عظیم پرندہ

انسان نے پرندوں سے ڈاک کا کام لیا۔ ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے ہواؤں میں اڑنا سیکھا۔ خلاء کا سفر شروع کیا۔ چاند پر پہنچنے کے دعوے کیئے۔ یہ سب کچھ اللہ کریم کا انسان پر اپنا فضل ِ عظیم ہے۔فرسٹ ایئر میں انگلش میں بغلے کی پہلی پروازFirst Flight of Seagullکے متعلق بھی پڑھا ہو گا کہ وہ اپنے بچوں کو کیسے اڑنا سکھاتی ہے یاوہ کیسے سیکھتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ

تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیر سامنے آسماں اور بھی ہیں
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا۔ عقل سے نوازا۔ عقل تسلیم کو استعمال میں لاتے ہوئے تحقیقات میں سے گزرتا ہوا سائنس کو اپناتے ہوئے نت نئی ایجادات کر رہا ہے۔ انسان نے پرندوں سے ڈاک کا کام لیا۔ ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے ہواؤں میں اڑنا سیکھا۔ خلاء کا سفر شروع کیا۔ چاند پر پہنچنے کے دعوے کیئے۔ یہ سب کچھ اللہ کریم کا انسان پر اپنا فضل ِ عظیم ہے۔

فرسٹ ایئر میں انگلش میں بغلے کی پہلی پروازFirst Flight of Seagullکے متعلق بھی پڑھا ہو گا کہ وہ اپنے بچوں کو کیسے اڑنا سکھاتی ہے یاوہ کیسے سیکھتے ہیں۔

میں آج آپ کو ایک ایسے پرندے کی بارے بتاتا چلوں، یہ سب کچھ بھی آپ دوستوں کی تحریر وں سے حاصل کیا۔ یہ پرندہ دس ہزار فٹ کی بلندی تک پرواز کرنے والا انمول پرندہ ہے۔ انسان نے بھی اس دس ہزار فٹ کی بلندی کو مات کرنے کے لیے پیرا گلائیڈنگ کا آغاز کیا۔ پاکستان کی فوج جو دنیا کی بہترین فوج ہے، اس کے جواں کمانڈوز بھی دس ہزار فٹ کی بلندی سے پیرا جمپنگ، پیرا گلائیڈنگ کرتے ہیں۔ کمانڈوز کو دس ہزار فٹ کی بلندی سے چھلانگ لگاتے ہوئے پیرا شوٹ کا استعمال کرنا پڑتا ہے اور بروقت پیراشوٹ آپریٹ کرنا پڑتے ہیں یا پھر شاید خود کار آپریٹ ہوتے ہونگے لیکن اس کے برعکس اللہ رب العزت نے پرندوں کا خاص خود کار پروں سے نواز ا ہے جو وقت، موسم اور بلندی کو دیکھتے ہوئے استعمال میں لاتے ہیں۔ آج ایک ایسے پرندے جسے ہم سب نے دیکھا بھی اور اس کے بارے میں سن بھی رکھا ہے۔ تحریر کرتے ہیں جس سے ہمارے علم میں نہ صرف اضافہ ہو گا بلکہ ماں کی ممتا بھی دیکھنے اور سمجھنے کو ملے گی۔ اس کہانی سے ہم بھی بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔
کیا آپ نے کسی ایسی ماں کو دیکھا ہے جو اپنے بچے کو دس ہزار فٹ کی بلندی سے نیچے پھینک دے؟
تربیت کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔
یہ کیسی تربیتی نشست ہے جس میں بچے کی جان جانے کا خدشہ ہو؟
اگر بچہ ڈر جائے تو؟
مر جائے تو؟

جس نے پھینکا ہے وہ نہ صرف اپنے بچے کی صلاحیتوں کو جانتی ہے بلکہ اسے اپنی قابلیت پر بھی مکمل اعتماد ہے۔

مادہ عقاب کے بچوں کا جب پرواز سیکھنے کا وقت آتا ہے تو ان کی ماں انہیں اٹھا کر دس ہزار فٹ کی بلندی پر لے کر جاتی ہے اور پھر وہاں سے نیچے پھینک دیتی ہے۔بچہ نیچے گرنا شروع ہوتا ہے۔ اپنے ننھے پر پھڑپھڑا کر اپنے آپ کو بچانے اور اڑانے کی کوشش کرتا رہتا ہے۔ مگر دس ہزار فٹ کی بلندی پر اڑنا بچوں کا کھیل نہیں۔ دنیا میں صرف ایک ہی پرندہ ہے جو اس بلندی پر اڑتا ہے اور وہ ہے عقاب۔ کسی اور پرندے کی مجال نہیں جو اس کی بلندی کو چھو سکے۔وہ بچہ تیزی سے قریب آتی زمین کو دیکھ کر سہم جاتا ہے۔ اپنے پروں کو اور تیزی سے حرکت دیتا ہے۔ اپنی آخری کوشش کرتا ہے پھر فضا میں اپنی نظریں گھما کر ماں کو ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہے مگر ماں کہیں نظر نہیں آتی۔ جو کرنا ہے خود ہی کرنا ہے۔
اڑنا ہے تو بچنا ہے ورنہ مرنا ہے۔

