عام فہم میں ایک جملہ بولا جاتا ہے کہ خدا کبھی بھی تھانہ
کچہری اور ہسپتال لیکر نہ جائے،عام طور پر معاشرے میں بولے جانے والے سادہ
سے اس محاورے اس نظام کی عکاسی ہوتی ہے جسے وہ محسوس کرتے ہیں،میرے ایک
جاننے والے کو سعودی عرب سے ڈی پورٹ کر کے پاکستان واپس بھیجا گیا،میری اس
سے ملاقات ہوئی تو میں نے سعودی عرب میں گزرے دنوں کا احوال پوچھا تو اس کا
کہنا تھا کہ جتنے ہفتے اس نے سعودی عرب کی جیل میں گزارے ہیں وہی بہترین دن
تھے،گویا اس کی زبان سے ادا ہونے والے جملوں سے یہ سمجھنے میں آسانی ہو رہی
تھی کہ اﷲ تھانہ کچہری اور ہسپتالوں سے بچائے یہ خالصتاً کہیں پاکستانی
معاشرے کے بارے میں ہی ہیں،مگر اب کی بار میں بھی اس محاورے،جملے کی تردید
کرنے کے قابل ہو گیا ہوں کہ اب اس جملے میں سے ہسپتالوں کے لفظ کو منہا کر
دیا جائے تو بہتر ہو گا،کیونکہ ایک لمبے عرصہ بعد میرا کسی بھی سرکاری
ہسپتال سے آدھی رات کو واسطہ پڑا ہے،ایک ایسی ہسپتال جس کے بارے میں کبھی
کسی نے تعریف نہیں کی،8اکتوبر2005کے زلزلہ کے بعد سے سب سے زیادہ اخبارات
اور ٹی وی چینلز پر یہی ہسپتال زیر بحث رہی ہے،بلکہ چند ماہ قبل چیف جسٹس
آف پاکستان جسٹسثاقب نثار صاحب نے بھی اپنے ہنگامی دورہ بالاکوٹ کے دوران
سب سے پہلے اسی ہسپتال کا دورہ کیا تھا،جی ہاں یہ ہسپتال تحصیل بالاکوٹ کا
واحد اکلوتا ہیڈ کوارٹر ہسپتال ہے جو آج بھی ایک کرائے کی عمارت میں چل رہا
ہے،اس ہسپتال کی اسی ایک کرائے کی عمارت میں چلائے جانے کی تعریف سے ہی ذہن
میں یہ خیال ابھرتا رہا ہے کہ ہسپتال ،عملہ اور مریضوں کی اپنی حالت کیا ہو
گی؟؟مگر میرا یہ تااثر اس وقت ختم ہو گیا جب میں اپنے گردے میں ہونے والی
تکلیف کے باعث گزشتہ ہفتے آدھی رات کو اس ہسپتال یعنی سول ہسپتال بلکہ
تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال پہنچا تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کیونکہ
ہسپتال میں لائیٹنگ احساس دلا چکی تھی کہ میں کسی بھوت بنگلے یا آسیب زدہ
مقام پر نہیں بلکہ جس مقام پر ہوں وہاں کسی ذی شعورکی موجودگی کے آثار
ہیں،ہسپتال کے احاطہ سے گزر کر ڈاکٹر صاحب کے کمرے تک پہنچا تو وہاں کسی
اجنبی چہرے نے میرا استقبال کرتے ہوئے میری خیریت دریافت کی اور داکٹر صاحب
کے کمرے میں داخل کر دیا جہاں مجھ سے پہلے کمرے میں موجود ایک روحانی اور
پرنور چہرے والے ڈاکٹر صاحب ایک اور مریض کیلئے کوئی نسخہ تجویز کر رہے
تھے،میری باری آنے پر ڈاکٹر صاحب نے میرا بڑے انہماک،دلجمعی اور خوب سوالات
اور میرے جوابات کے ساتھ معائنہ کیا اور مجھے فوری طور پر وارڈ منتقل کر
دیا،وارڈ کی حالت دیکھ کر پہلے مجھے اپنی آنکھوں پر قطعی یقین نہیں آ رہا
تھا کہ واقعی یہ میرے شہر کا وہ ہسپتال ہے جسے عموماً میں اور میرے ہمراہ
دیگر دوست 8اکتوبرکو ہر سال زلزلہ کی برسی پر دیکھنے اور دنیا کو دکھانے
آیا کرتے ہیں؟؟ صاف شفاف ماحول میں چٹی سفید چادریں اور تکیہ لگے بیڈ پہلے
تو کسی فائیو سٹار ہوٹل کا کمرہ دکھائی دے رہے تھے مگر میرے ساتھ میرے
چھوٹے بھائی نے مجھے ہلا کر ہوشیار کیا کہ بھائی صاحب یہ تحصیل ہیڈ کوارٹر
بالاکوٹ کا ہسپتال ہے جس کے بارے میں آپ عمومی شکوے ہی لکھتے ہیں،وارڈ میں
موجود عملہ نے مجھے بیڈ پر لٹایا،میری ڈاکٹرز صاحب کی جاری ہدایات کے مطابق
ٹریٹمنٹ کی،ڈرپ بھی لگائی ،اس سارے عمل میں سے میرے لیے سب سے حیران کن عمل
یہ تھا کہ میرا واسطہ سب انجان چہروں سے تھا،شاید ہی رات کے اس پہر کوئی
