قحط الرجال کے موجودہ زمانے میں زندگی کی برق
رفتاریوں کے باعث جہاں زندگی کی اقدارِ عالیہ و درخشاں ر وایات پرجان کنی
کا عالم ہے وہاں ماضی کی متعدد تہذیبی اور ثقافتی نشانیاں بھی تاریخ کے
طوماروں میں دب گئی ہیں ۔ ٹیلی فون ،برقی ڈاک ،وڈیو رابطے اورمختصر پیغام
رسانی کی خدمات کی مقبولیت کی وجہ سے اب تار کا نظام تو اس طر ح غائب ہو
گیا ہے جیسے گدھے کے سر سے سینگ ۔ خطوط کی ترسیل پر بھی ان دنوں کم کم توجہ
دی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ گلی کُوچوں ،بستیو ں اور آبادیوں میں ڈاک کا
ہرکارہ بھی اب شاذ و نادر ہی دکھائی دیتا ہے ۔اس کے باوجود جب کبھی محکمہ
ڈاک کا ہرکارہ لفافے میں لپٹا ہوا بیرون ملک یا ارضِ وطن کے دور دراز
علاقوں ہمارے کسی عزیز کا مکتوب ہاتھ میں تھامے گھر کے دروازے پر دستک دیتا
ہے تو دِل میں اِک لہر سی اُٹھتی ہے ، وجدانی کیفیت میں روح کی کلی کِھل
اُٹھتی ہے اورخط کے پڑھتے ہی دامن ِ دِل معطر ہو جاتا ہے ۔اس عالمِ آ ب و
گِل میں کروڑوں لوگ ایسے ہیں جنھیں مکتوب نگاری کی اہمیت و افادیت کا علم
نہیں ۔اسی طر ح معاشرتی زندگی میں بے شمار لوگ ایسے بھی موجود ہیں جنھیں
کسی نے کبھی کوئی خط نہیں لکھا اور وہ گوشہ نشینی کی زندگی بسر کررہے ہیں
۔کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کے گھر کے دروازے پر کبھی کبھا ر نامہ بر نمودار
ہوتا ہے اور انھیں زندہ ہونے اور دنیا میں موجود ہونے کا احساس دلاتا ہے
۔اس کے ساتھ ہی انھیں اس بات کا پختہ یقین ہو جاتا ہے کہ جن لوگوں کے ساتھ
خلوص اور درد مندی کا رشتہ استوار کیا تھا ان کی غم گساری نے پریشاں حالی و
درماندگی میں سدا اُن کی دست گیری کی اور خطوط کے سہارے زندگی کے سخت
مقامات سے گزرنے کا حوصلہ عطا کیا ۔ سچ تو یہ ہے کہ میرا شمار بھی ایسے ہی
خوش قسمت افراد میں ہوتا ہے ۔ ایک ماہ قبل میں نے اردو زبان کے ممتاز ادیب
نیر اقبال علوی کے حال ہی میں شا ئع ہونے والے افسانوی مجموعے پر ایک مختصر
تبصرہ تحریر کیا اور اپنی بے لاگ رائے سے افسانہ نگار کو مطلع کیا ۔اس کے
بعد چند روز قبل مجھے نیر اقبال علوی کا ایک مکتوب ملا۔ اس مکتوب میں انھوں
نے میری رائے کو قدر کی نگا ہ سے دیکھا۔ اس کے ساتھ ہی مجھے ٹیلی فون کر کے
میری تنقیدی رائے کو بہ نظر تحسین دیکھتے ہوئے میرا شکریہ بھی ادا کیا۔ اس
مکتوب میں نیر اقبال علوی نے میرے اسلوب اور شخصیت کے بارے میں جن پر خلوص
جذبات کا بر ملا اظہار کیا وہ ان کی وسعت نظر کی دلیل ہے ورنہ من آنم کہ من
دانم ۔ مجھ ناچیز کے بارے میں میرے احباب کی یہی رائے کہ میری زندگی ایک
