ان دنوں سعودی عرب سرخیوں میں ہے۔ ایک طرف امریکی صدر
ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے سعودی عرب کو یہ جتلانے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ
امریکی رحم و کرم پر ہے ۔گذشتہ دنوں صدرٹرمپ نے امریکی ریاست مسیپی کے شہر
ساؤتھ ہیون میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہم سعودی عرب کی
حفاظت کرتے ہیں ،انکا کہنا تھا کہ وہ شاہ سلمان بن عبدالعزیز کو کسی موقع
پر یہ بتاچکے ہیں کہ ہم تمہاری حفاظت کرتے ہیں ، ہمارے بغیر تم دو ہفتے بھی
اقتدار میں نہیں رہ سکیں گے،تمہیں اپنی فوج کے لئے معاوضہ ادا کرنا ہوگا۔
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کے پاس کھربوں ڈالر ضرور ہیں مگر انہیں ان
سے وہ نہیں ملتا جو ملنا چاہیے۔سوال پیدا ہوتا ہیکہ امریکہ سعودی عرب سے
مزید اور کتنی مال و دولت چاہتا ہے۔ امریکی صدر کی تقریر کے بعد عالمی سطح
پر ہلچل مچ گئی، کئی ممالک نے سعودی عرب اور امریکہ کے درمیان حالات کشیدہ
ہونے کا دعویٰ کیا اور اسے پریشان کن صورتحال سمجھالیکن نتیجہ کچھ اور ہی
نکلا۔ تجزیہ نگار اور عام لوگ سمجھے کے اس سے قبل جس طرح کینڈا اور قطر کے
ساتھ سعودی عرب نے اس کی پالیسیوں کی مخالفت کرنے کی بناء اپنے سفارتی
تعلقات منقطع کرلئے تھے اور کینڈا کے سفارتی عملے کو 24گھنٹے کے اندراندر
ملک چھوڑنے کے احکامات جاری کئے تھے اور کینڈا سے بھی اپنے سفارتی عملے کو
طلب کرلیا تھا یہی نہیں بلکہ ہزاروں سعودی طلبہ جو کینڈا میں تعلیم حاصل
کررہے ہیں انہیں دوسرے ممالک کی یونیورسٹیوں میں منتقل کرنے کا فیصلہ کیا۔
قطر کے ساتھ بھی سعودی عرب نے اسکی پالیسی کے خلاف یا اسکی بات نہ ماننے کی
صورت میں اپنے سفارتی تعلقات منقطع کرلئے اور معاشی طور پر قطر کو یکا و
تنہا کرنے کی کوشش کی۔ماضی کے ان حالات کو دیکھتے ہوئے امریکی صدر کے بیان
کے بعد یہ سمجھا جارہا تھا کہ سعودی ولیعہد شہزادہ محمد بن سلمان امریکہ کے
ساتھ بھی اسی قسم کا برتاؤ کریں گے اور دونوں ممالک کے درمیان سفارتی
تعلقات میں بھی کشیدگی پیدا ہوجائینگی لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا ۔ ولیعہد
شہزادہ محمد بن سلمان نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی اس تنبیہ کو مسترد کرتے
ہوئے کہا کہ ریاض واشنگٹن کی جانب سے سعودی عرب کی سیکیوریٹی کیلئے احسان
مند نہیں ہے اور ہم نے امریکہ سے اسلحہ خریدا ہے نہ کہ امریکہ نے ہمیں مفت
فراہم کیا ہے۔ انکا مزید کہنا تھا کہ ٹرمپ کے عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد
سے سعودی عرب نے امریکہ سے 110ارب ڈالر کا اسلحہ خریدا ہے اور دوسرے دو
طرفہ معاہدوں اور سرمایہ کاری کی کل مالیت 400ارب ڈالر ہے۔ اس کے علاوہ
دونوں ممالک کے درمیان معاہدوں کے مطابق کچھ اسلحہ سعودی عرب میں تیار کیا
جائے گا جس سے امریکہ اور سعودی عرب میں ملازمت کے مواقع پیدا ہونگے۔ انکا
