جب بھی کوئی حکومت اپنے مخالفین کو کچل دینے کی راہ پر
نکل کھڑی ہوتی ہے تو پھر وہ اپنے محور سے ہٹ جاتی ہے۔در اصل لیڈر شپ کو
اپنے اہداف پر نگاہیں جمانی چائیں تا کہ وہ تمام تشنہ خواب جو عوام کی
آنکھوں میں ستارے بن کر جلملاتے ہیں وہ پایہ تکمیل کو پہنچ جائیں ۔کسی قوم
کی اس سے بڑی بدقسمتی اور کوئی نہیں ہو سکتی کہ اس میں یکجہتی کا عنصر
مفقود ہو جائے۔جب نفرتیں اور کدورتیں دلوں میں گھر کر جاتی ہیں تو پھر قوم
یکمشت نہیں رہتی بلکہ گروہوں اور طبقات میں تقسیم ہو جاتی ہے۔سیاسی اختلاف
رکھنا ایک بات ہے جبکہ سیاست کے نام پرنفرت کو فروغ دینا دوسری بات ہے اور
آجکل حکومت نے دوسری ترجیح کو وطیرہ بنایا ہوا ہے۔لیبیا ،یمن او رشام میں
یہی نفرت اپنے ثمرات دے رہی ہے ۔ جس سے اپوزیشن اور حکومت ایک دوسرے کے مدِ
مقابل کھڑے ہوگے ہیں جس سے ملک خانہ جنگی کی لپیٹ میں چلا گیا ہے اور کشت و
خون روزمرہ کے معمولات بن چکے ہیں ۔کوئی مرکزی اٹھارٹی نہیں رہی جو تمام
شہریوں میں قابلِ قبول ہو لہذا خونِ انساں پانی کی طرح بہہ رہا ہے۔ تقسیم
ہمیشہ سے ہی ترقی کی دشمن رہی ہے لہذا اس سے اجتناب ضروری ہوتا ہے۔سیاسی
استحکام کیلئے ضروری ہوتا ہے کہ تقسیم اور نفرتوں کو کم کیا جائے لیکن جب
کسی کو بے جا دیوار کے ساتھ لگایا جائے گا تو پھر انتشار اور بد امنی تو
ضرور جنم لے گی جو قومی ترقی کو معکوس کر دے گی۔پی ٹی آئی کا نعرہ کرپشن کا
خاتمہ،گڈ گورنس اور لوٹی ہوئی دولت کی واپسی تھی لیکن بدقسمتی سے اس کی
ترجیحات میں یہ تینوں نکتے نہیں ہیں ۔میڈیا کی حد تک تو بہت زورو شور ہے
لیکن زمینی حقائق میڈیا کے اٹھائے گے شورو غوغہ سے کوئی مطابقت نہیں
رکھتے۔پی ٹی آئی کی حکومت ٹھوس اقدامات کی بجائے نمائشی اقدامات میں زیادہ
دلچسپی رکھتی ہے جو وعدوں کی تکمیل میں ان کی سب سے بڑی رکاوٹ بن کر کھڑی
ہے ۔باتوں سے دل مولینا اور عمل سے دلوں میں گھر کرنا دو الگ کیفیتیں ہیں
جن کاآپس میں کوئی موازنہ نہیں کیا جا سکتا ۔ احتساب بیو رو بھی اپوزیشن کو
رگیدنے میں لگا ہوا ہے۔احتساب بیورو اپوزیشن کو نیچا دکھانے کیلئے کوئی
دقیقہ فرو گزاشت نہیں کررہا ۔ احتساب عدالت میں جس طرح سے قانون و انصاف سے
صرفِ نظر کیا گیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔سابق وزرائے اعظم سید یوسف رضا
گیلانی اور راجہ اشرف پرویز کے خلاف بھی کرپشن مقدمات ہیں جو پچھلے کئی
سالوں سے زیرِ سماعت ہیں لیکن ان مقدمات میں نہ تو چھٹیوں میں اور رات کو
کاروائی کا حکم دیا جاتا ہے، نہ اس کے لئے کسی سپریم کورٹ کے کسی جج کا
خصوصی تقرر کیا جاتا ہے اور نہ ہی فیصلہ سنانے کیلئے کوئی ڈیڈ لائن دی جاتی
ہے ۔عدالتوں میں سب کیلئے ایک ہی یارڈ سٹک (پیمانہ ) ہونا چائیے ۔مخالفین