کُھلی کتاب کے مانند ہے ۔نیر اقبال علوی نے میری حیات کاا فسانہ پڑھنے کے
بعدجو نتائج اخذ کیے وہ ان کی تنقیدی بصیرت ،عالی ظرفی اور ادب پروری کا
ثبوت ہے ۔ عالمی ادب کے نباض اور ایک بلند پایہ تخلیق کار کی حیثیت سے نیر
اقبال علوی نے اپنے معاصر ادیبوں کو جوخطوط لکھے ہیں وہ ان کی ا دبی زندگی
کا بیش بہا اثاثہ ہیں ۔اپنے اس اہم اس مکتوب میں انھو ں نے نظریہ ٔ علم
،ادب ،تاریخ ،فلسفہ، فنون لطیفہ ،تنقید و تحقیق ، علم بشریات ،نفسیات
،سماجی روّیوں اور معاشرتی مسائل پر روشنی ڈالی ہے ۔ تجزیاتی نوعیت کے اس
مکتوب کی ہمہ گیر اہمیت و افادیت کی وجہ سے ذیل میں یہ مکتوب من و عن پیش
ہے اس کے بعد اس وقیع مکتوب کا جواب حاضر ہے :
لاہور
7اکتوبر ۔2018
محترمی و مکرمی ڈاکٹر صاحب
سلام مسنون:۔ امید ہے بہ فضل ِ تعالی مع اہل و عیال آپ بخیر و عافیت ہوں
گے۔آپ کی کرشماتی شخصیت کی کشش ہے یا میری بڑھتی ہوئی تشنگی کہ ہلچل دروں
اس خواہش کوانگیخت کررہی ہے کہ آپ نے جس محبت، خلوص اور عرق ریزی کے ساتھ
میری کتاب پر تبصرہ کیاایسا لگا کہ یہ سب کجھ میری حیثیت سے بہت زیادہ تھا
۔ اگر چہ فون پر میں نے ا ٓپ کا شکریہ ادا کردیامگر جی کو تسلی نہ ہوئی۔
چناں چہ آشوب چشم کے باوجود قلم پکڑا تو کچھ یوں محسوس ہوا۔
اب اس کی سمت ہی بہتا رہے گا یہ دریا!
کہ جب تک یہ سمند ر سے جاملے گا نہیں ڈاکٹر صاحب !حقیقت یہ ہے کہ
ــــ’’پاگل خانہ ‘‘پر آپ کا سیرحاصل تجزیہ بلاشبہ میرے کا م پر ایک صاحبِ
علم دانش ور اور اہل قلم کی قیمتی اور صائب آرا ہے جس سے مجھ خاکسار کی
دلجوئی اورمیری تحریروں کو توقیر نصیب ہوئی لیکن اس سے بڑھ کر یہ احساس
نہایت خوش کن اور فرحت بخش کہ قدرت نے مجھے ایک ایسی ممتاز ، منفرد اور
گوناں گوں اوصاف کی حامل ہستی سے متعارف کروایا جس پہ میں جس قدر نازاں
ہوسکوں اتنا ہی کم ہے ۔آپ کی تحریریں میرے نزدیک آپ کی شخصیت کا مکمل عکس
ہیں ۔جس بے مثال اور انمول طریقے سے آپ نے راہیٔ ملک عدم ہو نے والے یا
معاصر زندہ ادیبوں اور پھرغیر ملکی( روسی نژاد)ادیبوں کی علمی وادبی خدمات
کو سراہتے ہوئے دل کھول کر انہیں نہ صرف ہدیۂ تبریک پیش کیا بلکہ ان کے
کارناموں اور ان کی شخصی خصوصیات پر جس طرح عمیق روشنی ڈالی ہے وہ ایک
بہترین شخصیا ت کا حامل شخص ہی کر سکتا ہے ۔ وگرنہ آج ہماری اخلاقی پستی کا
یہ عالم ہے کہ کسی کی تعریف کرنے کے لیے دو جملے تحریر کرنے کے لیے بھی بخل
سے کام لیتے ہیں ۔ علاوہ ازیں اس کے علاوہ ایک اور خصوصیت جو میری نظر سے
