المیہ آٹھ اکتوبر

کھبی حوصلہ نہ ہوا۔کھبی قلم میں اتنی ہمت نہ ہوئی ۔8 اکتوبر لکھ سکو ۔یہ وہ دن ہے جو میں کھبی نہیں بھول سکتا۔کھبی ہمت نہ ہوئی اس واقع کی منظر کشی کر سکو۔ یہ وہ واقع ہے میں خود اس میں شامل تھا ۔ رمضان المبارک کا پاک مہینہ ۔کچھ حادثے ہوتے ہیں۔جو انسان بیان کر سکتا ہے ۔ یہ وہ المیہ جس بیان کرنا اور لکھنامشکل ہے ۔ اس کو بیان کیلے میری قلم میں طاقت نہیں ۔حوصلہ نہیں ۔زندگی میں کھبی نہیں چاہوں گا ایسے واقعات ہوں ۔اﷲ ہر ملک قوم کو ان سے محفوظ رکھے امین ۔8 اکتوبر 2005 ایک خوشگوار دن کی صبح۔کسی نے نہیں سوچا تھا آج کیا ہونے والا ہے ۔ آج ماں کے بیٹے ۔بہنوں کے بھائی۔باپ کے بچے ۔ بیٹوں کے والدین ۔بھائیوں کی بہنیں جدا ہو جائے گی۔ آٹھ اکتوبر 2005کا زلزلہ ۔جس نے ہزارہ اور آزاد کشمیر میں وہ قیامت برپا کی۔جس میں تاریخ میں مثال نہیں ملتی جو ہوا تھا بھولنا اتنا آسان نہیں تھا جب ایک ہنستی مسکراتی صبح قیامت میں تبدیل ہوگئی تھی۔جہاں بڑی تعداد میں بچے اپنے سکولوں میں ہی دفن ہو گئے وہیں بچ جانے والے ننھے دماغوں پرگہرے نقوش ثبت ہو گئے ۔ بچوں کے کھیل بھی زلزلے کی ہی کہانیوں کے اردگرد گھومنے لگے سڑکوں پر چلتی کئی گاڑیاں مسافروں سمیت دریا ئے نیلم کی نذر ہوگئیں ۔ دریائے نیلم اور جہلم پر بنے بل ٹوٹ گے دفاتر ، مارکیٹیں اور تعلمی ادارے چند سیکنڈز میں زمیں بوس ہوگے ہر طرف چیخ و پکار تھی۔ایک قیامت تھی جو آ کر گزر گئی تھی۔ لوگ سکتے کی کیفیت میں تھے ایک ہی جھٹکے میں لاکھوں مکانات زمین بوس ہو گئے ۔کچھ بد نصیب ایسے کے سکول سے ان کے بچے تو نہیں صرف بیگ ہی ملے ۔ کوئی ماں بچے کو بچاتے ہوئے کودیواروں تلے دب گئیں اور کوئی باپ بڑھاپے میں سہارے سے محروم ہوگیا ۔ مظفرآباد کے موجودہ پوسٹ گریجویٹ کالج میں جواں طالب علموں کے لاشے بکھرے پڑے تھے ۔ میں کالج میں اپنے بتیجھے ذیشان کو ڈونڈ رہا تھا لیکن مجھے ہر بچہ ذیشان لگ رہا تھا ۔ دنیا میں قدرتی آفات کا سلسلہ جاری ہے ، برفانی و سمندری طوفان، موسلادھار بارشیں، قیامت خیز زلزلے وقفوں وقفوں سے زمین پر قدرت کی مکمل بالادستی کا ثبوت دیتے رہے ہیں اور دے رہے ہیں-

ہزارہ خیبر پختونخوا اسلام آباد ،آزاد کشمیر اور صوبہ پنجاب میں ۷،۶ ریکٹر اسکیل کی شدت سے آنے والا زلزلہ پاکستان کی تاریخ کا بدترین اور 2005ء میں دنیا کا چوتھا بڑازلزلہ تھا۔ زلزلہ بروز ہفتہ پیش آیا، جو علاقہ میں عام دن تھا اور تقریباً سکول اس دوران کام کر رہے تھے ۔ اسی وجہ سے یہاں زیادہ ہلاکتیں سکولوں اور ہلاک ہونے والوں میں بڑی تعداد بچوں کی ۔ زیادہ تر بچے منہدم ہونے والی سکول کی عمارتوں کے ملبے تلے دب گئے ۔ قصبے اور گاوں صفحہ ہستی سے مٹ گئے ۔ جبکہ مضافاتی علاقوں میں بھی بڑے پیمانے پر مالی نقصان ہوا……

