اﷲ تبارک وتعالیٰ نے ہردورمیں اپنے محبوبِ پاک،صاحبِ
لولاک،دانائے خفاوغیوب صلی اﷲ علیہ وسلم کی زبانِ پاک ترجمان سے نکلنے والے
الفاظ ،آپ کے مقدس افعال واعمال کوتاقیامِ قیامت اپنے نیک بندوں کے ذریعے
باقی رکھنے کاوعدہ فرمایاہے۔ان مقدس نفوس کے متعلق خودتاجدارِانبیاء صلی اﷲ
علیہ وسلم نے ارشادفرمایاکہ میری اُمت کے علماء بنی اسرائیل کے نبیوں جیسے
ہیں۔ان کی صحبت میں بیٹھنا،اُٹھناگویارسولِ پاکﷺ کی مجلس مبارک میں
بیٹھنااُٹھناہے۔ان سے مصافحہ ومعانقہ کرنے سے نبی اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم سے
مصافحہ ومعانقہ کرنے کااجروثواب ملتاہے۔ان کے نورانی چہروں کی زیارت کرنے
سے حضورپاک ﷺکے جمال پُرنورکی زیارت کرنے کاثواپ ملتاہے۔ان مقدس نفوس
کاہرقول وعمل حضورنبی اکرم علیہ ا لصلوٰۃ والسلام کے فعل وعمل کی سچی
تصویرپیش کرتاہے۔ان کے زبانِ پاک سے نکلے ہوئے الفاظ محبت ِرسول صلی اﷲ
علیہ وسلم سے بھرپوراوران کے افعال وکردارمیں رسول کریم ﷺ کے افعال
وکردارکی مقدس جھلک نظرآتی ہے۔یہ نورانی جماعت ہردورمیں پائی گئی ہے اورصبح
قیامت تک پائی جائے گی۔
اولیاء کرام کی مقدس جماعت نے انبیاء عظام کے مشن کو فروغ دینے ،ان کی
تعلیمات کولوگوں تک پہچانے اوربھٹکے ہوؤں کو صراط مستقیم پرگامزن کرنے میں
بڑااَہم کرداراداکیاہے،اورکیوں نہ ہوں جبکہ ان کامقصدزیست ہی یہی ہے،ان کی
زندگی کا مقصد الحب فی اللّٰہ والبغض فی اللّٰہ ہے،اسی سلسلۃ الذہب کی ایک
اہم کڑی اشرف الاولیاء، تارک السلطنت ،سلطان حضرت سیدمخدوم اشرف جہانگیر
سمنانی ثم کچھوچھوی علیہ الرحمۃ والرضوان کی ذات پاک بھی ہے۔آپ کی ولادت
باسعادت ایران کے شہر''سمنان ''میں سلطان خراسان حضرت سیدابراہیم ؒکے یہاں
ہوئی۔آپ کی ذہانت وفطانت کایہ عالم تھاکہ جوسبق ایک مرتبہ پڑھ لیتے وہ آپ
کوازبرہوجاتاتھا۔صرف سات کی سال کی عمرمیں آپ نے بفضل خداعزوجل وبطفیل
حبیبہ المصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وسلم قرآن کریم مع سات قرأت کے حفظ کیااورچودہ
سال کی عمرمبارک میں تمام علوم متداولہ میں کامل طورپرعبورحاصل کرلیا۔تصوف
کی ابتدائی تعلیم آپ نے اس وقت کے جلیل القدربزرگ حضرت شیخ علاء الدین
سمنانی قدس سرہٗ متوفی 736 ؍ہجری سے حاصل کی۔پندرہ سال کے تھے کہ والدمحترم
حضرت سلطان ابراہیم رحمۃ اﷲ علیہ وصال فرماگئے۔اس طرح اس کم عمری میں سلطنت