گزری وہ یہ کہ آپ جو کچھ بھی لکھتے ہیں گویاغواص غوطہ خوری کے بعد تہہِ آب
سے ہر مرتبہ ایک گوہرِتاب دار اُٹھا لائے اور پھر دیکھنے والے کی آنکھیں اس
کی چکا چوند سے خیرہ ہو جائیں ۔
ایسی ہی کئی خوبیا ں آپ کی پر کشش آواز سے بھی جھلکتی ہیں ۔ ایک متوازن
لطافت سے بھر پور دھیمی آواز، جس میں انسان دوستی اور حساس دل کی دھمک
ہویدا، ایسا ٹھہراؤ کہ بہتی ہوئی ندی کے پا نی کی سرسراہٹ، ایسی شیریں
گفتار کہ دوسروں کے من موہ لے بہ ہر کیف یہ کوئی خوشامدانہ لفاظی نہیں بلکہ
حقیقت ہے ۔ میں نے آپ کی شخصیت کا جو تجزیہ کیا ہے یہ اس کا نتیجہ ہے۔ یہ
ایسی جامع و تابناک اوراعلیٰ ترین اوصاف کی حامل وہی شخصیت ہو سکتی ہے جو
صاحبِ علم ، زندگی کی نبض پہ جس کا ہاتھ اور سینے میں ایک حساس ، تڑپنے اور
پھڑکنے والادِل ہو ۔ مجھ پر اﷲ تعالی کی خاص عنایت ہے جس نے میرے انتخاب
میں برکت ڈالی اور میری کتاب آپ جیسے معتبر و معزز شحص کے ہاتھ آئی جس نے
مجھے بھی مکرم کیا ۔
ڈاکٹر صاحب : جیتے رہیے ، خوش و خرم رہیے۔ میں آپ کے بلند مرا تب ، آپ کی
صحت و خوشحالی اور افراد خانہ کی کامرانی کے لیے دعا گو ہوں ۔ میر ے لبوں
سے سدا آپ کے لیے دعائیں نکلیں گی۔ زندگی نے وفا کی تو مستقبل میں بھی آپ
سے رابطے رہیں گے۔ بہت شکریہ ۔ ’’ نوائے شوق ‘‘ کی ایک کاپی بہ طور تحفہ
ارسال کر رہا ہوں۔
نوٹ : یہ کتاب کسی مسلک کی نمائندہ اور نہ ہی کسی مکتبہ فکر پہ تنقید کے
حوالے سے لکھی گئی۔ اس کو فقط بہ حیثیت ’’ مسلمان‘‘ پڑھیے گا ۔ کا ش اس وقت
میں آپ کے آ س پاس ہوتا تو
آپ سے اکتساب فیض کر سکتا۔
نیر اقبا ل علوی
7اکتوبر ۔2018
تخلیق ادب نیر اقبال علوی کی زندگی کا نمایاں وصف ہے ۔ مکتوب نگاری میں نیر
اقبال علوی کا اسلوب محدب عدسے کے مانند منفرد ہے ۔اس زیرک اور معاملہ فہم
مکتوب نگار کی نگاہ سے کوئی بات پوشیدہ نہیں رہ سکتی ۔ اپنے معتمد ساتھیوں
اور قریبی احباب کے ساتھ معتبر ربط ،توقعات ،خواہشات ،اُمنگیں اور تمنائیں
وابستہ رکھنا انسانی فطرت ہے ۔جب یہی جذبات دِل کو زور بے قرار کرتے ہیں تو
تزکیہ نفس کی خاطرقلم و قرطاس کا سہار لیا جاتا ہے ۔دلِ خوش فہم کے ارمان
اور جذباتی ہیجان جب الفاظ کے قالب میں ڈھل کر کاغذکے صفحے پر منتقل ہوتے
ہیں تو ان کی اثر افرینی قلب اور روح کی اتھاہ گہرائیوں میں اُتر جاتی ہے
اور سنگلاخ چٹانوں اور جامد و ساکت پتھروں سے بھی اپنی تاچیر کا لوہا منوا
لیتی ہے ۔ اپنی نوعیت کے اعتبار سے خطوط اسی قسم کے جذبات سے مزین تحریروں
کے امین ہوتے ہیں ۔یہ خطوط جب مکتوب الیہ تک پہنچتے ہیں تو طلسم ہوش رُبا
