وزیر اعظم جناب عمران خان صاحب نے الیکشن سے قبل بھی اور
خاص طور پر الیکشن جیتنے کے بعد کئی بار پاکستان کو ”ریاست مدینہ“ بنانے کے
عزم کا اظہار کیا۔ اور ریاست مدینہ کے کچھ کارناموں کا ذکر بھی کیا۔ لیکن
ایک عام پاکستانی شہری بالخصوص ایک عام مسلمان کے ذہن میں یہ سوال ابھرتا
ہے کہ ریاست مدینہ کیا ہے۔ اتنی بات تو ہر مسلمان جانتا ہے کہ ریاست مدینہ
سے مراد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قائم کردہ وہ حکومت تھی جو مدینہ میں
قائم ہوئی اور پھر پھیلتی چلی گئی۔ جسے خلافت راشدہ بھی کہا جاتا ہے۔ لیکن
اس ریاست مدینہ میں کیا کیا خوبیاں تھیں اسے بہت کم لوگ جانتے ہیں۔ اس لیے
پاکستانی عوام کو یہ بتانا اور ایجوکیٹ کرنا نہایت ضروری ہے کہ ریاست مدینہ
کیا تھی اور اس ریاست نے اس معاشرے میں کیا کیا اصلاحات کیں اور ان کے کیا
اثرات اور نتائج مرتب ہوئے۔
آپ اکثر سیرت کے جلسوں میں قران پاک کی یہ آیت کریمہ سنتے ہوں گے:
لقد کان لکم فی رسول اللہ اسوة حسنة(سورہ احزاب)
تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں نمونہ ہے۔ جس طرح
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی تمام انسانوں کے لیے نمونہ ہے،
بالکل اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ریاست تمام دنیا کی ریاستوں
کے لیے نمونہ ہے۔
اس بات کو سمجھنے کے لیے پہلے ہمیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ انسانی زندگی کے
چھ گوشے ہیں۔ یعنی ہر انسان کا اپنی زندگی میں ان چھ گوشوں کے ساتھ کسی نہ
کسی طرح تعلق ضرور رہتا ہے، اور یہی چھ گوشے مل کر ایک مکمل انسانی زندگی
کا نمونہ دکھاتے ہیں۔ ۱۔عقائد، ۲۔عبادات، ۳۔رسومات، ۴معاشرت، ۵۔معیشت، ۶۔سیاست۔
دنیا کا ہر انسان کسی نہ کسی حد تک اپنی زندگی میں ان چھ گوشوں کے ساتھ
زندگی گزار رہا ہوتا ہے۔ ہر آدمی کا کوئی نہ کوئی عقیدہ ہوتا ہے، قطع نظر
اس کے کہ وہ صحیح ہے یا غلط۔ ہر آدمی کی زندگی میں کوئی نہ کوئی طریقہ
عبودیت ہوتا ہے۔ ہر آدمی کچھ نہ کچھ رسومات رکھتا ہے۔ ہرآدمی اجتماعی زندگی
میں معاشرے کا حصہ ہوتا ہے اور اس کا کسی نہ کسی طور پر معیشت اور سیاست کے
ساتھ بھی تعلق واسطہ ہوتا ہے۔
ریاست مدینہ کی یہی واحد خوبی تھی کہ اس نے انسانی زندگی کے ان چھ گوشوں
میں ایسی ایسی اصلاحات کیں کہ نہ اس سے پہلے کوئی کرسکا اور نہ اس کے بعد۔
1۔عقائد
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو جب نبوت ملی تو آپ نے سب سے پہلا کام لوگوں
کے عقائد ونظریات کی درستگی کا کیا، اور عرب کے اس جاہل معاشرے میں نظریہ
توحید کی داغ بیل ڈالی۔ عرب کے اس معاشرے میں لوگوں کے مختلف عقائد تھے۔
کوئی ایک خدا مانتا تھا تو کوئی تین، کوئی لاکھوں خدا مانتا تھا تو کوئی
بالکل بھی نہیں۔لوگ اپنا خدا اپنے ہاتھوں سے بناتے اور پھر اس کے سامنے جھک
