حامد کو سانولی کی خوشبو بہت پسند ہے جو وہ لگاتی ہے کبھی
کبھی جو اُس کے جسم سے چھوتی کپڑوں سے ہوتی ہوئ دل میں اُتر جاتی تھی ۔
اُس کو گُلاب کی خوشبو بہت پسند ہے جس سے اُس کا دل کبھی نہیں بھرتا ۔ شائد
اس لیے کہ خوشبو کو نہ دیکھا جاسکتا ہے نہ چھُوا جاسکتا ہے صرف محسوس کیا
جا سکتا ہے۔پسند کیا جاسکتا ہے ، چاہا جاسکتا ہے۔
وہ مہک بھی گُلاب سے ملتی جُلتی تھی جسے جتنا بھی سونگھے دل نہ بھرے ۔ اُس
نے ایک دن پوچھا بھی کہ یہ کون سی خوشبو ہے وہ شرما کر مُسکرا دی ۔
وہ بتاتی بھی کیسے ؟
پھر وہ لے کر آئ اور اپنی خوشبو سُنگھائ جو ایک چھوٹی سی خوبصورت شیشہ کی
بوتل میں محفوظ تھی۔
حامد کو پسند آئ ۔
محبت نے اُس کی کئ حسوں کو جگا دیا تھا ۔
وہ سانولی کے دل کے قریب ہوتا جارہا ہے ۔ کچھ ہوتا جارہا ہے اور کچھ ہونے
کے قریب ہے اور کچھ ہوا چاہتا ہے ۔ چاۓ ٹھنڈی ہو گئ اور پراٹھا ٹھنڈا ہوا
چاہتا ہے۔تحریر کی لگن میں مگن آس پاس سے بے خبر ہو جاتا ہوں ۔ اور ایک شعر
کی آمد ہوئ
تُم یہ سمجھ رہے ہو ، میں یہیں پہ ہوں
مُجھ کو معاف کرنا میں کہیں پہ ہوں
آج تحریر کے ساتھ شاعری کی آمد بھی بیک وقت ہو رہی ہے۔
بات خوشبو کی ہو رہی تھی جو محبت کی بھی ہوتی ہے جو خود کو بھی مہکاتی ہے
اور دوسروں کی حِس بھی جگاتی ہے۔ گُلاب مہکتا بھی ہے اور ماحول کو مہکاتا
ہے اور فرشتوں اور فرشتہ صفت مخلوقات کے لئے ماحول سازگار بناتا ہے۔ ہر خاص
و عام پر اپنی خوشبو بکھیرتے بکھیرتے مُرجھا کر خود بکھر جاتا ہے۔
محبت تو دیتے رہنے کا نام اور کرتے رہنے کا کام ہے اور اس بہاؤ میں بہتے
رہنے کا نام ہے جس کی
نہ منزل نہ انجام ہے
محبت اس کا نام ہے
خرید نہ سکے کوئ
نہ ہی اس کا دام ہے
محبت چلتے رہنے کا نام ہے جس کی کوئ منزل نہیں ہوتی ۔ راستہ ہی منزل ہوتا
ہے ۔ راہنُما دل ہوتا ہے ۔دل اپنا راستہ بناتا جاتا ہے اور عقل اپنا راستہ
ناپتی جاتی ہے اور انجام سے کانپتی جاتی ہے ۔ دل نتیجہ کی پروا کیے بغیر
آگے بڑھتا رہتا ہے ۔ نتیجہ کا انتظار تو دُنیاوی کاموں میں ہوتا ہے اور
ہونا بھی چاہیے ۔
محبت جسمانی بھی ہوتی ہے ، روحانی بھی ۔ حقیقی بھی ہوتی ہے مَجازی بھی ۔
آشنا سے اور اجنبی سے ، عورت مرد اور انسانیت سے بھی ہو سکتی حتی کہ بے جان
اور حیوان سے بھی ہو جاتی ہے ۔ محبت پریشان بھی کرتی ہے حیران بھی،
خوش بھی کرتی ہے اور پشیمان بھی لیکن وہ ہو جاتی ہے ، ہوتی جاتی ہے۔
کسی سے بھی کہیں بھی ہو جایا کرتی ہے اور کسی کو جگا کر سو جایا کرتی ہے ،
ہنستے ہنستے رو جایا کرتی ہے۔ دُکھی بھی کر دیتی ہے اور سُکھی بھی کر دیتی
ہے اور کسی مُکھ کو رُخ دے کر سورج مُکھی بھی کر دیتی ہے ۔
کبھی کمزوری بن کر نچاتی ہے
تیرے عشق نچایا ۔۔ کرے تھیا تھیا تھیا ۔۔
اور کبھی طاقت بن کر کسی سے بھی ٹکر لے جاتی ہے۔
ایسا بھی ہوتا ہے کہ
عشق نے غالب نکما کر دیا
ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے
کبھی ویسا بھی ہوتا ہے جیسا عشق میں لوگ وہ کام کر گُزرے کہ دُنیا دیکھتی
رہ گئ ۔
وہی سچا عشق ہے اور وہ ایک سے ہی ہوا ہے جس کا کوئ شریک نہیں ۔
اُن لوگوں نے اُن سے محبت کی جن سے اُسے محبت ہے۔
اُس کے عشق میں انسانوں سے محبت کی ، انسانوں کی خدمت کی اور عبادُالرحمٰن
میں سے ہو گۓ ۔
جن کے پاس لوگ دعا کروانے جانے لگتے ہیں اور بادشاہِ وقت بھی جوتیاں اُتار
کر حاضری دیتے ہیں ۔ اور اُن کی عقیدت میں اُن کی وفات کے بعد بھی اُن کو
دلوں میں زندہ رکھتے ہیں ۔اُن کی قبر پر تازہ گُلاب کھل رہے ہوتے ہیں جن کی
خوشبو مہکتی رہتی ہے اور خدا کی رحمت برستی رہتی ہے ۔ |