مقامی یہاں پر موجود ہو،سب بیچارے پردیسی تھے اور مجھے ایک سرنج تک باہر
کسی میڈیکل سٹور سے خرید نہیں کرنی پڑی،تمام ادویات ہسپتال ہی سے لائی گئیں
اور میری ٹریٹمنٹ کی گئی،باخدا میں نے ہسپتال میں جتنا وقت بھی گزارا مجھے
دلی خوشی ہوئی کہ واقعی مسیحائی ابھی جاگ رہی ہے،ہمارا معاشرہ ابھی بے حس
نہیں ہوا،ابھی انسانیت زندہ ہے، قلم کے ذریعے کسی کے بارے میں دو اچھے لفظ
بولنا سب سے زیادہ مشکل ہے مگر میں وہ لکھ رہا ہوں جو مجھ پہ بیتی ہوئی
ہے،مجھے کسی نے یہ نہیں بتایا کہ وہ یہ دیکھ کر آیا ہے،بلکہ میں وہ لکھ رہا
ہوں جو میں خود اپنی آنکھوں سے دیکھ کر آیا ہوں،میں نے اپنے جس بھی جانے
والے سے اس بات کا ذکر کیا تو اس نے ایک عام سے سنا سنایا یہی جملا دہرایا
کہ تحریک انصاف حکومت کی تبدیلی ہے۔۔مگر میں کہتا ہوں کہ ایسا ہر گز
نہیں،کیونکہ ایوب میڈیکل کپلکس،کنگ عبد اﷲ ہسپتال
مانسہرہ،بٹگرام،کوہستان،تورغر،ہریپور اور ہزارہ ڈویژن سمیت پورے صوبہ کے
ہسپتالوں کی خبریں روزانہ سامنے آتی ہیں،ابھی پچھلے ہی دنوں کنگ عبد اﷲ
ہسپتال مانسہرہ کے ڈاکٹرز کے ناروا رویوں کے حوالے سے میڈیا میں ایک واقعہ
بڑا ہائی لائٹ ہوا کہ ایک لاوارث مریض کو ہسپتال سے نکال کر باہر فٹ پاتھ
پر بٹھا دیا جہاں وہ انسانی ہمدردی کا منتظر تھا اور چند اﷲ والوں نے اسے
اٹھا کر نہ صرف دوبارہ ہسپتال منتقل کیا بلکہ شدید احتجاج بھی کیا اور اگر
واقعی تحریک انصاف ہی کی تبدیلی کا نتیجہ ہوتا تو ایسا ہر گز نہیں
ہوتا،بالاکوٹ کا سول ہسپتال خالصتاً انتظامی ذمہ داریوں،اپنی فرض شناسی اور
ان نیک دل انسانوں کی ذاتی لگن ہے جو اپنا رزق حلال کر کے اپنے بچوں کو
کھلا رہے ہیں،انہیں کسی حکومت نے مجبور نہیں کیا بلکہ انہیں حکومت نے صرف
ادویات و سہولیات سے مزین کیا ہے باقی انسانی ہمدردی اور ڈیوٹی ان کے ٹیم
ورک اور اچھے و ذمہ دار نگرانوں ہی کے مرہون منت ہے جہاں ڈاکٹر ضیاء الحق
صاحب جیسے فقیر منش،ڈاکٹر شائستہ یوسف جیسے ہمدرد،ڈاکٹر زیاد جیسے سچے لوگ
ٹیم کا حصہ ہوں تو وہاں کسی کو ذمہ داریوں کا احساس دلانے کی ضرورت محسوس
نہیں ہوتی،وہاں احساس رکھنے والے خود دکھ ،درد محسوس کرتے ہیں ،دوسری جانب
تحریک انصاف حکومت کی ان کوششوں کو بھی سراہا جانا ضروری ہے جہاں انہوں نے
کہیں نہ کہیں اپنے دعوؤں پر ایک حد تک عملدرآمد یقینی بنایا اور
بعضہسپتالوں میں انقلابی تبدیلیاں آئیں، ایسے ہسپتالوں میں جدید آلات،
ڈاکٹر وقت پر موجود، محکمہ صحت کیلئے قانون سازی اور انصاف صحت کارڈ کو
متعارف کروانا، ان سب عناصر نے پختونخوا ہ میں صحت کے شعبے کو ترقی کی نئی
بلندیوں پر پہنچایا،سرکاری ہسپتالوں کو اس طرح سے تبدیل کیا گیا ہے کہ عوام
کو نجی ہسپتالوں میں جانے کی بھی ضرورت نہیں رہے گی، ان سرکاری ہسپتالوں
میں اس قدر جدید مشینری کا ہونا سا لگتا ہے،ویسے بھی خیبر پختونخواہ کے
سرکاری ہسپتالوں میں ڈاکٹرز کی کارکردگی پہلے سے بہت زیادہ بہتر ہے، ان کو
پر کشش تنخواہیں اور دیگر سہولیات دی جا رہی ہیں، اس لییڈاکٹرز بخوشی کام
کر رہے ہیں اور اسکی وجہ سے عوام کا سرکاری ہسپتالوں میں بہترین علاج یقینی
ہوتا جا رہا ہے،میرا متعدد بار ایوب میڈیکل کمپلکس سے بھی واسطہ پڑا ہے
مجھے وہاں بھی ماحول بدلا بدلا سا لگتا ہے،بلاشبہ جب تک مسیحائی رہے گی
وہاں انسانیت رہے گی،میں پاکستان کے ہر اچھے اور محب وطن پاکستانی کیلئے
دعا گو ہوں جو اپنے ملک،اپنے لوگوں اور اپنے شعبہ کے بارے میں اچھی سوچ
رکھتا ہے۔ |