جاتے۔ درباروں، مندروں اور آستانوں پر چڑھاوے دیے جاتے جس سے ان کو ہر گناہ
کرنے کی آزادی مل جاتی۔ لیکن ریاست مدینہ کے بانی نے سب سے پہلے عقیدہ کا
نعرہ مستانہ بلند کیا ۔ کیونکہ عقیدہ ہی وہ پہلا پتھر ہے جو درست ہو جائے
تو زندگی کا دھارا بدل جاتا ہے۔ ایک شخص نہ کسی خدا کو مانتا ہو اور نہ کسی
حساب کتاب کو ، تو پھر وہ اپنے پیٹ کا پُتر ہوتا ہے، اس کی ساری تگ و دو،
ہر محنت کوشش، کامحور اپنا پیٹ، اپنے بچے، اور اپنا گھر ہوتا ہے۔نہ اسے
حلال و حرام کی تمیز ہوگی اور نہ صحیح اور غلط کی۔ لیکن اگر اس کا عقیدہ
بدل دیا جائے، تو صرف عقیدے کے بدلنے سے اس کی زندگی میں اتنی بڑی تبدیلی
آجائے گی کہ وہ کوئی بھی کام کرنے سے پہلے سوچے گا کہ آیا یہ درست ہے یا
غلط۔ حرام ہے یا حلال۔نہ اس کی نگرانی کی ضرورت ہوگی اور نہ ڈنڈے کی۔ لہٰذا
آج بھی اگر کوئی ریاست مدینہ بنانا چاہتا ہے تو اسے ریاست کے باسیوں کے
عقائد اور نظریات کو درست کرنے کی فکر کرنی ہوگی، اور لوگوں کو ایک اللہ کا
بندہ اور آخرت میں حساب کتاب اور جوابدہ ہونے کا احساس دلانا ہوگا۔
2۔عبادات
آپ حضرات میں سے جس جس نے وزیر اعظم عمران خان کی تقریب حلف برداری دیکھی
ہے تو انہیں یاد ہوگا کہ اس تقریب کے آغاز میں جو تلاوت ہوئی تھی اس میں
سورہ حج کی آیت نمبر 41 پڑھی گئی تھی۔
الذین ان مکنٰھم فی الارض اقاموا الصلوة واٰتوا الزکوة وامروا بالمعروف
ونھوا عن المنکر۔ وللہ عاقبة الامور (حج)
اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کا یہ وصف بیان کیا ہے کہ اگر ہم انہیں حکمرانی
عطاءکریں تو یہ پوری پابندی سے نماز قائم کریں، زکوة دیں اور نیکیوں کا حکم
کریں اور برائیوں سے منع کریں۔ اس ایک آیت کریمہ میں حکمرانی کرنے کا پورا
طریقہ بتا دیا گیا ہے۔
چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ ریاست مدینہ میں سب سے پہلا کام یہی کیا گیا۔
ریاست کا آغاز ہی مسجد نبوی کی تعمیر سے ہوا۔ جس سے پتا چلتا ہے کہ ریاست
مدینہ کی پہلی ترجیح مساجد کی تعمیر تھی، نہ کہ مساجد ڈھانا۔ پھر صرف تعمیر
پر اکتفاءنہیں کیا گیا بلکہ مسجد کو اس کا حقیقی مقام بھی دیا گیا۔ امور
مملکت کے اہم فیصلے مسجد میں ہوا کرتے تھے، ریاست مدینہ کی مقننہ مسجد میں
ہی تھی۔ ریاست مدینہ کا جی ایچ کیو بھی مسجد تھا، ریاست مدینہ کی سپریم
کورٹ بھی مسجد میں ہی تھی۔ الغرض ریاست مدینہ کے تمام امور مسجد میں طے
ہوتے تھے، ریاست مدینہ کے لشکر فوجی ہوں یا سفارتی سب مسجد سے روانہ ہوتے
تھے۔اور خاص طور پر خارجہ امور اور باقی ممالک کے سفارتی وفود سے مذاکرات
اور ملاقاتیں مسجد میں ہوتی تھیں۔ریاست مدینہ نے اپنی نیشنل یونیورسٹی کا
درجہ بھی مسجد کو ہی دیا ہوا تھا۔
سورہ حج کی آیت کریمہ کی روشنی میں ریاست مدینہ میں نظام صلوة اور نظام