سمنان کی ذمہ داری کابارگراں آپ کے کندھوں پرآگیا۔آپ نے دس سال نہایت عدل
وانصاف سے حکومت کی۔پھراپنے چھوٹے بھائی سیدمحمداعرافؒ کی تخت نشینی
کااعلان کردیااورخودہمیشہ کے لئے تخت وتاج سے دستبردارہوگئے۔ہزاروں میل کی
دشوارگذارراہیں طے کرکے سرزمین ہندصوبہ بنگال میں قدم رنجہ
فرمایااورپنڈواشریف' حضرت شیخ علاؤالحق گنج نبات رحمۃ اﷲ علیہ کی خدمت اقدس
میں پہنچے۔بعدازاں حضرت سیداشرف جہانگیرسمنانی اپنے پیرومرشدحضرت علاؤ
الدین گنج نبات رحمۃ اﷲ علیہ کے حکم پرتبلیغ دین متین کے لئے روانہ ہوگئے ۔
حضرت مخدوم سیداشرف جہانگیرسمنانی رحمۃ اﷲ علیہ نے اپنی زندگی سیاحت وتبلیغ
دین متین میں گزاری اورسیاحت کے دوران کئی سوبزرگان دین سے فیض حاصل
کیا۔ہندوستان میں ہندؤں کے مقدس مقام اجودھیاکے قریب پہنچے اورکچھوچھہ شریف
،ضلع امبیڈکرنگر(یوپی)میں اپنی خانقاہ قائم کی۔آپ کا شماراولیاء کبارمیں
ہوتاہے ،تاریخ اسلام میں چند نابغہ روزگارہستیاں ہیں جنہوں نے
دنیاومافیہاسے قطع تعلق کرکے تبلیغ اسلام کی خاطر سب کچھ نچھاورکردیاہے، ان
میں سیدناحضرت ابراہیم ابن ادہم اورحضرت مخدوم اشرف رحمۃ اﷲ علیہما سرفہرست
ہیں۔آپ نے نفس امارہ کو جلاکرخاکستر کردیاتھا،آپ کی بے شمارکرامات وفضائل
ہیں ،آپ کادربارنہایت ہی بافیض وبابرکت ہے ،ظاہری وباطنی امراض کا علاج آپ
کے درباراقدس میں ہواکرتاہے ،ہمارامشاہدہ ہے کہ وہ مریض یا پاگل ودیوانہ
لوگ جو دربدرکی ہزاروں ٹھوکریں کھاچکے ہوں اورہرطرف سے مایوسی وبے مراد
ہوچکے ہوں جب وہ اپنی مرادیں اوراپنے امراض کی شکایتیں بارگاہ مخدوم اشرف
میں لایاکرتے ہیں تو بفضل الٰہی تمناؤ ں کی کلیاں کھل جاتی ہیں اوردیوانہ
وپاگل پن دوراورامراض مہلکہ سے کامل نجات مل جاتی ہیں۔
آپ کے ملفوظات لطائف اشرفی میں ہے کہ ایک مرتبہ آپ مریدین کے ساتھ سفرمیں
تھے اور کھانے کے لئے کچھ نہیں تھا،حضرت مخدوم اشرف نے فرمایا کے
زنجیرکاایک کڑالاؤ جب مریدوں نے کڑالاکردیاتوآپؒ نے اس کڑے کو سمندرمیں ڈال
دیاجب اس کو نکالاگیا تو مرید ین نے بچشم سردیکھا کہ وہ زنجیرکاکڑا سونے
میں تبدیل ہوچکاتھا پھراس کوبیچ کراپنے مصرف میں لایاگیا۔آپ کے مرشدبرحق
مخدوم الاولیاء حضرت سیدعلاء الحق پنڈوی رحمۃ اﷲ علیہ (مالدہ ،بنگال)سے آپ
نے کافی اکتساب فیض کیاہے آپ مرشد برحق سے اتنے قریب تھے کہ'' پِیْر''کی
نماز جنازہ آپ نے ہی پڑھائی تھی۔ آپ( فیض آباد)موجودہ ضلع