کہنا تھا کہ اچھی تجارت کا دونوں ممالک کو فائدہ ہوگا اور یہ معاشی ترقی کے
لئے بھی بہتر ہے اور اس سے انکی سیکیوریٹی کا تحفظ بھی ہوگا۔یہ تو دنیا
جانتی ہے کہ سعودی عرب امریکی خوشنودی کے حصول کیلئے کتنا کچھ خرچ کرتا ہے۔
شہزادہ محمد بن سلمان نے اس وقت سب کو حیران کردیا جب انہوں نے یہ کہا کہ
’’انہیں امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ کام کرنا پسند ہے‘‘۔اس سے ظاہر ہوتا ہیکہ
شہزادہ محمد بن سلمان امریکہ کے ساتھ بہتر تعلقات برقرار رکھنا چاہتے ہیں۔
کیونکہ اگر سعودی عرب امریکہ کے ساتھ تعلقات خراب کرلیتا ہے تو پھر دوسری
جانب یمن اور شام کے حالات کا مقابلہ کرنا اس کے لئے دشوار ہوجائے گا ۔ اب
رہی بات ٹرمپ کی سعودی عرب کی سیکیورٹی اور اسلحہ کے سلسلہ میں تو یہ ایک
الگ مسئلہ ہے ۔ تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اربوں ڈالرزسیکویریٹی
کی فراہمی اوراسلحہ کی خریدی کے لئے خرچ کرتا ہے اگر سعودی عرب خود اپنی
سیکیوریٹی کیلئے سعودی نوجوانوں کو تربیت دے تیار کرے اور اسلحہ بنانے کے
کارخانے قائم کرے گا تو اس سے اسے مستقبل میں کسی پر انحصار کرنے کی نوبت
نہیں آئے گی اور اپنے دم خم پر دوسروں کے سامنے مضبوط اور طاقتوردکھائی دے
گا اور کسی کو بھی اسکے سامنے آنکھ دکھانے کی ہمت نہیں ہوگی لیکن کیا ایسا
فی الحال سعودی عرب میں ممکن ہے؟
ممتاز سعودی صحافی جمال خاشقجی کا قتل؟
ترکی قونصلیٹ سے لاپتہ ہونے والے ممتاز سعودی صحافی جمال خاشقجی کے تعلق سے
ترک حکام کا کہنا ہے کہ جمال خاشقجی کو ایک 15رکنی ’’قاتل ٹیم‘‘ نے قتل
کردیاہ ے جو دو جہازوں میں استنبول پہنچی تھی، تاہم ریاض سعودی عرب کے
مطابق جمال خاشقجی اس کے قونصل خانے سے چلے گئے تھے۔ اس پر ترک صدر رجب طیب
اردغان نے سعودی حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ خاشقجی کی قونصل خانے سے
روانگی کی ویڈیو پیش کریں۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق ترک صدر نے کہاکہ کیا یہ
ممکن ہے کہ قونصل خانے میں ، سفارت خانے میں کیمرا سسٹم نصب نہیں ہیں؟ اگر
کوئی پرندہ اڑتا ہے یا مچھر نمودار ہوتا ہے تو وہ بھی سسٹم میں آجاتا ہے ۔
سعودی عرب کے پاس جدید ترین سسٹم ہیں۔ تاہم سعوی قونصل خانے کا کہنا ہے کہ
اس دن کیمرے کام نہیں کررہے تھے۔ امریکہ ، برطانیہ نے بھی سعودی عرب پر اس
بات کی وضاحت کیلئے دباؤ بڑھا دیا ہے اس کے قونصل خانے کے حدود سے جمال
خاشقجی کیسے لاپتہ ہوگئے۔ امریکہ قانون سازوں نے خبردار کیا ہے کہ اس سے
دونوں ممالک کے درمیان فوجی تعلقات مخدوش ہوسکتے ہیں۔ تاہم صدر ٹرمپ نے
کانگریس سے کہا ہے کہ وہ سعودی عرب سے دفاعی تعلقات حطرے میں نہیں ڈال سکتے
کیونکہ اس سے امریکیوں کی نوکریاں ختم ہوسکتی ہیں۔ امریکی صدر نے کہا کہ
اگر سعودی عرب پر پابندیاں لگائی گئیں تو سعودی اپنا پیسہ لے جائیں گے اور
اسے روس یا چین میں خرچ کردیں گے۔ اس سعودی عرب کے خلاف فی الحال نرم رویہ