کوطے شدہ ایجنڈہ کے تحت سزائیں سنانے کا سلسلہ اب بند ہو جانا چائیے۔اگر
دوسرے ملزمان کیلئے استثنی ضروری ہے تو پھر سو پیشیاں بھگتنے والے سابق
وزیرِ اعظم میاں محمد نواز شریف کی فیملی کو استثنی سے مبراکیوں سمجھا گیا؟
ایک طرف بیگم کلثوم نواز زندگی اور موت کی کشمکش میں تھیں اور ان کے خاندان
کیلئے استثناء انتہائی ضروری تھا لیکن انھیں نہیں دیا گیا کیونکہ ان کے
خلاف فیصلہ انتخابات سے قبل ضروری قرار ر دیا گیا تھا تا کہ من پسند نتائض
حاصل کئے جا سکیں۔مقصد ایک جماعت کو دیوارکے ساتھ لگانا تھا اور اسے لگا
دیا گیا لیکن وہی جماعت پھربھی ایک کروڑ اٹھائیس لاکھ ووٹ لے گئی جو کہ ان
قوتوں کے لئے لمحہِ فکریہ ہے جو اس جماعت کو ہمیشہ کیلئے دفن کرنا چاہتی
تھیں۔
ایک بیٹی اور ایک خاوند کے جذبات و احساسات کو یکطرفہ احتساب کے نام پر جس
طرح کچلا گیا وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے ۔بیگم کلثوم نواز کی بیماری کے
نام پر جس طرح اخلاقیات کا جنازہ نکالا گیا اس پر پوری قوم کا سر شرم سے
جھک گیا ہے۔اب بیگم کلثوم نواز اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن شریف فیملی کو ان
کی عیادت اور تیمار داری کیلئے ان کے آئینی اور قانونی سہولت سے محروم کیا
گیا وہ سمجھ سے بالا تر ہے۔یہ زندگی عارضی ہے اور ہر کسی کو اس دنیا سے چلے
جانا ہے لیکن ہمیں ایسی اعلی روایات قائم کرنی چائیں جس پر ہمیں بعد میں
شرمندگی کا سامنا نہ کرنا پڑے ۔اسلام تو روادری اور در گزر کا مذہب ہے جو
دوسروں کے حقو ق کی پاسداری کا درس دیتا ہے لیکن شریف فیملی کے ساتھ اس
معاملے میں انصاف نہیں کیا گیا ۔چند دنوں کے استثنی سے کوئی آسمان نہیں
گرنے والا تھا لیکن اس سے انکار کیا گیا جسے عوام نے مستحسن نہیں سمجھا
بلکہ اس طرزِ عمل کی سب نے تنقید کی ۔کچھ لوگ جوتعصب کی عینک پہنے ہوتے ہیں
ان کا معاملہ دوسرا ہے۔وہ انسانی سوچ،اخلاقیات ،اقدار اور اور اس کے تقاضوں
سے بے بہرہ ہوتے ہیں ۔ وہ اپنے نظریات خیالات میں اتنے رجعت پسندہوتے ہیں
کہ ان سے کسی بھی موضوع پر بات کرنا بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف
ہوتاہے۔وہ اپنے دلائل میں متشدد ہی نہیں ہوتے بلکہ غیر لچک دارانہ رویہ بھی
رکھتے ہیں،وہ انتہائی تنگ نظر ہوتے ہیں لہذا کوئی دلیل ان کے دل و دماغ میں
اپنی جگہ نہیں بناتی۔جوا نسان دلائل سے آنکھیں چرا لے اس سے بات نہ کرنا ہی
زیادہ مناسب ہو تا ہے ۔احتساب سے کسی کو اختلاف نہیں ہے ۔بشرطیکہ احتساب
اصلی ہو۔میٹھا میٹا ہپ ہپ کڑوا کڑوا تھو تھو ناقا بلِ قبول ہے۔ احتسا ب جب
انتقام میں ڈحل جائے تو قومیں تباہ ہو جاتی ہیں۔ہم نے احتساب کو انتقام میں