زکوة اس نہج پر قائم کیا ہوا تھا کہ کسی کو اس بات کی جرا ¿ت و ہمت نہیں
ہوتی تھی کہ وہ نماز یا زکوة چھوڑ سکے۔ چنانچہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ
عنہ فرماتے ہیں۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں کوئی اس بات کی ہمت
نہیں کرسکتا تھا کہ وہ نماز اپنے گھر میں پڑھے تمام لوگ جماعت کے ساتھ نماز
پڑھتے تھے۔ جو بیمار ہوتا تھا اسے بھی دو آدمیوں کے سہارے لاکر مسجد کی صف
میں بٹھا دیا جاتا تھا۔ ہم تو یہ دیکھتے تھے جو کھلم کھلا منافق ہوتا تھا
اس کی کبھی کبھی(نوٹ کریں کبھی کبھی) جماعت کی نماز چھوٹ جاتی تھی ورنہ کسی
عام منافق کو بھی جماعت چھوڑنے کی جرا ¿ت نہیں ہوتی تھی۔ دوسری طرف ایک غلط
فہمی کی وجہ سے ایک قبیلے کے بارے پتا چلا کہ انہوں نے زکوة دینے سے انکار
کردیا ہے تو اس کے خلاف لشکر کشی کی تیاری شروع ہوچکی تھی۔ جبکہ صدیق
اکبررضی اللہ عنہ کے دور میں ریاست مدینہ نے مانعین زکوة کے بارے جو پالیسی
اختیار کی وہ سب کے سامنے ہے۔
3۔رسومات
قرآن حکیم کی سورہ اعراف میں اللہ تعالیٰ نے ریاست مدینہ کے بانی صلی اللہ
علیہ وسلم کا یہ وصف بیان کیا ہے:
ویضع عنھم اصرہم والاغلال اللتی کانت علیہم (اعراف157)
اور ان پر سے وہ بوجھ اتارتا ہے جو ان پر لدے ہوئے تھے اور وہ بندشیں
کھولتا ہے جن میں وہ جکڑے ہوئے تھے۔
عرب کے اس معاشرے میں جو جاہلیت کے بوجھوں تلے دبا ہوا تھا اور طرح طرح کی
خود ساختہ بندشوں میں جکڑا ہوا تھا، ریاست مدینہ نے ان تمام بوجھوں کو
اتارا، اور تمام بندشوں کو کھول کر لوگوں کو آزاد کیا۔ طرح طرح کی من گھڑت
رسومات اور رواج ، جن کے نہ سر تھے ، نہ پاوںریاست مدینہ نے سب کو ختم کرکے
لوگوں کے بوجھ ہلکے کیے۔لوگوں کو بتایا کیا حلال ہے اور کیا حرام ہے۔ کیا
صحیح ہے اور کیا غلط ہے۔ ان غلط رسومات کے خاتمے کے ساتھ ساتھ اصل اور صحیح
رسومات کا اجرا بھی کیا۔ رسومات خوشی کے مواقع کی ہوں یا غمی کے مواقع کیں،
ان کا صحیح طریقہ بتایا، اور بدعات و خرافات کا مکمل صفایا کیا۔ لہٰذا آج
بھی اگر کوئی ریاست مدینہ کی طرز پر ریاست بنانا چاہے تو اسے لوگوں کو ان
بوجھوں سے ہلکا اور ان بندشوں سے آزاد کرنا ہوگا جن میں لوگ جکڑے جا چکے
ہیں اور نکلنے کی کوئی راہ نہیں پاتے۔جہیز، مہندی، اور لڑکی کے گھر کھانے
کی رسومات وہ ناسور ہیں جنہوں نے ہمارے معاشرے کو تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔
اسی طرح فوتگی اور اس کے بعد کی رسومات کا معاملہ ہے، کہ مرنے والے کا
تیجہ،قل اور خیرات ہوجائے تو وہ بخشا بخشایا ہو جاتا ہے۔ گویا شادی کی
رسومات نے لوگوں کی دنیا اور فوتگی کی رسومات نے لوگوں کی آخرت خراب کرکے
رکھ دی ہے۔
4۔معاشرت
ریاست مدینہ نے اپنے معاشرے کو جدید خطوط پر استوار کیا، اور جاہلیت کا وہ