اپنایا ہوا ہے اور کہا ہے کہ اس معاملے سے نمٹنے کے لئے دوسرے طریقے بھی
موجود ہے پتہ نہیں وہ کس طریقے سے اس معاملہ کو نمٹنے کی بات کررہے ہیں۔
تاہم امریکی کانگریس وقتی طور پر سعودی عرب کو امریکی اسلحہ کی فروخت روک
سکتی ہے ۔ جمال خاشقجی 2؍ اکٹوبر سے سعودی قونصل خانے ترکی سے لاپتہ ہیں ۔جمال
خاشقجی کے قتل کی خبر پر ان کی ترک منگیتر خدیجہ نے دی ۔ان کا کہنا تھا کہ
جمال خاشقجی شادی کیلئے درکار سرکاری کاغذات حاصل کرنے قونصل خانے گئے
تھے۔سعودی عرب سے خود ساختہ جلا وطنی اختیار کرنے والے جمال خاشقجی امریکی
ا خبار واشنگٹن پوسٹ سے وابستہ تھے جبکہ واشنگٹن پوسٹ نے بھی ان کی گمشدگی
کی تصدیق کی تھی۔صحافی کی گمشدگی پر ترک حکومت نے فوری ردعمل دیتے ہوئے
استنبول میں تعینات سعودی سفیر کو وزارت خارجہ میں طلب کیا جس کے بعد دونوں
ممالک کے درمیان تعلقات میں کشیدگی کا خدشہ پیدا ہوا تھا۔سعودی سفیر نے
صحافی کے لاپتہ ہونے کے حوالے سے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے تفتیش میں مکمل
تعاون کی پیش کش کی تھی۔جمال خاشقجی کی منگیتر کے مطابق وہ استنبول میں
قائم سعودی سفارتخانے میں داخل ہوئے تھے اور اس کے بعد سے انہیں کسی نے
نہیں دیکھا اور نہ ہی ان سے متعلق کوئی اطلاعات موصول ہوئیں۔ان کا کہنا تھا
کہ ہم دستاویزات کے سلسلے میں سعودی سفارت خانے گئے تھے لیکن مجھے جمال کے
ہمراہ اندر جانے کی اجازت نہیں دی گئی اور ان کا موبائل بھی باہر ہی رکھوا
لیا گیا تھا۔دوسری جانب سعودی عرب نے تمام الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا
ہے کہ چونکہ صحافی سعودی شہری تھے اس لیے انہیں بھی معلومات درکار
ہیں۔سعودی ولیعہدشہزادہ محمد بن سلمان نے امریکی ویب سائٹ کو انٹرویو میں
کہا تھا کہ جمال خاشقجی سعودی شہری تھے لیکن ہمیں ان کی گمشدگی کے حوالے سے
تفصیلات نہیں معلوم لیکن ہم جاننا چاہتے ہیں۔انہوں نے اپنے انٹرویو کے
دوران ترک حکومت کے موقف کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ترک حکام اگر چاہیں
تو ہمارے سفارت خانے کا جائزہ لیں حالانکہ سفارت خانہ ہماری خود مختاری کی
حدود میں شامل ہے۔ ابتدائی تحقیقات کے بعد ترکی کے صدر رجب طیب اردغان نے
کہا تھا کہ وہ لاپتہ سعودی صحافی جمال خاشقجی کے کیس کے مثبت نتیجے کے بارے
میں پُر امید ہیں اور وہ اس تمام معاملے پر خود نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ذرائع
ابلاغ کے مطابق رجب طیب اردغان نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ
ترک حکام تمام کیمروں کے ریکارڈ کو دیکھ رہے ہیں اور ہوائی اڈے کے داخلی
اور خارجی راستوں کی بھی نگرانی کررہے ہیں، ان تمام فوٹیج کے ذریعہ ترکی نے
ویڈویو بنایا ہے جس کے ذریعہ اس پندرہ رکنی ٹیم کو قاتل کہا جارہاہے۔ ان کا
کہنا تھا کہ ترکی پراسیکیوٹرس کی تحقیقات کے نتائج کا انتظار کرے گا۔ ذرائع
ابلاغ کے مطابق جمال خاشقجی کو سعودی قونصل خانے کی چار دایوری کے اندر قتل