متاثرین کاروباری لوگوں کے کاروبار تباہ ہو گے ۔ان کی اس سلسلے میں کوئی خاص مدد نہ کی گی۔ وہ لوگ ابھی تک قرض دار ہیں ۔لوگوں کا سب کچھ تباہ ہوا۔ ان لوگوں کو کسی قسم میں ترجیح بنیاد پر زورگار کے لیے کوئی اقدام نہ کئی گے ۔کہی ملین لوگ بے گھر ہوئے ۔ پہاڑی علاقے میں آنے والے زلزلے بڑے پیمانے پر لینڈ سلائیڈنگ کی جس کی وجہ سے مواصلات کا نظام مکمل طور پر تباہ ہو گیاایک اندازے کے مطابق 5 ارب ڈالر کی مالیت کا نقصان ہوا، جو تقریباً 400 ارب پاکستانی روپے بنتے ہیں شدید زلزلے کے نتیجے میں سب سے زیادہ ہلاکتیں آزاد کشمیر اور ہزارہ صوبہ خیبر پختونخوا میں ہوئیں، جہاں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق کل ہلاکتیں 74,698 تھیں سوا لاکھ سے زائد لوگ شدید زخمی ہوئے ہزاروں ایسے بد قسمت لوگ جو ہمیشہ کے لئے معذور ہو گئے تھے آج بھی ٹوٹے اعضاء گھسیٹتے نظر آتے ہیں پاکستان کے ہر شہری کے ہر لحاظ سے بھر پور تعاون کے ساتھ ساتھ دنیا بھر سے اربوں ڈالر کی امداد الگ سے آئی۔بے شمار ملکی اور غیرملکی رضاکار ادارے اور کارکن بھی دن رات مصروف رہے تھے آج بالاکوٹ شہر پر نظر دوڑائیں تو ہر طرف پہاڑوں پر اور ان کے دامن میں سفید اور نیلے رنگ کے ایک جیسے ہزاروں عارضی گھروں کی ایک وسیع بستی نظر آئیگی۔ یہ تمام گھر سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی جانب سے لوگوں کو بنا کر دیئے گئے ہیں ۔یہاں کے بہت سے لوگ اب انہی عارضی گھروں میں رہ رہے ہیں۔آزاد کشمیر کا دارالحکومت مظفرآباد زلزلے میں سب سے زیادہ تباہ ہونے والے علاقوں میں سے ایک تھا۔ یہاں اموات بھی بہت زیادہ ہوئی تھیں-

ترکی نے حکومتی سیکریٹریٹ اور ایک عالیشان مسجد تعمیر کی ہے ۔ سعودی عرب نے یونیورسٹی اوربڑا ہسپتال بنایا ہے جبکہ متحدہ عرب امارات کی جانب سے بھی جدید ہسپتال بنایا گیا ہے ۔ سکولوں اور کالجوں کی تعمیر نو بھی انہی ممالک کی جانب سے کی جاری ہے مشکل کی اس گھڑی میں بڑی تعداد میں غیر ملکی امدادی کارکن اور ڈاکٹروں نے بھی پاکستان کا رخ کیا جن میں بڑی تعداد کیوبا سے آئے ہوئے طبی عملے اور ڈاکٹرز کی تھی کیوبا کے اس وقت کے سربراہ فیدل کاسترو نے ایسے میں کشمیر کے طلبہ کے لیے سکالر شپ کا اعلان کرتے ہوئے یہاں کے ایک ہزار طلبا کو ڈاکٹر بنانے کا اعلان کیا۔زلزلے کے بعد متاثرہ علاقوں میں تعمیرِ نو کا سلسلہ عالمی امدادی اداروں کی مدد سے شروع تو ہوا لیکن ۳۱ برس بعد آج بھی ان علاقوں میں جہاں پوری طرح تعلیمی ادارے ہی دوبارہ بن پائے وہیں صحت اور حکومت کے نظاموں کی بحالی مکمل نہ ہو سکی۔ایک بڑی آبادی ایسے عارضی شیلٹروں میں زندگی گزارنے پر مجبور ہے جس میں دس دس فٹ کے صرف دو کمرے ہیں بالاکوٹ شہر اسی جگہ آباد ہے جہاں اس شہر کو اب نہیں ہونا چاہیے تھا۔ پرانا بالاکوٹ جہاں واقع ہے وہ جگہ زلزلے کی فالٹ لائن پر ہے اور ۳۱ سال پہلے حکومت نے یہاں سے کوئی 30 کلومیٹر دور ایک نیا بالاکوٹ شہر آباد کرنے کا منصوبہ بنایا تھااس نئے بالاکوٹ کے منصوبے کے لیے زمین بھی خریدی گئی کام بھی کسی حد تک شروع ہوا لیکن لوگوں کو وہاں آباد نہیں کیا جا سکا ۔ پرانے بالاکوٹ میں زلزلے کے بعد نئے مکان بھی تعمیر ہوئے ہیں اور کاروبار زندگی بھی جاری ہے لیکن لوگوں میں سخت بے یقینی کی صورتحال پائی جاتی ہے ۔شہروں کے مکین اپنے ان پیاروں نہیں بھلا پائیں گے ،جو ان سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جدا ہو کر ان قبرستانوں میں آبسے ہیں ۔ بے شمار اداروں کے ساتھ ساتھ کئی سیاسی پارٹیوں کے لوگ بھی متحرک رہے تھے ، جن کی خدمات کو آج بھی یاد کیا جاتا ہے افواج پاکستان کے جوانوں اور افسروں بھر پور طریقے سے متاثرین کی دن رات ایک کرکے مدد کی۔جس کو لوگ آج بھی یاد کرتے ہیں ِ

Syed Kamal Shah
About the Author: Syed Kamal Shah Read More Articles by Syed Kamal Shah: 4 Articles with 3237 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.