نئی حکومت ابھی اپنے قدم جمانے کی کوشش میں ہے۔ اگرچہ
بیشتر چہرے پرانے ہی ہیں لیکن نئی قیادت نے عوامی توقعات میں اضافہ کر رکھا
ہے۔ ہمارے ہاں ایک روایت ہے کہ آنے والی حکومت جانے والوں کے پیدا کردہ
معاشی بحران کا رونا روتی ہے اور اس بحران کو عوام پہ ڈالنے کے لیے مختلف
راستے اپناتی ہے۔ یہ سلسلہ یونہی چلا آ رہا ہے اور چلتا رہے گا۔ گذشتہ
حکومت نے جب اقتدار سنبھالا تھا تو معاشی بحران کا ملبہ پیپلزپارٹی پہ
گرایا گیا تھا۔ انتخابی مہم میں میاں شہباز شریف ببانگ دہل آصف علی زرداری
کو سڑکوں پہ گھسیٹنے اور لوٹی دولت واپس لانے کے دعوے کیا کرتے تھے۔ حکومت
میں آنے کے بعد سب کچھ برعکس نکلا۔ نہ کسی کو سڑکوں پہ گھسیٹا گیا نہ معاشی
بحران سے نجات حاصل ہوئی۔ الٹا قرضوں میں ہی اضافہ دیکھنے کو ملا۔
پھر مملکتِ خداداد کے عوام نے دیکھا کہ ایک شخص نہ صبح دیکھتا ہے نہ رات۔
سڑکوں پہ عوام کے لیے احتجاج کرتا ہے۔ کشکول توڑنے، مہنگائی ختم کرنے،
اسٹیٹس کو سے نجات اور خودداری کی باتیں کرتا ہے۔ عوام نے اُسے ووٹ دیے اور
مسندِ اعلیٰ پہ بٹھا دیا۔ اس نے اپنے ساتھ بیش بہا کھوٹے سکے شامل کر لیے
لیکن عوام کا اعتبار قائم رہا کہ ایک ایماندار اور خوددار قیادت کی موجودگی
میں بہت کچھ بدلا جا سکتا ہے۔ تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔ آنے والے نے اپنے
گھر سے تبدیلی کا آغاز کیا۔ گذشتہ حکمرانوں کی طرح شاہانہ طرزِ رہائش
اختیار کرنے کی جگہ سادگی اپنائی۔ وزیراعظم ہاؤس کی گاڑیاں اور بھینسیں تک
نیلام کیں تا کہ خزانہ کا پیٹ بھرا جا سکے۔ اور پھر عوام کو صبر کی تلقین
کرتے ہوئے مہنگائی کا بند کھول دیا گیا۔ محصولات میں ہوش ربا اضافہ کر دیا
گیا اور آخری حل کے طور سابقہ حکومتوں کی تقلید کرتے ہوئے کشکول پکڑ کر آئی
ایم ایف کی جانب جانا بھی گوارا کر لیا گیا کہ ایسا ملک و قوم کے وسیع تر
مفاد میں ضروری ہے۔ اس میں کچھ اچھنبے کی بات نہیں ہے۔ ایسا ہوتا آیا ہے
اور ہوتا رہے گا۔ احتجاج اور انتخاب کی سیاست الگ معاملہ ہے اور زمینی
حقائق الگ۔ نئی حکومت ابھی ہنی مون منا رہی ہے۔ پہلے چھ مہینے سال تو حکومت
کو چیزیں سمجھنے میں لگ جاتے ہیں اس لیے کسی بھی حکومت سے اولین ساعتوں میں
کسی بڑے معرکہ کی توقع نہیں رکھی جا سکتی لیکن یہ بات یقینا حیرت اور تشویش
کا باعث ہے کہ حکومت نے ابتدائی ایک دو مہینوں میں جو عوام کے لیے اتنے سخت
حالات بنا دیے ہیں تو آنے والے دنوں میں اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔
دوسری جانب نوازشریف کی ضمانت اور خاموشی کئی فسانوں کو جنم دے رہی ہے۔
کہیں ڈھیل کی باتیں ہو رہی ہیں اور کہیں ڈیل کی۔ واﷲ عالم کیا چل رہا ہے۔
لیکن حیرت ہوتی ہے اس ملک کے نظامِ انصاف پہ کہ اس کی کوئی بھی کل سیدھی
نہیں۔ اس ملک کی عدالتوں میں لاکھوں لوگ روزانہ عدالتوں کے چکر لگاتے ہیں
اور برسوں سے ایسا کر رہے ہیں لیکن انصاف نہیں مل رہا۔ مگر وہیں سیاستدانوں