کئے جانے کے دعوے کے بعد ترکی نے سعودی قونصلیٹ کی تلاشی لیے جانے کی
درخواست بھی کی تھی۔ طیب اردوغان کا ایک نیوز کانفرنس میں کہنا تھا
’قونصلیٹ کے حکام یہ کہہ کر خود کو نہیں بچا سکتے کہ خاشقجی اس عمارت سے
چلے گئے تھے۔ ترک حکام کا کہنا تھا کہ تفتیش کاروں کے پاس ’ٹھوس شواہد‘
موجود ہیں کہ خاشقجی کو قتل کیا گیا ہے اور یہ اس 15 رکنی سعودی ٹیم نے کیا
ہے جو گذشتہ ہفتے ملک میں آئی تھی۔تاہم اس حوالے سے کوئی شواہد پیش نہیں
کیے گئے۔ترک حکام کا کہنا ہے کہ خاشقجی کو قونصل خانے کی عمارت کے اندر قتل
کیا گیا جس کے بعد ان کی لاش وہاں سے منتقل کردی گئی۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق ترکش عرب میڈیا کے سربراہ نے نیو یارک ٹائمز کو بتایا
کے قونصل خانے کی حفاظت پر معمور پولیس نے اپنے سکیورٹی کیمروں میں دیکھا
ہے کہ سفارتی عملے کی گاڑیاں عمارت کے اندر اور باہر آتی جاتی ہیں لیکن
انھوں نے کسی صحافی کو پیدل باہر آتے نہیں دیکھا۔ اسی دوران امریکہ کی
رپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر لنزی گریم نے سعودی نژاد امریکی
شہری اور صحافی جمال خاشقجی کی گمشدگی پر تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اگر
اس معاملے میں سعودی عرب کا ہاتھ ہوا تو اسے بھاری قیمت چکانا پڑے گی انکے
بعد امریکی سینیٹ کے 22ارکان نے صدر ٹرمپ کو سعودی صحافی جمال خاشقجی کی
ترکی میں گمشدگی کے بارے میں خط لکھا اب دیکھنا ہے کہ ٹرمپ اس پر مزید کس
قسم کی کارروائی کرنے کیلئے پہل کرتے ہیں ۔ برطانیہ کے خارجہ سکریٹری نے
بھی ذرائع ابلاغ کو بتایا کہ اگر یہ الزامات درست ہیں تو اس کے سنگین نتائج
نکلیں گے انکا کہنا تھا کہ ہماری دوستی اور شراکت داری مشترکہ اقدار پر
مبنی ہے۔ اقوام متحدہ کے حکام نے بھی جمال خاشقجی کی گمشدگی پر تشویش کا
اظہار کیا ہے ، انسانی حقوق کے ارادے ہیومن رائٹس واچ نے سعودی ولعہد محمد
بن سلمان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ جمال خاشقجی کے بارے میں تمام شواہد اور
معلومات شیئر کریں۔ اسی سب سے پہلے ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے بھی
سعودی عرب کو چیلنج کیا ہے کہ وہ لاپتہ صحافی کے قونصلیٹ چھوڑنے کے شواہد
دے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق صحافی جمال امریکہ میں جلاوطنی اختیار کرنے کے
بعد گذشتہ سال کئی ایسے مضامین لکھے تھے جن میں سعودی ولیعہد محمد بن سلمان
پر تنقید کی گئی تھی۔امریکی سینیٹر لنزی گریم نے ٹوئٹر پر اپنے پیغام میں
کہا کہ ’اگر سعودی حکومت نے کوئی غلط کام کیا تو یہ امریکہ سعودی عرب
تعلقات کے لیے تباہ کن ہو گا، اور اس کی بھاری قیمت چکانی پڑے گی، معاشی
بھی اور دوسری بھی۔'جیسا کہ ترک حکام کا کہنا ہے کہ خاشقجی کو قونصل خانے
کے اندر قتل کر دیا گیا ہے۔ سعودی حکومت نے اس کی تردید کی ہے اور کہا ہے
کہ وہ عمارت سے چلے گئے تھے، تاہم انھوں نے اس کی سی سی ٹی وی فوٹیج پیش
