9اکتوبر2018کوسوئٹزر لینڈ میں عالمی انسداد منی
لانڈرنگ 2018کی رپورٹ جاری کی گئی جس میں پاکستان کو سالانہ فہرست میں
بہتری دکھانے والے ممالک میں شمار کیا گیا ہے۔ منی لانڈرنگ اور دہشتگردی
فنڈنگ کی عالمیفہرست میں 2.57کے سب سے کم سکور کے ساتھ فن لینڈ کومنی
لانڈرنگ سے سب سے کم خطرہ ہے۔جب کہ تاجکستان اس حوالے سے 8.30سکور کے ساتھ
سب زیادہ خطرناک ملک ہے۔ 129ممالک کی فہرست میں 6.49سکور کے ساتھ پاکستان
کا نمبر 25واں ہے۔ گزشتہ برس پاکستان کا سکور6.57تھا۔ یعنی پاکستان
0.08پوائنٹ بہتری کی جانب گامزن ہوا ہے۔رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 500ارب
ڈالر سے ایککھرب ڈالرتک منی لانڈرنگ ہوئی ہے۔ تا ہم اقوام متحدہ کے ادارے
ڈرگ و جرائم (یو این او ڈی سی)کے مطابق عالمی جی ڈی پی کا 2.5فی صد یعنی
800ارب ڈالر تا 2کھرب ڈالر منی لانڈرنف سالانہ ہو رہی ہے۔ ماسٹر کارڈ، پے
پال یا ایچ ایس بی سی جیسے مالیاتی ادارے بھی اس کے ذمہ دار ہو سکتے ہیں
مگر پے پال پاکستان کو سپورٹ نہیں کرتا۔ منی لانڈرنگ سے ہی منشیات تجارت،
انسانی سمگلنگ یا کرپشن کو جوڑا جا سکتا ہے۔ اب یہ پتہ چلایا جا رہا ہے کہ
آرٹیفشل انٹلی جنس کس طرح انسداد منی لانڈرنگ میں معان بن سکتی ہے۔ عمران
خان حکومت منی لانڈرنگ اور کرپشن کو اپنی آمدن کا بنیادی زریعہ سمجھتی ہے۔
جب کہ اس نے عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لینے اور ان کی سخت شرائط سے پہلے
ہی عوام کو ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبا دیا ہے۔ گو کہ تھائی لینڈ میں بھی سابق
وزیراعظم تکشین شنوترا کے بیٹے کو منی لانڈرنگ پر جیل میں بھر دیا گیا ہے۔
اس کیس میں تھائی بینک کے کئی عہدیدار بھی غیر قانونی قرضے دینے پر 18سال
کی قید کاٹ رہے ہیں۔ وزیراعظم شنوترا کو فوجی بغاوت میں برطرف کر دیا گیا
تھا۔ اس کے بعد ان کی ہمشیرہ نے اقتدار سنبھالا جنھیں ایک بار پھر فوجی
بغاوت میں حکومت سے بے دخل کیا گیا۔ تب سے’’ ملٹری جنتا‘‘کا اقتدار پر
کنٹرول ہے۔مگر منی لانڈرنگ کا پیسہ واپس نہ لایا جا سکا۔ ملائشیا کے سابق
وزیراعظم نجیب رزاق اور ڈپٹی وزیراعظم ڈاکٹر احمد حامدی کو بھی منی لانڈرنگ
کے الزامات کا سامنا ہے۔ پیرو کے سابق حکمران خاندان فوجیموری کو بھی کرپشن
کے تحت جیل ہوئی ہے۔ مگر رقم کی ریکوری نہیں ہو سکی۔
باڑ اگر فصل کو کھانا شروع کر دے تو کسی سے کیا گلہ و شکوہ۔ کرپشن اس ملک
کا سب سے بڑا مسلہ ہے۔ انسداد کرپشن ادارے نیشنل اکاؤنٹبلٹی بیورو(نیب)کے
سابق سربراہ ایڈمرل(ر)فصیح بخاری نے ایک بار اعترافکیا کہ پاکستان میں
روزانہ دس تا بارہ ارب روپے کی کرپشن ہوتی ہے۔ یہ کرپشن ٹیکس چوری کی صورت
میں ہے۔ مگر اس کا کوئی مداوا نہیں کیا گیا۔ جب 22کروڑ عوام میں سے صرف
2لاکھ 60ہزار لوگ ہی ٹیکس ادا کریں تو حالات کی سنگینی کا بخوبی اندازہ
لگایا جا سکتا ہے۔ جہاں کوئی بھی ترقیاتی منصوبہ کمیشن وصول کئے بغیر مکمل
نہیں ہوتا۔ یہ کرپشن یا رشوت سرکاری ملازمین کی تنخواہ کا حصہ بن چکی ہے۔
حد تو یہ ہے کمیشن کو یہ لوگ اپنا حق سمجھتے ہیں۔ اس لئے اس کے ناجائز یا
