ اسی سال 2018کے اختتام پر
ایسی ہی رقم کی بھیک دوبارہ بھی مانگی جائے، اس قرضے کی درخواست کے منظور
ہونے کے بعد آئی ایم ایف کا وفد پاکستان کا دورہ کرے گا اور وہ اپنےساتھ
چند شرائط یا تجاویز کے نام پر پاکستان کی غریب ، سسکتی اور بلکتی عوام کے
لیے کچھ نئے احکامات لے کر آئے گا جو پہلے سے تنگ حال اور پریشان
پاکستانیوں کے مستقبل کو مزید تاریک کر دیں گی۔ یہی بات اس قرضے کی سب سے
زیادہ خوفنا ک حقیقت ہے ۔ یعنی یہ کسی ہندو بنیے کے اس سُود جیسا قرضہ ہے
کہ جس کی پرنسپل اماؤنٹ تو قرض لینے والے نے واپس کرنی ہی ہے ، اسکے اوپر
مسلسل بڑھتا ہوا سُود بھی قرضدار کو واپس کرنا ہے لیکن اسکے ساتھ ساتھ
قرضدار کی عزت بھی کسی صورت محفوظ نہیں رہے گی۔ وہ ہٹ دھرم بُنیا قرض دار
کی مجبوری کا فائدہ اٹھاکر اس سےاور بھی بہت سے کام مفت میں کروائے گا۔ وہ
دیکھے گا کہ قرض دا ر کیا کام کرتا ہے اور پھر وہ کام مفت میں ڈرا دھمکا کر
کروالیا کرے ، ساتھ ہی ساتھ قرض دار کے گھر پر بھی نظر رکھے گا ۔
اس حوالے سے ہمیں یہاں آئی ایم ایف کی ایک حالیہ رپورٹ پر نظر ڈالنی چاہیے
، یہ رپورٹ 6اکتوبر 2018 کو دنیا نیوز پیپر میں بھی پہلےصفحے پر شائع ہوئی
ہے جس کے مطابق آئی ایم ایف نے دعوی کیا ہے کہ پاکستان کو تیل کی قیمتیں
مہنگی ہونے کی پیش نظر آگے مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گااور پاکستان
میں نئی حکومت کا بجلی اور گیس کی قیمتیں بڑھانا نہایت احسن اقدام ہے ، اس
کے علاوہ اگر تحریک انصاف کی حکومت قرضہ لینے کے لیے آئی ایم ایف کا رخ
کرتی ہے تو پاکستانی روپے کی قدر امریکی ڈالر کے مقابلے میں مزید گرا کر
اپنی قومی کرنسی کو داغدار کرنے، بینکوں کی شرح سُود میں اضافہ کرملکی
معیشت پر کچوکے لگانے، پاکستان میں اداروں کا سرکاری کنٹرول کم کر کے
ریاستی بالادستی کو سرنگوں کرنے اور مزید ٹیکس لگا کر غریب عوام کا خُون
چوسنے جیسی شرائط پر پاکستان کو عمل درآمد کرنا ہوگا۔اسکے ساتھ ہی پاکستان
کو اپنے وہ تمام ریاستی ادارے جو خسارے میں چل رہے ہیں انکی نجکاری یعنی
انکا کنٹرول پرائیویٹ سرمایہ کاروں کے ہاتھوں میں دینا ہوگا۔ یعنی وہ پبلک
انسٹی ٹیوشنز جن پر آپ کا اور میرا ، ہم سب پاکستانیوں کا یکساں حق ہے ان
پبلک انسٹی ٹیوشنز کو غیر ملکی طاقتور بین الاقوامی اداروں کی ایماء پر غیر
سرکاری سرمایہ داروں کے حوالے کر دیا جائے گا۔ تو اب ان حقائق کے پیش نظر
آپ خود اندازہ لگائیں کہ جب کوئی بھی حکومت ، چاہے وہ سابقہ حکومت تھی چاہے
موجودہ ، کسی بھی انٹرنیشنل ایجنسی سے قرض لینے کا فیصلہ کرتی ہے وہ
درحقیقت کس طرح اپنی عوام کے مقدر کے ساتھ کھیلتی ہے، وہ کس طرح اپنے دور
حکومت میں پوائنٹ سکورنگ کی غرض سے پوری قوم کا مستقبل داؤ پر لگا کر اسے
غلام بنا دیتی ہے۔
آئی ایم ایف سمیت دیگر بین الاقوامی ادارے جو قرض دیکر قوموں خاص کر تھرڈ
ورلڈ کنٹریز یعنی عرف عام میں ترقی پذیر یا پسماندہ ممالک کو اپنا غلام
بناتے ہیں انکے حوالے سے ایک نہایت موزوں ریسرچ آرٹیکل جو بہت عرصہ قبل
انڈین ریسرچ سکالر Biplab Dasguptaکی جانب سے لکھا گیا اور عالمی جریدے
Economic and political weekly کے والیم 32 میں شائع کیا گیاہے وہ پڑھنے
لائق ہے تاکہ ہمیں اندازہ ہو سکے کہ ترقی یافتہ ممالک کس طرح ترقی پذیر
ممالک کے معاشی استحکام اور ترقی کے جھوٹے خواب دکھا کر انہیں زر خرید غلام
بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر اس میں کامیاب بھی ہو جاتے ہیں۔
|