ڈھلتے ہوئے دیکھا ہے جس کا کوئی نتیجہ برآمد نہ ہوا بلکہ الٹا قوم منتشر
اور کمزور ہوئی جس سے ملکی ترقی مزید تنزلی کا شکار ہوئی۔ہم نے اس سے قبل
بھی کئی ایسے مناظر دیکھے ہیں جس میں مخالفین کا جینا دوبھر کر دیا گیا تھا
۔ نگران وزیرِ اعظم معین قریشی اور میاں معراج خالد نے اپنے دور میں احتساب
کا نعرہ بلند کیا لیکن چند ہی مہینوں کے بعد اسے ترک کر دیا گیا کیونکہ وہ
یک طرفہ تھا۔ سابق صدر غلام اسحاق خان نے کرپشن کے نام پر دو حکومتوں کو
برخاست کیا لیکن وہ سب ذاتی انتقام کا شاخسانہ تھیں اس لئے نتائج نہ دارد۔
محترمہ بے نظیر بھٹو توجنرل ضیا لحق کی آمریت میں قیدو بند کی صعوبتوں سے
گزریں جبکہ میاں محمد نواز شریف اور سابق صدر غلام اسخاق خان نے اسٹیبلشمنٹ
کے ساتھ مل کر انھیں سخت زچ کیا ۔وہ نالاں تو بہت تھیں لیکن انہوں نے پوری
جراتوں سے ان کا مردانہ وارمقابلہ کیا اور سرخرو ہو کر نکلیں۔لیکن ظالموں
نے انھیں پھر بھی چین سے جینے نہ دیا ۔انھوں نے میثاقِ جمہوریت سے انتقام
کا ڈنگ تو نکالا لیکن انا کے پجاری پھر بھی باز نہ آئے اور ان کی زندگی کا
چراغ گل کر کے دم لیا۔جنرل حمید گل ساری عمر اس بات کو ببانگِ دہل کہتے رہے
کہ انھوں نے پی پی پی کا راستہ روکنے کیلئے اسلامی جمہوری اتحاد بنوایا تھا
کیونکہ وہ پی پی پی کو سیکورٹی رسک سمجھتے تھے۔آصف علی زرداری ہر بار تشدد
کا نشانہ بنے جس میں سردار فاروق خان لغاری،میاں محمد نواز شریف اور جنرل
پرویز مشرف پیش پیش تھے ۔انھیں گیارہ سالوں تک مختلف جمہوری ادوار میں
زندانوں میں محبوس رکھا گیا لیکن سوائے تاسف اور پچھتاوے کے کچھ بھی ہاتھ
نہ آیا لیکن اس بے رحمانہ طرزِ عمل سے آصف علی زرداری،ان کی اہلیہ اور ان
کی اولاد نے جس طرح نقصان اٹھا یا اس کاحساب کون دے گا ؟ ذاتی مخالفت میں
ساری حدیں پار کر جانا ہمارا قومی شعار بن چکا ہے جس پر ترقی کے اس جدید
دور میں اب نظر ثانی ہونی چا ئیے اور اس غیر انسانی رویہ کو د فن ہو جانا
چائیے ۔پاکستان میں ایک جانب حکومت تبدیل ہو تی ہے تو دوسری جانب مخا لفین
کیلئے جیلوں کی صفائی شروع ہو جاتی ہے لیکن ہاتھ کچھ نہیں آتا اس مشقِ بے
کار سے کیا حاصل جس سے قوم تو تقسیم ہو جائے لیکن ہاتھ کچھ نہ آئے ۔ اب کی
بار قرعہِ فال میاں محمد شہباز شریف کے نام کا نکلا ہے اور انھیں دبوچ لیا
گیا ہے۔جس بھونڈے انداز میں ان کی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے اسے سب نے
نا پسند کیا ہے ۔ایک نام نہاد ٹھیکے کی منسوخی کی سزا اتنی سنگین ہو سکتی
ہے کہ اپوزیشن لیڈرکو دھوکہ سے گرفتار کر لیا جائے؟وہ تو مصالحت پسندی کا
داعی تھا لیکن پھر بھی اسے زنجیروں کا ہار پہنا دیا گیا کیونکہ کسی اور کی
خوشنودی کی خاطر ایسا کرنا ضروری تھا ۔،۔
|