حکمرانوں کے افکار، نظریات، اقدامات اور ترجیحات قومی
مزاج کا روپ بن جایا کرتی ہیں۔ شاہی عادات و اطوار رعایا کا چلن ٹھہرتے ہیں۔
جیساکہ مشہور ہے : الناس علی دین ملوکھم یعنی عوام اپنے بادشاہوں کے دین پر
ہوتے ہیں۔ اقتدار کے ایوانوں میں ہونے والے فیصلوں کے اثرات نچلی سطح تک
سرئت کیا ہی کرتے ہیں۔ سربراہ گھر وں کے ہوں، اداروں یا ملکوں کے ان کے بڑے
اقدامات تو کیا چال ڈھال، الفاظ حتی کہ اشارے بھی تاثیر رکھتے ہیں۔جب حجاج
بن یوسف کا دور تھا تو لوگ صبح بیدار ہونے کے بعد باہم ملاقات کے وقت ایک
دوسرے سے پوچھا کرتے تھے کہ گزشتہ رات کون قتل کیا گیا؟ کس کس کو کوڑے لگے؟
ولید بن عبدالملک مال، جائیداد اور عمارتیں تعمیر کرنے کا شوقین تھا، اس کے
زمانے میں لوگوں کی مجلسی گفتگو کا موضوع مکانات کی تعمیر،عمارتوں کے نقش
ونگار اور فن عمارت سازی ہوا کرتا تھا سلیمان بن عبدالملک کھانے پینے اور
گانے بجانے کا شوقین تھا ،اس دور میں لوگ اچھے کھانوں،رقص و سرود اورناچنے
والوں کے احوال جانا کرتے تھے سیدنا عمربن عبدالعزیز ؓ کا عہدِسعید آیا تو
لوگوں کے درمیان گفتگو کچھ اس قسم کی ہوتی تھی: تم نے قرآن مجید کتنا یاد
کرلیا ،رات کتنی دیر تلاوت کرتے اور نوافل ادا کرتے ہو۔
یہ تو ماضی بعید کی باتیں ہیں، ہم نے وطن عزیز کے حکمرانوں کے ادوار میں
بھی کچھ ایسے ہی رنگ دیکھے ہیں۔ جنرل ضیا الحق سے ہزار اختلاف کے باوجود
اسلام کے لیے ان کے اٹھائے گئے اقدامات کی رمق آج بھی محسوس کی جاسکتی ہے۔
یہی وہ دور تھا جب اسٹیشنوں، لاری اڈوں اور ائیر پورٹوں پر صفیں بچھی نظر
آتی تھیں اور لوگوں کی باہمی گفتگو عموما اسلامی روایات سے متعلق ہی ہوا
کرتی تھی۔ پھر ہم نے وہ دور بھی دیکھا جب ایک سربراہ مملکت نے پتنگ بازی
اور میراتھن ریسوں کو فروغ دیا تو اسلامی روایات کا مذاق اڑانا، علما سے
نفرت اور فحاشی وعریانی ہمارا کلچر بن کر رہ گئی۔حکمرانوں کے مزاج کی تراش
خراش میں علما کا کردار ہمیشہ اہم رہا ہے۔ خلافتِ عباسیہ میں سب سے سنہری
دور ہارون، امین اور مامون کا سمجھا جاتا ہے کیونکہ اس عہد میں علوم و فنون
بالخصوص فقہی علوم نے بے پناہ ترقی پائی جس کے اثرات آج تک محسوس کئے جا
سکتے ہیں۔ اس کا سبب وقت کے بڑے علما اورائمہ کا دربارِ شاہی میں اثر و
رسوخ ہی تھا۔ اکبر کا دین الہی بھی درباری مولویوں ہی کا شاخسانہ تھا ،
دوسری جانب جنرل ضیاالحق کے دور میں اسلامی روایات کے فروغ کے پیچھے بھی
علما ہی تھے ،تو گویا ہر دور میں علمائے کرام اپنی ایک حیثیت اور مقام
رکھتے تھے۔ ہمارے موجودہ وزیر اعظم جناب عمران خان جس ماحول میں پلے پڑھے ،
جوان ہوئے ، جس تہذیب و کلچر میں رہ کر تعلیم حاصل کی اور آج تک ان کے گرد
جن لوگوں کا ہالہ ہے اس کے اثرات ان کے فیصلوں اور اقدامات میں بہر حال
دکھائی دیں گے۔ ایسے میں علما کرام دور بیٹھ کر نفرت کئے جانے اور کوسنے کی
بجائے اگر قریب ہو کر صحیح راہنمائی مہیا کریں تو امید ہے کہ نتائج مختلف
ہوں گے ورنہ حجت تو تمام ہو گی۔
آئیے !اس طولانی تمہید کے تناظرمیں موجودہ حکومت کے فیصلوں کے ممکنہ اثرات
کا تھوڑا ساجائزہ لیں: وزیر اعظم جناب عمران خان نے لگثرری گاڑیوں اور
بھینسوں وغیری کی نیلامی کا اعلان فرمایا تو مخالفین نے اپنے اپنے انداز
میں بھر پور تنقید کی۔ تنقید کس حد تک بجا تھی۔ اس سے قطع نظر ہمارے خیال
میں جناب وزیر اعظم کے اس فیصلے سے جو واضح پیغام ملا وہ کفایت شعاری ہے۔
بلاشبہ ان چند کروڑ کی رقم سے نہ تو معیشت مستحکم ہوگی اور نہ ملک کے قرضے
اتریں گے، ہاں!البتہ جب سربراہِ ریاست سادگی اور فضول خرچی سے اجتناب کے