کی صورت میں روح اور قلب کو ملاکر اس طرح اپنا رنگ جماتے ہیں کہ قاری ششدر
رہ جاتا ہے ۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ مکتوب نگار کے مافی الضمیر کے آئینہ
دار جذبات جو کاغذ کے ایک بے جان سے ٹکڑے پر لکھے ہوتے ہیں مکتوب الیہ کو
مصاحبت اور پر جوش معانقے کی مروّت کا احساس دلاتے ہیں ۔ اپنے مکاتیب میں
کارِ جہاں کی عکاسی کرتے وقت نیر اقبال علوی نے اپنے تجربات ،مشاہدات اور
قلبی کیفیات کو جس حقیقت پسندانہ انداز میں پیرایۂ اظہار عطا کیا وہ ان کی
جرأتِ اظہار کا منھ بولتا ثبوت ہے ۔مکتوب نگار اپنے ذہن و ذکاوت،بصیرت اور
ذوق سلیم کو بروئے کار لا کر نہایت اعتماد اور راز داری سے کام لے کر مکتوب
الیہ کو اپنا حالِ دِل لکھتے وقت یدِ بیضا کا معجزہ دِکھاتا ہے ۔ ا س خط کے
متن کے مطالعہ سے نیر اقبال علوی کی علم دوستی ،ادب پروری اور جذبۂ انسانیت
نوازی کے تمام پہلو کُھل کر سامنے آ جاتے ہیں ۔اچھے مکاتیب کا امتیازی وصف
یہ ہے کہ ان میں اپنا ئیت اور بے تکلفی کی فراوانی ہوتی ہے۔ ابد آشنا اسلوب
سے مزین خطوط میں سنی سنائی بے سرو پا باتوں، حِزم وحِجاب اور تصنع کا کہیں
شائبہ تک نہیں ہوتا ۔خطوط ادھوری ملاقاتوں کے آئینہ دار ہوتے ہیں جن میں
خلوص و مروّت کی نگاہیں ،پیار و ایثار کی پناہیں ،واردات ِقلبی کی گھاتیں
،تنہائی میں بیتنے والی راتیں ،پرانے آ شنا چہروں کی باتیں ،ایام گزشتہ کی
یادیں ،برادرانِ یوسف کے ستم اور الم نصیبوں کی فریادیں اس انداز میں جلوہ
گر ہوتی ہیں کہ لوحِ دِل پر ان کے انمٹ نقوش مرتب ہوتے ہیں ۔ فنی اعتبار سے
مکتوب نگاری کو بالعموم دوہری مسرت و انبساط کی امین تخلیقی فعالیت سے
تعبیر کیا جاتا ہے ۔مکاتیب کا تجزیاتی مطالعہ کرتے وقت اس تخلیقی فعالیت کی
حقیقت کُھل کر سامنے آ تی ہے پہلی مرتبہ یہ لمحۂ موجود کے بارے میں ایک
گونہ بے خودی ،نشاط اور سرشاری کو مہمیز کرتی ہے ۔ا س کے ساتھ ہی زندگی کی
مسحور کن یادوں ،ایام ِگزشتہ کی کتاب کے اوراق اور لوحِ دِل پر نقش پیمانِ
وفا کا انسلاک بھی مکاتیب کے ساتھ کیا جاتا ہے ۔ جس وقت جانگسل تنہائیوں
اور سمے کے سم کا ثمر زندگی کی تمام رُتوں کو بے ثمر کر دے تو ایسے لمحے
میں وفا شعار احباب کے مکاتیب طلوع ِ صبحِ بہاراں کی نوید لیے افق ِ خیال
پر طلوع ہوتے ہیں جن کی عطر بیزیاں مکتوب الیہ کو جہانِ تازہ میں پہنچا
دیتی ہیں ۔اس مکتوب میں ایک جہاں دیدہ ادیب نے ادب کے ایک عام طالب علم کے
اسلوب کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے وہ قابلِ توجہ ہے ۔مکتوب نگار کی دُور
بین نگاہوں نے اس تلخ حقیقت کو دیکھ کر دلی کرب کا اظہار کیا ہے کہ ہماری