امبیڈکرنگر(یوپی)کے قصبہ بسکھاری تشریف لائے تو وہاں کاپانی بہت کھاراتھاجب
آپ کی خدمت میں پانی پیش کیاگیا تو آپ نے فرمایا’’بس کھاری‘‘یعنی بس کرو یہ
پانی بہت کھاراہے آگے بڑھے تو وہاں کا پانی تھوڑا اچھایعنی میٹھاتھاتوحضرت
نے فرمایا یہ پانی کچھ اچھاہے،اﷲ کے ولی کی زبانی تاثیردتویکھئے کہ آج پوری
دنیادونو قصبوں کو’’ بس کھاری‘‘ اور ’’کچھوچھہ‘‘کے نام سے یاد کرتی ہے۔
حضرت مخدوم اشرف سمنانی کے مزارمقدس سے متصل'' نیرشریف'' امراض جسمانی کے
لئے باعث تریاق ہے ،بتایا جاتاہے کہ اس حوض کو کھودتے وقت صوفیاء کی جماعت
پہلے لاالٰہ الااللّٰہ کاضرب لگاتی ہے اور پھرپھاؤڑاچلاتی ہے،یہ بھی
مشہورہے کہ اس میں زم زم شریف کا پانی لاکر بھراگیاتھا جس کی برکت سے آج
ایک جم غفیرفیض یاب ہورہاہے۔آپ کی ساری خدمات،تعلیمات،تصنیفات اورکرامات
تصوف کی جامع ومانع کتاب’’ لطائف اشرفی ‘‘میں موجودہے جس کو آ پ کے چہیتے
خلیفہ علامہ نظام الدین یمنی نے مرتب کیاہے جوہمارے لئے انمول تحفے
ہیں۔حضرت کی نسل حاجی سید عبدالرزاق نورالعین ؒسے چلی ہے جوآپ کے بھانجے
ہیں جنہیں آپ نے اپنی فرزندی میں قبول فرمایاتھا، ان ہی کی دین ہے کہ آج
سادات کچھوچھہ دینی،ملی،سیاسی، تبلیغی،تحریری،تقریری میدان میں ہند وبیرون
ہندمیں دین متین کی خدمات انجام دیتے ہوئے نظرآرہے ہیں جوکہ ایک ناقابل
فراموش حقیقت ہے۔
آپ نے اپنی گوناگوں اورمتنوع مصروفیات اورمشاغل کے باوجودتصنیف وتالیف
کاایک گراں قدرذخیرہ چھوڑاہے ۔قلم میں مبدءِ فیاض نے بے پناہ قوت اورکشش
ودیعت فرمائی تھی۔زبان پُراثراورطاقت وراستعمال فرماتے۔آپ کے تمام قلمی
جواہرپارے جواب تک تحقیق میں آئیں مندرجہ ذیل ہیں:
(۱)رسالہ غوثیہ۔ اس رسالے میں منصب غوثیت سے متعلق باتوں کااندراج ہے۔(۲)رسالہ
مناقب اصحاب کاملین ومراتب خلفاء راشدین(۳)بشارت
الاخوان(۴)ارشادالاخوان(۵)فوائدالاشرف(۶)اشرف الفوائد:ان تمام تصانیف میں
تصوف ومعرفت کے رموزواسرارظاہرکئے گئے ہیں اوریہ تصنیفات حضرت مخدوم اشرف
سمنانی علیہ الرحمہ کی ابتدائی کاوشوں کی آئنہ دارہیں۔(۷)رسالہ بحث وحدۃ
الجود:آپ نے اس رسالے کوروم میں تصنیف فرمایاتھااوراس کتاب میں تصوف کی
مصطلحات
کااہتمام والتزام بکثرت تھا۔(۸)تحقیقات عشق:اس کتاب میں عشق کی توجیہ
وتشریح متصوفانہ اندازپر کی گئی ہے جوخیال انگیزبھی اوربصیرت