سارا گند صاف کیا جس نے عرب معاشرے کو لبیڑا ہوا تھا۔ ریاست مدینہ نے عدل و
قسط پر مبنی معاشرہ کھڑا کیا۔ جس میں قانونی مساوات کو رائج کیا۔ قانون سب
کے لیے ایک تھا، امیر غریب کا کوئی فرق نہیں تھا۔ ایک فاطمہ نامی عورت جب
چوری کے جرم میں گرفتار ہوئی اور اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا گیا تو اس کے
قبیلے والے ہر قسم کی سفارشیں، رشوتیں دینے کے لیے تیار ہو گئے کہ کسی طرح
اس عورت کو قانون کے ہاتھوں سے چھڑا دیا جائے۔ لیکن حضورصلی اللہ علیہ وسلم
نے فرمایا: اگر میری بیٹی فاطمہ بھی ہوتی تو میں اس کے ہاتھ بھی کاٹ
دیتا۔حضرت علی رضی اللہ عنہ عدالت کے طلب کرنے پر عدالت میں پیش ہوئے اور
حضرت عمررضی اللہ عنہ نے مصر کے گورنر کے بیٹے کو سرعام کوڑے مارے اور یہ
ثابت کیا کہ ریاست مدینہ میں قانون سب کے لیے برابر ہے۔ معاشرے کی تعمیر و
ترقی کے لیے یہ بات نہایت ضروری ہے کہ قانون کی بالادستی ہو اور قانون میں
امیر غریب، چھوٹے بڑے طبقے کا فرق مٹا دیا جائے۔
ریاست مدینہ نے معاشرے کی سطح پر دوسرا بڑا کارنامہ فحاشی اور عریانی کو
مٹانے کے حوالے سے کیا۔ اور لوگوں میں پردے کا نظام رائج کیا۔ محرم اور غیر
محرم کا فرق لوگوں کے ذہن میں بٹھایا۔
ریاست مدینہ نے معاشرے کی سطح پر تیسرا بڑا کارنامہ خواتین کے حقوق بالخصوص
شادی میں زبردستی، وراثت میں محروم رکھنا، یتیم کا مال ہڑپ کرنا۔ اور
عورتوں کے حق ملکیت کو ثابت کرنے کے حوالے سے سرانجام دیا۔ اور لوگوں کو
بتایا عورت مال نہیں انسان ہے، اور حق ملکیت بھی رکھتی ہے۔ کوئی کسی عورت
سے زبردستی شادی نہیں کرسکتا۔کوئی عورت کے حق وراثت کو دبا نہیں سکتا۔
مردعورت دونوں کے حقوق برابر ہیں ، البتہ دائرہ کار علیحدہ علیحدہ ہے۔
5۔ معیشت
ایک وقت وہ تھا جب لوگوں نے بھوک کی شدت کم کرنے کے لئے پیٹ پر پتھر باندھے
ہوتے تھے، اور پھر چند سال بعد ایسا دور بھی آیا کہ ریاست مدینہ میں زکوة
دینے والے تو تھے لیکن زکوة لینے والا کوئی نہیں ملتا تھا۔یہ سب کچھ ریاست
مدینہ کی ان شاندار پالیسیوں کے نتیجے میں ممکن ہوا جو اس ریاست نے اختیار
کیں۔ ان میں سب اہم چیز سود پر مکمل پابندی تھی، جس کی وجہ سے غریب کو سر
اٹھانے کا موقع ملا اور امیر کے منہ میں لگام ڈال دی گئی۔یہی وہ بنیادی
پتھر تھا جسے اٹھاتے ساتھ ہی ریاست کی معیشت ترقی کرنا شروع ہوئی۔ ریاست
مدینہ نے ارتکاز دولت پر بھی پابندی لگا دی۔ اور ایسی ایسی پالیسیاں جاری
کیں کہ دولت چند ہاتھوں تک سمٹ کر نہ رہ جائے بلکہ دولت ہر وقت حرکت میں
رہے۔اس مقصد کے حصول کے لیے سود حرام اور زکوة فرض قرار دی گئی۔یعنی ناجائز
طریقے سے کوئی دولت اکھٹی نہیں کرسکتا، اور جائز طریقے سے اکھٹی کی گئی
دولت بھی ایک حد کے بعد ایک خاص مقدار زکوة کی صورت لٹا دی جائے گی۔
