پاکستانی معیشت بری طرح کریش ہو چکی ہے، بڑے بڑے معاشی
سورما آئے لیکن سوائے سنہرے خواب دکھانے کے کچھ نہیں کر پائے ۔ہاں البتہ ان
کی بڑی بڑی جائیدادیں ملک سے باہر اور ملک میں موجود ہیں ۔ ڈالر کو پر لگ
گئے ہیں اور روپے کو دیمک چاٹ کھائے جاتا ہے ۔ ہر بار جب نئی حکومت آتی ہے
تو وہ ایک ہی رونا پیٹتی ہے ! خزانہ خالی ہے ،لوٹ کر کھا گئے سب ۔ سابقہ
حکومت اپنی صفائی میں اپنے کاموں کی گنتی کروا رہی ہوتی ہیں۔ خیر کان ادھر
سے پکڑو یا ادھر سے بات ایک ہی ہے کہ عوام کے سامنے سارے حکمران کافر اور
جھوٹے ہیں ۔
پاکستانی آئین کے مطابق جب بھی کوئی نیا وزیر ، سینیٹر یا عوامی نمائندہ
منتخب ہوتا ہے تو وہ یہ حلف دیتا ہے کہ وہ ہمیشہ پاکستان کا وفا دار رہے گا
اور ملک و ملت کی بقاء کیلئے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریگا ۔مگر ان کا
عمل اس حلف نامے سے بر عکس ہوتا ہے۔ میرا سوال ہے کہ کیا وہ مسلمان ہیں جن
کی کوئی زبان نہیں ؟ جن کی زبان اور عمل میں تضاد ہے! ہم اپنی بات کی طرف
واپس آتے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ خزانہ خالی ہے اور اتنے ارب ڈالر کا قرض سود
سمیت واپس لوٹانا ہے ! یہاں سوال یہ ہے کہ خزانہ خالی کس نے کیا ہے؟ کیا
عوام نے کیا ہے؟ میری نذر میں تو عوام خزانہ بھرتی ہے ۔ پاکستان جیسی ریاست
میں اول دن سے اب تک اسی نسبت بیس کا تناسب چل رہا ہے ۔ یعنی ریاست کی
معیشت کو چلانے کیلئے پاکستانی عوام ٹیکسوں کی مد میں اسی فیصد ادا کرتی ہے
جبکہ حکومت اس میں بیس فیصد شامل کرتی ہے ۔ اس اسی فیصد کا کوٹا پورا کرنے
کیلئے حکومتیں عوام پر نت نئے ٹیکس اور مہنگائی کا پہاڑ توڑتے رہتے ہیں اور
عوام خاموشی سے وہ پہاڑ اپنے سروں پر اٹھا لیتے ہیں ۔ پاکستان میں ہر مزدور
، ہر عام آدمی اپنی بساط کے مطابق خزانے کو بھرتا ہے ۔ مثلاََ اگر کوئی بچہ
ٹافی سے لے کر برگر، پیزہ تک کچھ بھی خرید کرتا ہے تو وہ ٹیکس ادا کرتا ہے،
کسان فصل کاشت کرتا ہے تو اس میں بیجائی سے لے کر فصل کو فروخت کرنے تک
ٹیکس ادا کرتا ہے ۔ سڑک پر چلنے سے لے کر سانس لینے تک کا ٹیکس عوام ادا
کرتی ہے ۔ اگر ہم یہ سب سوچیں تو خزانہ خالی عوام نہیں کرتی بلکہ بھرتی ہے۔
یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ اگر خزانہ خالی عوام نے نہیں کیا تو پھر کس نے
کیا ؟ حکمران کہتے ہیں کہ انہوں نے خزانے کا پیسہ عوامی امانت سمجھتے ہوئے
انہی پر خرچ کیا ۔ لیکن انہوں نے یہ کبھی نہیں بتلایا کہ اگر انہوں نے
عوامی ٹیکسوں کا پیسہ عوام پر خرچ کیا ہے تو جو سود پر قرض لیا وہ کہاں خرچ
کیا ہے؟ حکمران ہر طرح سے ٹھوس دلیل دینے سے قاصر ہیں کہ وہ قوم کا پیسہ
امانت سمجھ کر استعمال کر رہے ہیں یا اس میں بددیانتی کر رہے ہیں ۔
اﷲ نے انسان کو قرآن میں جہاں اشرف المخلوقات کہا ہے وہیں اسے ظالم ، بخیل،
مظلوم ، کفر کرنے والا، خسارے والا ، ستم کرنے والا، ضعیف اور کمزور،
جھگڑالو،جاہل،کم ظرف اور متلون مزاج، مغرور، سرکش جیسے القابات سے بھی
پکارا ہے ۔اور ایسا انسان اس وقت بنتا ہے جب وہ اﷲ کے راستوں سے منحرف ہو
تا ہے اور آخرت کا انکار کرتا ہے ۔ اپنے نفس کی فکر کرتا ہے اور خود غرضی
میں مبتلا ہوتا ہے۔ آج دنیا اسی بیماری میں مبتلا ہے جس کا علاج شاید
ناممکن ہو چکا ہے۔ جس کے پاس جتنا پیسہ ہے اس کا حرص اتنا ہی بڑا ہے ۔ جو