تنقید نے انجمن ستائش باہمی کی صورت اختیار کر لی ہے ۔ضعفِ بصار ت کے
موجودہ دور میں ہیولے ،بگولے اور گرد باد کو گھنگھور گھٹا کہنے والے بھاڑ
جھوکنے والے مسخروں نے لُٹیا ہی ڈبو دی ہے ۔اس مکتوب کے ایک ایک لفظ سے
مکتوب نگارکی آ نکھوں میں پائی جانے والی ممنونیت کے احساس کی نمی جھلکتی
ہے ۔میں یہ مکتوب پڑھ رہا تھا اور سوچ رہا تھاکہ شاید فطین مکتوب نگار کو
مابعد الطبیعات اور پیرا سائیکالوجی پر بھی کامل دستر س حاصل ہے ۔اس مکتوب
کے الفاظ کا مرہم کس قدر کارگر ہے وہ اس میں درج جملوں سے عیاں ہے ۔بے لوث
محبت کی چاشنی ،بے باک صداقت کی تمازت اور حریت فکر کی عطر بیزی اس مکتوب
کو حیران کن ادب پارے کا درجہ عطا کرتی ہے ۔ادب کے مجھ جیسے معمولی گوشہ
نشیں طالب علم کی ایک بر جستہ اور ارتجالاً تجزیاتی تحریر کی اس قدر غیر
معمولی پزیرائی در اصل ایک کہنہ مشق ادیب کی ایسی حوصلہ افزائی ہے جس کے
لیے دِل سے دعا نکلتی ہے ۔سپاس گزاری ،حوصلہ افزائی ، بر محل ستائش و تحسین
اور تشریح و توضیح کا یہ ارفع معیار مکتوب الیہ کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیتا
ہے۔ نیر اقبا ل علوی نے اپنے اس مکتوب میں اردو ادب میں صحت مند تنقید کے
فقدان کی جانب اشارہ کیا ہے ۔شاید اسی وجہ سے پروفیسر کلیم الدین احمد نے
اردو میں تنقید کے وجود کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیاتھا اور اپنی کتاب ’’
اردو تنقید پر ایک نظر ‘‘میں لکھا تھا:
مشکل ہے کہ اِک بندہ ٔ حق بِین و حق اندیش
خاشاک کے تودے کو کہے کوہِ دماوند
’’ اُردو میں تنقید کا وجود محض فرضی ہے ۔یہ اقلید س کا خیالی نقطہ ہے یا
معشوق کی موہوم کمر ۔‘‘ ( کلیم الدین احمد : اردو تنقید پر ایک نظر ،لکھنو
1957،صفحہ 10)
صنم کہتے ہیں تیرے بھی کمر ہے
کہاں ہے ؟کس طرف کو ہے؟ کدھر ہے؟
ہمارے معاشرے میں ادیب کی زندگی میں اس کی علمی و ادبی خدمات کا اعتراف
کرنے کے سلسلے میں جس اذیت ناک بُخل اور افسوس ناک بے حسی کامظاہرہ کیاجاتا
ہے وہ قومی وقار اور ملی تشخص کے لیے بہت بُرا شگون ہے ۔ اردو کے عظیم مزاح
نگار مشتاق احمد یوسفی نے کی جانب متوجہ کرتے ہوئے لکھا ہے :
’ ’ اگر کوئی اُردو نقادکسی مصنف کی تعریف کرے تو جان لو کہ دونوں میں سے
ایک وفا ت پا چکا ہے ۔‘‘ ( زر گزشت )
بے لوث محبت ،ہمدردانہ روّیے ،اصلاح کے جذبے ،ایثار و دردمندی اور غم گساری
کی تڑپ کا احساس دلانے والی ایک آ ہ بھی اس امر کی متقاضی ہے کہ اسے ہر حال
میں احاطہ ٔ تحریر میں لایا جائے اور اس کیفیت کو تزکیہ ٔ نفس کی خاطر کسی