اس کے علاوہ ریاست مدینہ امیروں پر زکوة تو فرض کی لیکن غریبوں پر کسی قسم
کا کوئی ٹیکس نہیں لگایا۔ آج ریاست پاکستان امیروں کو تو طرح طرح کی چھوٹ
دیتی ہے، لیکن غریب سے ایک سوئی سے لےکر کھانے پینے کی بنیادی چیزوں یہاں
تک کہ بچے کی تعلیم کے لیے خریدے گئے بال پن اور بستر مرگ پر لیٹے بیمار کی
گولی تک ہر چیز پر ٹیکس وصول کرتی ہے۔کئی چیزیں تو ایسی ہیں کہ جتنی ان کی
اصل قیمت ہے اس کے قریب قریب ہی اس پر ٹیکس لگادیا گیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ
نکلتا ہے کہ کوئی بھی دل جمعی، خلوص،اور محنت سے کام نہیں کرتا بلکہ لوٹ
مار،دھوکہ، فراڈ، اور غلط ذرائع سے دولت جمع کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
ریاست مدینہ شہریوں کو لوٹنے کے بجائے ان کی کفالت کرتی تھی۔ ریاست مدینہ
شہریوں کی خوراک، صحت اور تعلیم کا خاص خیال رکھتی تھی۔ اس کا اندازہ آپ اس
بات سے لگا سکتے ہیں کہ ریاست مدینہ نے ریاست کے خلاف لڑنے والے سزائے موت
کے مستحق دہشت گردوں کو صرف اس شرط پر رہا کردیا تھا کہ آپ ہمارے بچوں کو
لکھنا پڑھنا سکھا دیں۔ چنانچہ ایسے دہشت گردوں کو شرط پوری کرنے پر ریاست
مدینہ نے بطور صلہ تختہ دار سے رہائی بھی دی۔ریاست مدینہ نے اپنی نیشنل
یونیورسٹی میں پڑھنے والے طالبعلموں سے کبھی فیس نہیں لی، بلکہ لوگوں کو
ترغیب کے ان کے ساتھ بڑھ چڑھ کر تعاون کیا جائے۔صحت کے میدان میں ریاست
مدینہ بچے جننے والی ماوں کواس درد و الم کی گھڑی میں لوٹتی نہیں بلکہ اس
نے پیدا ہونے والے بچوں کے وظائف جاری کیے۔
6۔سیاست
ریاست مدینہ کی سیاست کے دو بنیادی نکتے تھے۔ ایک یہ کہ مقتدر اعلیٰ
اورحاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکات ہے۔ دوم یہ کہ دعوت حق کا فروغ
کیا جانا چاہیے۔ چنانچہ ریاست مدینہ کی ساری سیاست اسی نکتے کے گرد گھومتی
تھی۔ کوئی لشکر روانہ کرنا ہو یا مذاکرات، خارجہ پالیسی ہو یا عسکری پالیسی
انہیں دو نکتوں کو مدنظر رکھ کر بنائی جاتی تھی۔ چنانچہ ایک وقت وہ تھا کہ
ریاست مدینہ کے بانی صلی اللہ علیہ وسلم کو غار میں پناہ لینا پڑی، اپنا
گھر بار چھوڑنا پڑا، لیکن چند سال بعد وہ وقت آیا کہ آپ نے اس وقت کی سپر
پاور طاقتوں روم و ایران کے بادشاہوں کو اسلام میں داخل ہونے کے خطوط لکھے
اور دعوت حق کے فروغ کو عرب سے نکل کر عجم میں پھیلانا شروع کردیا۔
یہ تھی وہ ریاست مدینہ جس کے نام کو استعمال کرکے الیکشن کمپئین بھی چلی
اور اب اسی نام پر حکومت بھی چل رہی ہے۔ ہم عمران خان کے خلوص میں شک تو
نہیں کرتے کہ دل چیر کر دیکھا نہیں جا سکتا، لیکن امید اور دعا ضرور کرتے
ہیں کہ انہوں نے اگر سچا ارادہ کیا ہے تو اللہ انہیں بھی اور ہم سب کو
ریاست مدینہ کی طرز پر پاکستان کی ریاست کو ڈھالنے کی توفیق عطاءفرمائے۔
آمین ثم آمین |