غریب ہیں وہ حسد اور بغض جیسے گناہوں کا شکار ہیں ۔ اور نفسا نفسی کی شاید
بنیادی وجہ ہی یہی ہے کہ معاشرتی رویے نے انسانوں کو ایک دوسرے سے دور کر
دیا ہے۔ کوئی بھی شخص کسی دوسرے پر اعتماد نہیں کرتا۔ پاکستان کے موجودہ
وزیر اعظم نے انتخابات سے قبل اعلان کیا تھا کہ ا گر کینسر کا اعلاج ڈسپرین
سے کیا جائے گا تو وہ ٹھیک کیسے ہو گا؟ آئی ایم ایف سے قرض لے کر کسی ملک
کی معیشت مستحکم کرنا بیوقوفی ہے !وہ خود کشی کر لیں گے جس دن انہیں آئی
ایم ایف سے قرض لینا پڑا ۔ لیکن ا ب انہیں جانا پڑ رہا ہے ۔انہوں نے آئی
ایم ایف کے کہنے پر بہت سے ٹیکس بھی لگائے ہیں یہ کہہ کر کہ عوام برداشت
کریں یہ سب ملک کے مستقبل کیلئے کر رہے ہیں ۔اس لئے کر رہے ہیں کہ آئی ایم
ایف کے پاس نہ جانا پڑے لیکن انہوں نے وعدے کا پاس نہیں رکھا اور عوام کو
متنفر کیا ۔ ابھی بھی وہ بھروسہ کرنے کو کہہ رہے ہیں کہ بہت کم عرصے میں سب
ٹھیک ہو جائے گا ۔ لیکن ایسا کام کر کے وہ اپنے اس حلف والے قول سے بھی مکر
رہے ہیں وہی نہیں بلکہ ساری کابینہ ہی اپنے حلف سے انکاری ہے کہ وہ ملک کے
استحکام کیلئے اور ملک کیلئے وفا دار رہیں گے۔
عمران خان نے اعلان کیا تھا کہ وہ پاکستان کو مدینہ جیسی اسلامی ریاست
بنائیں گے ۔ لیکن افسوس کہ عمران خان صاحب نہیں جانتے کہ ریاست مدینہ کے
حکمرانوں کا طرزِ حکمرانی کیا تھا! یا پھر شاید وہ ان حکمرانوں پر بھول گئے
ہیں جو ظالم تھے اور عوام کو اپنا غلام رکھتے تھے! لیکن ریاستِ مدینہ کے
حکمرانوں میں جو مثالی کردار تھے ان کا طرزِ حکمرانی عوامی تھا، عوام کی
فلاح تھی ، اپنا پیٹ کاٹ کر غریبوں کو مضبوط کرنا تھا، عدل کرنا تھا اور
یکسانیت کو فروغ دینا تھا۔عمر بن عبد العزیز ؒ کو خاندانی پر تعیش زندگی
ملی تھی مگر انہوں نے حکمرانی میں آنے کے بعد سب کچھ ترک کر دیا تھا اور
سادگی ، عاجزی، انکساری و بندگی کو اپنا شعار بنایا۔ اگر عمران خان اور اس
کی کابینہ واقعی ملک سے مخلص ہے اور اس کیلئے کچھ کرنا چاہتی ہے تو سب سے
پہلے اپنی تنخواہیں قربان کرے۔ تمام ایم پی اے، ایم این اے اور سینیٹرز سب
کے سب اس وقت تک تنخواہیں لینے سے انکار کر دیں جب تک ملک میں معاشی
استحکام نہیں آجاتا۔اسی طرح اداروں کے بڑے افسران ، فوجی جنرل اور ججز جن
کی تنخواہیں اب لاکھوں میں ہیں وہ اپنی ضرورت کے مطابق پیسہ لیں میں تو
کہتا ہوں کہ تمام منسٹرزاور بیوروکریٹس کو بھی اتنی ہی تنخواہ دی جائے سمیت
وزیر اعظم اور صدر پاکستان کے جتنی ایک عام مزدور کی اجرت ہے۔جن آرمی کے
ریٹائرڈ جنرلز کو کئی ایکڑ سرکاری اراضی سے نوازا گیا وہ اپنے تین سال کی
فصل کی آدھی کمائی اگر وہ زیر کاشت ہے ، اور زیر کاشت نہیں تو اسے سرکار کو
واپس کر دے تاکہ اس سے آمدن حاصل ہو سکے۔اس کے علاوہ ملک میں زکوٰۃ ، جزیے
اور فدیے کے نظام کو نافذالعمل کیا جائے اور اس پر سختی سے عمل پیرا ہوا
جائے۔تمام بڑے بڑے کاروباری حضرات پر ٹیکس ختم کر کے ان سے زکوٰۃ کا حصول
یقینی بنایا جائے ۔کاروبار اور عوام الناس کیلئے زندگی جینا اور کاروبار
کرنا آسان تر بنایا جائے۔اگر عمران خان ایک اچھا حکمران بننا چاہتے ہیں تو
وہ ملک میں خود غرضی اور نفسا نفسی کے اس جاہلانا عنصر کو خیرباد کہہ کر
مثال قائم کریں اور اپنے دیگر وزراء کو بھی اس کا سبق دیں۔ |