محرم راز تک پہنچایا جائے ۔اس طرح آنے والی نسلیں اس نامے کو پڑھ کر واہ
کہیں گی۔فنون لطیفہ کی مہکار ،طائرانِ خوش نوا کی چہکار ،قلبی کیفیات کا
اظہار ،تخیل کی جولانی ،تخلیقی فعالیت کی پیہم روانی ،فہم و فراست کی
فراوانی ،زندگی کا ساز ،بے تکلفی کا انداز اورپیمانِ وفا کا رازسب کچھ
مکاتیب کے دِل گداز اسلوب کے معدن میں پنہاں ہے ۔خط انسان کی فہم و فراست
اور تدبر کی حقیقی کیفیت کو سامنے لاتے ہیں ۔ایک فر د کی آ پ بیتی کے مانند
خطوط بھی دِل پر اُترنے والے سب موسموں کی کیفیات کا دل کش منظر پیش کرتے
ہیں ۔اپنے جذبات ،احساسات ،خیالات اور تاثرات کو پوری دیانت اور صداقت کے
ساتھ الفاظ کے قالب میں ڈھالنا ایک مسحور کن اور چونکا دینے والا تخلیقی
عمل ہے ۔مکتوب نگاری کو ایک پارس سمجھنا چاہیے جو مِسِ خام کو کندن بنانے
کی صلاحیت سے متمتع ہے ۔ جب انسان کی کشتیٔ جاں آلامِ روزگار کے مہیب
بگولوں اور طوفان ِ حوادث کی زد میں آتی ہے تو ہجوم غم میں اس کا سینہ و
دِل حسرتوں سے چھا جاتا ہے اور یاس و ہراس کے پیدا کردہ اضطراب کے باعث اس
کا دم گھٹنے لگتا ہے ۔ایسے لرزہ خیز اور اعصاب شکن لمحات میں جب بہ زبان
قلم تکلم کے سلسلوں کا آغاز ہوتاہے غم کے بادل چھٹ جاتے ہیں اور ہجر میں
بھی وصال کی راحت کے امکانات پیدا ہو جاتے ہیں ۔
اپنے مکتوب میں نیر اقبال علوی نے انسانی مزاج ،جذبات ،جبلت ،احساس اور
فطرت کی جس موثر انداز میں ترجمانی کی ہے وہ لائق تحسین ہے ۔ انھوں نے
تحقیق و تنقید کو قلزمِ ادب کی غواصی سے تعبیر کیا ہے ۔یہاں یہ سوال پیدا
ہوتا ہے کہ ایسے غواص تو ملکوں ملکوں ڈھونڈنے سے بھی نہ مِل سکیں گے۔جدید
دور میں زندگی کی برق رفتاریوں نے عمیق مطالعہ کے مواقع معدوم کر دئیے ہیں
۔ذیل میں ادیبوں کی غواصی کی چند مثالیں پیش کی جا رہی ہیں ایسے پشتارۂ
اغلاط دیکھ کر قاری بے اختیاریا مظہر العجائب کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے ۔
رہی نا گفتہ میرے دل میں داستاں میری
نہ اِس دیار میں سمجھا کوئی زباں میری
دیوان میر ؔکے نسخہ محمود آباد ( مرتبہ ڈاکٹر اکبر حیدری )کے حوالے سے لکھا
ہے کہ ناگفتہ کے بجائے اصل متن میں نہفتہ درج ہے۔اس شعرکا اصل متن اس طر ح
ہے :
رہی نہفتہ میرے دِل میں داستان میری
نہ اِس دیار میں سمجھا کوئی زباں میری
میر تقی میر ؔ کے درج ذیل شعر کا متن بھی بدل دیا گیا ہے :
سرہانے میرؔ کے کوئی نہ بولو
ابھی ٹُک روتے روتے سو گیا ہے
میر تقی میر ؔ کے مندرجہ بالاشعرکے تبدیل شدہ متن میں ’ کوئی نہ بولو ‘ کے
بجائے ’ آ ہستہ بولو‘‘ درج ہے ۔