نہیں کی اور قونصلیٹ خانے کا کہنا ہے کہ اس دن سی سی ٹی وی کیمرے کام نہیں
کررہے تھے۔جمال خاشقجی 2؍ اکٹوبر کو ایک ترک خاتون خدیجہ چنگیز سے شادی سے
پہلے چند دستاویزات حاصل کرنے سعودی قونصل خانے گئے تھے۔ اس کے بعد سے ان
کا کچھ اتہ پتا نہیں ہے۔امریکی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کی کمیٹی کے سربراہ
باب کورکر نے کہا: 'میں نے جمال کی گمشدگی کا معاملہ سعودی عرب کے سفیر کے
ساتھ اٹھایا ہے اور ہم مزید معلومات کا انتظار کر رہے ہیں۔ ہم کسی بھی ایسے
ملک کو جواب دیں گے جو اپنے ملک سے باہر صحافیوں کو نشانہ بناتا ہے۔اب
دیکھنا ہے کہ ترکی صدر جمال خاشقجی کا پتہ نکالنے میں کامیاب ہوپاتے ہیں
یانہیں۔ ترکی حکام کی تفتیش کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ صحافی جمال
خاشقجی کو سعودی قونصلیٹ میں داخل ہونے کے بعد قتل کردیا گیا ہے کیونکہ سی
سی ٹی وی کیمرے بند ہونے کی رپورٹ سے ترک حکام کے دعوے مزید مضبوط ہوتے
دکھائی دے رہے ہیں۔ اب دیکھنا ہے کہ سعودی عرب کے ولیعہد شہزادہ محمد بن
سلمان امریکی سینیٹ ، برطانیہ ، ترکی اور اقوام متحدہ کو کس قسم کا جواب
دیتے ہیں ۔ اور سعودی عرب کے ساتھ کیا ان ممالک کے تعلقات واقعی خراب
ہوجائیں گے اس تعلق سے ابھی کہنا جلد بازی ہوگی۰۰۰
عرب امارات میں موبائل فون نے بیوی کو جیل پہنچا دیا
متحدہ عرب امارات میں موبائل فون نے ایسا کارنامہ کردکھا جو دیگر خواتین
اور مردوں کیلئے جو نہیں چاہتے کہ انکے موبائل فون کا ڈیٹا انکی بیوی یا
شوہر دیکھے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق متحدہ عرب امارات میں ایک خاتون کو بغیر
اجازت اپنے شوہر کا فون دیکھنے اور اس کا تمام ڈیٹا کاپی کرنے کے الزام میں
تین ماہ کے لیے جیل بھیج دیا گیا۔ شوہر نے عدالت کو بتایا کہ بیوی نے اس کی
بعض ذاتی معلومات بچوں کو بھی ارسال کیں جس پر عدالت میں اپنا دفاع کرتے
ہوئے خاتون نے کہا کہ شوہر نے اسے اپنے اسمارٹ فون کا پاس ورڈ دیتے ہوئے
فون تک رسائی کی اجازت دی تھی۔اس کے شوہر کسی دوسری عورت سے رابطے میں ہیں
اور وہ اپنے شوہر کو بات کرتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑ چکی ہے۔اس سے قبل شوہر
نے عدالت میں اپنی بیوی کی جانب سے اس کی پرائیویسی میں مداخلت کی درخواست
دائر کی تھی جو سخت ملکی قوانین کے تحت سماعت کیلئے قبول کرلی گئی تھی۔اس
قانون کے تحت ایک دوسرے پر شک کے باوجود بلا اجازت دوسرے فریق کا فون
دیکھنے کی شدید ممانعت ہے۔بیوی کو تین ماہ جیل کی سزا ہونے کے بعدخاتون سے
ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہا جارہا ہے کہ شوہر کو چاہیے تھا کہ وہ بیوی
کو پاسورڈ نہ دیتا ۔ اگر جب دیا ہے تو بیوی کے خلاف کارروائی کرنے سے
اجتناب کرنا چاہیے تھا۔ خیر مسئلہ میاں بیوی کے درمیان تعلقات کے علاوہ
شوہر کا کسی دوسری خاتون کے ساتھ بات چیت کا ہے جس کی وجہ سے معاملہ آگے
عدالت اور پھر بیوی کے جیل جانے تک جاپہنچا۔
***
|