افروزبھی،تحقیقات عشق کاایک قلمی نسخہ کتب خانہ اشرفیہ کچھوچھہ شریف میں اب
بھی موجودہے۔(۹)مکتوبات اشرفی:یہ کتاب آپ کے مکتوبات کاایک گرانقدرمجموعہ
ہے جسے آپ کے بھانجے اورخلیفہ ٔ اعظم مولاناسیدعبدالرزاق نورالعین رحمۃ اﷲ
علیہ نے مرتب فرمایاتھا۔(۱۰)اشرف الانساب:سلاطین اورمشائخ عظام کے سلسلہ
ہائے نسب۔(۱۱)مناقب السادات:سیادت کے فضائل ومناقب پریہ رسالہ مشتمل ہے۔(۱۲)فتاوائے
اشرفی (۱۳)دیوان اشرف:آپ کے کلام بلاغت نظام کامجموعہ۔(۱۴)رسالہ تصوف
واخلاق(بزبان اردو)(۱۵)رسالہ حجۃ الذاکرین(۱۶)بشارۃ المریدین -رسالہ
قبریہ(۱۷)حاشیہ ہدایہ۔
آپ کے بہت سے ارشادات زرّیں ہیں جوآب زر سے لکھنے کے قابل ہیں ۔ان میں سے
چندیہاں پیش کئے جاتے ہیں۔
٭زاہدبے علم شیطان کاتابعدارہوتاہے٭عالم بے عمل ایساہے جیسے بے قلعی
کاآئینہ٭جوشخص بے محل علمی گفتگوکرتاہے تواس کے کلام کے نورکادوحصہ ضائع
ہوجاتاہے٭اگرکوئی جان لے کہ اب اس کی زندگی میں صرف ایک ہفتہ باقی رہ گئے
ہیں توچاہئے کہ علم فقہ میں مشغول ہوجائے کیوں کہ علوم دین سے ایک مسئلہ
جان لیناہزاررکعت سے افضل ہے٭ہربزرگ کی کوئی بات یادکرلواگریہ نہ ہوسکے
توان کے نام ہی یادکرلوکہ اس سے نفع پاؤ گے٭اگرکسی صوفی کودیکھواوروہ
تمہاری نظرمیں نہ جچے تواس کوذلیل نہ سمجھوکہ یہ محرومی کی دلیل ہے٭جب کسی
شہرمیں پہونچوتووہاں کے بزرگوں کی زیارت کروپھروہاں کے بزرگوں کوقبورکی
زیارت کے لئے جاؤ٭خداہرمسلمان کوبخل سے بچائے اس لئے کہ بخل کافروں کی
خصوصیت ہے٭جوشخص ریاضت ومجاہدہ نہ کرے گااس کودولت مشاہدہ نہیں حاصل
ہوسکتی٭خداکادوست جاہل نہیں ہوتا٭کسی کوچشم حقارت سے نہ دیکھواس لئے کہ بہت
سے خداکے دوست اس میں چھپے رہتے ہیں٭محب کامحبوب کی ذات میں فناہوجانے
کانام توحیدہے٭صوفی وہ ہے جوصفات خداسے متصف ہوسوائے وجوب وقدم کے٭خدمتِ
خلق نوافل پڑھنے سے بہترہے٭رات کاکھاناکبھی نہ چھوڑناچاہئے اس لئے کہ اس سے
ضعف اوربڑھاپاپیداہوتاہے۔(لطائف اشرفی)
وصال پرملال: ۲۸؍ محرم الحرام ۸۰۸ھ کوآپ کی روح بارگاہ قدس میں پروازکرگئی۔
(اِناللّٰہ واِناالیہ راجعون)آپ کامزارپُرانوارکچھوچھہ شریف ضلع
امبیڈکرنگر(یوپی)میں مرجع خلائق ہے۔آخرمیں مولیٰ تعالیٰ کی بارگاہ عالی جاہ
میں دعاء گوہوں کہ آپؒ کافیضان ہم تمام مسلمانوں پرتاقیامت جاری وساری
فرمااوران نفوس قدسیہ کی سچی الفت و محبت عطافرما۔آمین بجاہ النبی الامین
صلی اﷲ علیہ وسلم۔
|