اقدامات اٹھائے تو لا محالہ اس کے اثرات نچلی سطح تک منتقل ہوں گے۔ چھوٹے
دفاتر کے سربراہوں سے لے کر بڑے اداروں کی انتظامیہ تک کوئی بھی خریداری
کرتے وقت بار بار سوچے گی۔
لیکن!ان اقدامات کے ساتھ ساتھ جناب وزیر اعظم نے اپنے اراکین پارلیمنٹ کے
لیے مفت فضائی سفری اخراجات کے لیے جو فنڈز جاری کیے، سمجھ سے بالا تر ہیں۔
اسی طرح جن نمائندگان کو وزارتوں سے نوازا جارہا ہے کیا وہ یہ ذمہ داریاں
نبھانے کی اہلیت بھی رکھتے ہیں اور ہر آنے والے دن کے ساتھ کابینہ کی طویل
ہوتی فہرست اور امڈتا ہوا سیلابِ مہنگائی جیسے اقدامات ایک سوالیہ نشان
ہیں۔ اس موقع پر یہ حکایت بجاطور پر صادق آتی ہے کہ نوشیرواں بادشاہ ایک
مرتبہ شکار پر نکلا تو اس کا شاہی باورچی نمک ساتھ لانا بھول گیا۔ حصول نمک
کے لیے وزیر نے فورا قریبی بستی کی طرف ہرکارے روانہ کر دئیے۔ نوشیرواں نے
انہیں روک کر کہاقیمت ادا کر کے نمک لانا ہر کاروں کے روانہ ہوجانے کے بعد
نوشیرواں عادل کے وزیروں نے پوچھا: بادشاہ سلامت! نمک جیسی معمولی چیز کے
لیے قیمت کی ادائیگی کا حکم؟ تو نوشیرواں نے ایک تاریخی جملہ کہا جو ہمارے
حکمرانوں کو ہمیشہ مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
نوشیرواں نے کہا :اگر کسی ملک کا بادشاہ نمک کے برابر ظلم روا رکھنا پسند
کرے تو اس کے لشکری مرغے سیخوں پر چڑھا دیں گے۔ ہم نہیں جانتے کہ ہمارے
معاشرے میں نمک کے برابر ظلم کا آغاز کب ہوا؟ مگر آج کل سیخوں پر سالم اونٹ
چڑھے دیکھ کر احساس ہوتا ہے کہ یہ بھاری بھرکم سیخیں تیار کرنے پر عوام کا
پیسہ ہی خرچ ہوا ہے۔
اسی طرح ہماری حکومت نے نئے ڈیم تعمیر کرنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔ بلاشبہ
توانائی کا حصول ہو، زراعت کا تحفظ یا انسانی زندگی کی بقاپانی کے بغیر
ممکن نہیں۔ پانی کو محفوظ نہ کیے جانے کے باعث جہاں توانائی کا بحران شدید
تر ہورہاہے وہاں زرخیز زمینیں بھی بنجر ہوتی جارہی ہیں۔ ایسے میں ڈیمز کی
تعمیر انتہائی اہم ہے۔ حکومت نے بھاشا اور مہمند ڈیمزکی تعمیر کے لیے عوام
سے بھی فنڈ جمع کروانے کی اپیل کر رکھی ہے جس کے نتیجے میں اب تک اربوں
روپے ڈیم فند اکاونٹ میں جمع ہوچکے ہیں۔ اس اپیل پر کئی طرح کے تبصرے بھی
زبان زد عام ہیں۔ ناقدین اسے منفی رنگ دیتے ہوئے بھیک مانگنے سے تعبیرکر
رہے ہیں اور ہم نوا اس کی کڑیاں عہدرسالت مآب ؐسے جوڑ رہے کہ آپؐنے بھی
بئررومہ کے لیے فنڈ کی اپیل فرمائی تھی ۔ دور کیوں جائیں جناب ذوالفقار علی
بھٹو نے بھی عوام سے ایک روپے میں ایٹم بم بنانے کی پرکشش اپیل کی تھی اور
جناب نواز شریف نے بھی قرض اتارو ملک سنواروکا نعرہ بلند کیا تھا۔
ایسے اقدامات کو سراہاجانا چاہیے۔ بے جا تنقید کی بجائے باہم سہارا بننے کی
پالیسی پر عمل پیرا ہونا چاہیے ۔ یہ ڈیم بنیں گے تو ہمارے ہی وطن کا بھلا
اور ہماری ہی نسلوں کو تحفظ ملے گا۔ ایک سروے کے مطابق دیامر بھاشا ڈیم کی
تعمیر سے تربیلاڈیم کی زندگی مزید 35سال بڑھ جائے گی اور اس میں81لاکھ ایکڑ
فٹ پانی ذخیرہ کیاجاسکے گااور مجموعی طورپر 4500میگاواٹ بجلی حاصل ہو گی
۔اسی طرح مہمند ڈیم بھی کثیر المقاصد ڈیم ہو گا جس میں 12لاکھ ایکڑ فٹ پانی
ذخیرہ کرنے کی صلاحیت اور 800میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی۔ مہمند ڈیم سے سالانہ
35ارب روپے کامعیشت کو فائدہ پہنچے گااور ہر سال آنے والے سیلابوں کی تباہ
کاریوں سے بھی نجات حاصل ہو سکے گی آئیے ہاتھ اٹھائیں! الہی وطن عزیز کو
ترقی نصیب فرما۔ اسے اندرونی اور بیرونی سازشوں سے محفوظ فرمااور اسے امن
وسلامتی کا گہوارہ بنا۔ آمین
|