سرہانے میر ؔ کے آہستہ بولو
ابھی ٹُک روتے روتے سو گیا ہے
اب ولیؔ دکنی کے ایک شعر کے بارے میں نام نہاد تحقیقی غواصی کے کرشمے
دیکھیں :
دِل ولیؔ کا لے لیا دِلّی نے چِھین
جاکہو کوئی محمد شا ہ سوں
تاریخی حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ شعر ولیؔ دکنی کا نہیں ۔مغل بادشاہ
محمد شاہ کاسال جلوس 1131ہجری
(1719عیسوی )ہے جب کہ ولیؔ دکنی سال 1119ہجری (1708عیسوی )میں زینہ ٔ ہستی
سے اُتر
کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار چکا تھا ۔قاضی عبدالودود نے اس امر
کی صراحت کر دی ہے کہ یہ
شعر ولی ؔ دکنی کا نہیں بل کہ یہ شعر مضمون ؔ کا ہے ۔اصل شعر اس طرح ہے :
اِس گدا کا دِل لیا دِلی نے چھین
جا کہو کوئی محمد شاہ سوں
اپنے عہد کے معتبر نقاد پروفیسر گدا حسین افضل اور احمد بخش ناصر ؔ نے اس
قسم کی اپنی مرضی کی فرضی تحقیق کو غواصی کے بجائے تن آسان اور سہل پسند
محققین کی بد حواسی سے تعبیر کرتے ہوئے اس پر سخت گرفت کی اور اس کی بیخ
کنی پر اصرار کیا۔
کِن ہاتھوں کی تعمیر تھا میں
کِن قدموں سے پامال ہوا ( عبید اﷲ علیم)
’’قدموں سے پاما ل ہو ا‘‘ کا اچھوتا تصور قاری کو چونکا دیتا ہے ۔
ع : موسیؑ کے ہاتھ میں یدِ بیضا ہے اِک چراغ
اد ب کے عام قاری کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہے کہ ہاتھ میں ید ( ہاتھ ) کا کیا
مفہوم ہے ؟
سچ تو یہ ہے کہ مکتوب نگاری ایک ایسی تخلیقی فعالیت ہے جسے اﷲ کریم کی عطا
کی حیثیت سے ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔مکتوب الیہ جب اپنے مخاطب
کا خط پڑھتا ہے تووہ جس اطمینان اور قلبی احساس سے سرشار ہوتا ہے اُسے عطیۂ
خداوندی سمجھا جاتا ہے ۔ اس کے اعجاز سے فاصلے سمٹ جاتے ہیں اور دلوں کو
مرکزِ مہر و فا کیا جاتا ہے۔ایک بلند پایہ مکتوب نگارسیلِ زماں کے تھپیڑوں
کا احوال اس طرح بیان کرتا ہے کے آئینۂ ایام میں اس کی ہر ادا اس کے
تفکر،تدبر ،خلوص ،وفا اور ایثار کے تمام معائر کے بارے میں آگہی ملتی ہے
۔اپنی محبوب شخصیت کو اپنے پسندیدہ موضوع پر بے تکلفی سے خط لکھناذوقِ سلیم
کی دلیل ہے ۔یہی وہ محیر العقول اور حیران کن جذبہ ہے جس نے صدیوں سے
قارئینِ ادب کے دل و نگاہ کو مسخر کر رکھاہے ۔نیر اقبال علوی نے اپنے اسلوب
کے ذریعے نہ صرف اپنی قلبی و روحانی کیفیات کو پیرایۂ اظہار عطاکیا ہے بل
کہ اپنے مکاتیب کے معجز نما اثر سے اپنے قارئین کو روشن مستقبل کی جھلک
دکھائی ہے۔میں نیر اقبال علوی کا بے حد ممنون ہوں جن کے ایک مکتوب نے مجھے
اپنے تاثرات لکھنے پر مائل کیا ۔ |