بچہ اپنی انتہائی کوشش جاری رکھتا ہے۔ مگر کامیابی نہیں ہوتی۔

زمین انتہائی قریب پہنچ جاتی ہے۔ یہاں تک کہ اس کے زمین سے ٹکرانے اور پاش پاش ہو جانے میں بس کچھ ہی وقت باقی ہے۔ وہ آنکھیں بند کر لیتا ہے۔ایسے میں اسے اپنے بالکل پاس دو بڑے بڑے پروں کی پھڑپھڑاہٹ سنائی دیتی ہے۔ اسے محسوس ہوتا ہے کہ کسی نے اسے اپنے محفوظ پنجوں میں دبوچ لیا ہے۔ اب وہ گر نہیں رہا۔ اس کی ماں اسے گرنے سے عین پہلے دوبارہ دبوچ لیتی ہے اور واپس گھونسلے میں پہنچا دیتی ہے۔یہ عمل اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک بچہ بے خوفی سے اڑنا سیکھ نہیں لیتا۔

مادہ عقاب صرف اپنے بچوں کو اس آزمائش سے نہیں گزارتی بلکہ وہ جیون ساتھی کے انتخاب میں بھی اپنے ساتھی کے ساتھ ملن سے پہلے اس کی صلاحیتوں کو پرکھتی ہے۔

کسی نر عقاب سے ملن سے پہلے مادہ عقاب ایک پتھر کو انتہائی بلندی سے زمین پر پھینکتی ہے۔ یہ نر عقاب کے لیئے ایک چیلنج ہوتا ہے کہ پکڑ کر دکھائے۔زمین پر گرتی ہر چیز کی رفتار گریویٹی کی وجہ سے بڑھتی جاتی ہے۔ حد رفتار 200 کلومیٹر فی گھنٹہ تک بھی ہو سکتی ہے۔ مگر گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ عقاب کی عمودی پرواز کی رفتار اس سے کہیں زیادہ یعنی 300 کلومیٹر فی گھنٹہ تک بھی ہو سکتی ہے۔
نر عقاب اس پتھر کے تعاقب میں زمین کی طرف انتہائی تیز رفتار عمودی پرواز کرتا ہے اور وہ پتھر دبوچ کر لے آتا ہے۔ مادہ یہ عمل صرف ایک بار نہیں دہراتی بلکہ اس وقت تک دہراتی ہے جب تک اس کو اطمینان نہ ہو جائے کہ یہ نر اسے کما کر کھلانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

عقاب ایک انتہائی نڈر اور بہادر پرندہ ہے۔ ڈر کیا ہوتا ہے خوف کس چڑیا کا نام ہے یہ پرندہ جانتا ہی نہیں۔ شکار کرتے وقت اسے اس بات کی کوئی پرواہ نہیں ہوتی کہ اس کا شکار کون ہے کتنا وزنی ہے یا کس کس قسم کی دفاعی ہتھیاروں سے لیس ہے۔ یہ مردار ہرگز نہیں کھاتا بلکہ خود شکار کر کے کھاتا ہے۔ اس کی نگاہیں انسان کی نگاہوں سے پانچ گنا زیادہ تیز ہوتی ہیں۔

اس کا شکار جب ایک بار اس کی نظروں میں آجاتا ہے تو اس کا بچنا تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے۔ اگر تو وہ زیر زمین چھپنے کی صلاحیت رکھتا ہے تو اس کے بچنے کے امکانات ہیں۔ بھاگنا مسئلے کا حل نہیں۔ کیوں کہ شکار کرتے وقت عقاب کی رفتار 300 کلومیٹر فی گھنٹہ سے زیادہ ہوتی ہے۔

بڑے جانوروں کے شکار کے لیئے یہ عموماً بلندی سے گرانے کا طریقہ استعمال کرتا ہے۔ اس کی اس اسٹریٹجی سے عموماً مضبوط خول رکھنے والے کچھوے بھی محفوظ نہیں رہتے۔ یہ انہیں بلندی پر لے جا کر چٹانوں پر پٹخ دیتا ہے جس سے ان کا خول پاش پاش ہو جاتا ہے۔

عموماً جب طوفان کی آمد ہو تو تمام پرندے محفوظ مقام تلاش کرتے ہیں۔مگر یہ طوفانوں سے محبت کرنے والا پرندہ ہے۔ طوفانوں کی تند و تیز ہوائیں اسے مزید بلندی پر بغیر محنت کے اڑنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔مگر یہ پرندہ بجائے گھبرانے کے طوفانوں سے محبت کرتا ہے۔

عقاب کی صلاحیتوں اور خصلتوں کی مثالیں انسانوں میں عام ہیں۔ یہ پرندہ قدرت کی صناعی کی ایک بہترین مثال ہے جس سے واقعی بہت کچھ سیکھا جا سکتا ہے۔ اس تحریر کو غور سے پڑھ کر ذرا سوچیں ہم کہاں کھڑے ہیں اور کیا کرنا ہو گا۔

RIAZ HUSSAIN
About the Author: RIAZ HUSSAIN Read More Articles by RIAZ HUSSAIN: 122 Articles with 173801 views Controller: Joint Forces Public School- Chichawatni. .. View More