کے مقدمات میں بڑی پیش رفت نظر آتی ہے۔ ہنگامی بنیادوں پہ عدالتیں لگتی
ہیں۔ مقدمہ چرچا میں رہتا ہے۔ کبھی ایک کو سزا تو کبھی دوسرے کو لیکن نہ تو
ملک کو کچھ واپس ملتا ہے اور اور نہ عوام کو سہولت میسر آتی ہے۔ یہ سزائیں
اور عدالتی فیصلے بھی سنیما کے باہر لگے اشتہارات سے زیادہ اثر نہیں رکھتے
جو ہر جمعہ کو تبدیل کر دیے جاتے ہیں۔ بس ایک تماشا ہے جو ناظرین کو مصروف
رکھتا ہے۔ منصفین کو چاہیے کہ سوشل میڈیا کی چاندنی سے نکل کر عدالت کے
اندھیرے گوداموں میں دیکھیں کہ کتنے مقدمات کے کاغذات ردی ہو چکے ہیں۔
دیمک نے چاٹ لی ہیں عدالت کی فائلیں
منصف کے پاؤں ہیں کہ تھرکتے ہیں تال پر
ہمارے منصفین کو چاہیے کہ عوام کے لیے انصاف کا راستہ ہموار کریں۔ اب تو
ایک عوامی درد کو سمجھنے والی حکومت برسرِ اقتدار ہے۔ اب تو منصفِ اعلیٰ کو
قرار آ جانا چاہیے۔ اپنے ادارے کو دیکھنا چاہیے اور جو حکومت کے کام ہیں
انھیں حکومت کے پاس ہی رہنے دینا چاہیے۔ بجائے کہ کیمرہ مین اور سیکیوریٹی
کے ساتھ چھاپہ مار مہم جاری رکھنے کے اپنی عدالتیں سنبھالنی چاہیے۔ منصفِ
اعلیٰ کو یہ بات سمجھنے چاہیے کہ اس کا کام عدالت میں آنے والے مقدمات سننا
اور ان پہ فیصلہ دینا ہے۔ انتظامی امور حکومت کے ذمہ ہیں سو حکومت کو ہی یہ
کام کرنے دینا چاہیے۔ اگر منصفین عدالتیں چھوڑ کے کسی اور کام میں لگے رہیں
گے تو انھیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ان کی کمائی بھی اسی طرح حرام ہے جس طرح
ایک راشی عہدے دار کی۔ حکومت کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اداروں کو ان کے آئینی
دائرہ کار میں رکھے۔ ورنہ آنے والے دنوں میں خود حکومت کے لیے بہت سے مسائل
پیدا ہو سکتے ہیں۔
گذشتہ چند دنوں میں کئی لاپتہ افراد کی گھروں کو واپسی ہوئی ہے جو خوش آئند
ہے۔ اب بھی ہزاروں لوگ ہیں جو اپنے گھروں سے اٹھائے گئے لیکن پھر واپس نہیں
آئے۔ اغواہ کرنے والے انھیں خلا کے کس حصہ میں کتنا عرصہ رکھتے ہیں اس بابت
مملکتِ خداداد کے مکین لاعلم ہی رہتے ہیں۔ ریاست کو اس بارے میں ایک جامع
حکمتِ عملی بنانے کی ضرورت ہے۔ اگر ریاست کا کوئی ادارہ کسی شخص سے تحقیق
کرنا چاہتا ہے یا کسی کو حراست میں لیتا ہے تو اس کے لیے اسے عدالت کے حکم
کا پابند ہونا چاہیے۔ ایک جمہوری اور آئینی ملک کے اندر اغواہ کا عمل
برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ اس معاملے میں ملک میں کام کرنے والی انسانی حقوق
کے اداروں کو عالمی سطح پہ اپنا مؤقف بھرپور انداز میں پیش کرنا چاہیے اور
ان کے تعاون سے حکومت پہ دباؤ بڑھانا چاہیے کہ ملک میں بنیادی انسانی حقوق
کی پائمالی نہ ہو۔ موجودہ حالات میں جبکہ حکومت مالی امداد کے لیے آئی ایم
ایف کی جانب دیکھ رہی ہے۔ عالمی سطح پہ دباؤ حکومت کو ریاستی اداروں کی
ایسی پالیسیوں سے متعلق اصطلاحات پہ مجبور کر سکتا ہے۔ |