غیر قانونی ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ فور مین سے لے کرادارے کے
سربراہ تک جب کمیشن کا حصہ پہنچے تو پھر خدا ہی حافظ۔ اگر ایک کروڑ روپے کا
کوئی منصوبہ ہے تو اس میں سے 20لاکھ روپے پہلے ہی انجینئرز کو کمیشن میں دے
دئیے جاتے ہیں۔ پھر ٹھیکیدارکی باری ، جو 80فی صد کمائی کی نیت سے گھر سے
نکلا ہے۔ پھر غیر معیاری اور ناقص میٹیریل۔ دنوں میں سڑکیں، عمارتیں،
دیواریں تباہ نہ ہوں تو کیا ہو۔یہاں ایف آئی اے مالی کرپشن نہ روک سکی۔یا
یہ کرپشن اس کی نظر میں ہے۔
عمران خان حکومت 180ارب ڈالر کے پروجیکٹ سے 5سال میں 50لاکھ گھر بنانا
چاہتی ہے۔ یہ پیسہ کہاں سے آئے گا ، اس کی منصوبہ بندی مفروضوں پر مبنی ہے۔
جب خیبر پختونخواہ کے احتساب کمیشن کی کرپشن کی تحقیقات قومی احتساب بیورو
کر رہا ہے۔ تو کیا توقعات ہیں۔ یہاں اقتصادی پلان کا کچھ پتہ نہیں۔ اگر
ملائشیا ماڈل ہے تو اس پر عمل کیسے ہو گا۔ یہ گھر کیسے بنیں گے۔ شاید حکومت
سمجھتی ہے کہ بینکوں سے گھر تعمیر کے لئے قرضے دیئے جائیں گے۔ سستے گھر
کیسے بنیں گے۔ حکومت سبسڈی کیسے دے گی۔ موٹگیج کیا ہے۔ حکومت گارنٹی کرتی
ہے۔ فنانسنگ بینک کریں گے۔پھر نئیموٹگیج مارکیٹ کیسے بنے گی۔ایسا لگتا ہے
کہ حکومت کہنا چاہتی ہے کہ جب کرپشن اور منی لانڈرنگ روکنے میں کامیاب ہوں
گے تو پھر گھر بنیں گے۔ اضافی سرمایہ کب جمع ہو گا۔ 50 لاکھ پانچ سال میں
تعمیر کرنے ہیں تو ایک ماہ میں کم تقریباً ایک لاکھ گھر بنانے ہیں۔ ملک کو
معاشی بدحالی کی طرف لے جانے میں کس کا کردار ہے۔مسیحا کون بنے گا۔ یہ حالت
کس نے بنائی۔ ایسا کرنے والے زلالت و رسوائی محسوس نہیں کرتے۔یہ ان کی بد
بختی ہے۔ وہ کیوں شرمسار ہوں گے۔ عوام کی دولت ہڑپ کرنے والے، حرام مال
کھانے والے، قوم پر بدنما داغ۔ شرم کیسی۔حکمران دنیا سے سرمایہ کاری کی
اپیلیں کرتے ہیں۔ لیکن دنیا ایسا کیوں کرے۔ سرمایہ کار سب سے پہلے پروفائل
دیکھتے ہیں۔جب کہ آج سرمایہ کار سٹاک مارکیٹ کو دیکھ کر سرمایہ باہر لے جا
رہا ہے۔ تب ہی ڈالر اڑان بھر رہا ہے۔ اس کے ذمہ داروں کا بھی تعین نہیں
ہوتا۔ پھر اصلاح کیسی۔ جو قوم اپنی غلطی تسلیم کرے وہ اصلاح احوال پر آمادہ
ہو سکتی ہے۔ جو حکمرانی بد نظمی اور افراتفری کی بنیاد پر قائم ہو، اسے گڈ
گورننس کیسا کہا جا سکتا ہے۔ جو لوگ بیڈ گورننس کے مر تکب ہیں، لیکن اسے گڈ
گورننس قرار دیتے ہیں۔ کوئی اصلاح کی گنجائشکہاں ہو گی۔ آزاد کشمیر میں بھی
احتساب بیورو قائم ہے۔ زکٰوۃ منافع فنڈ کی مد میں سے سالانہ کروڑوں روپے
ہڑپہو رہے ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ احتساب کون کرے گا۔ جو خود کرپٹ ہے،
وہ احتساب کیسے کر سکتا ہے۔احتساب سے توقعات ہوتی ہیں۔ لیکن یہ مخالفین کا
منہ بند کرنے کا آلہ بن چکا ہے۔ سیاسی ہتھیار۔ اب شاید لوگ خود احتساب کریں
گے۔ لیکن قانون کو ہاتھ میں لینا غیر مہذب بات ہے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ
ایسا نہیں کرتے۔ لیکن خاموشی بھی خطرناک ہے۔ پھر سدھار کیسے ہو گا۔ قوم کی
لوٹی ہوئی دولت کی واپسی ضروری ہے۔ لٹیروں کا یوم حساب کب آئے گا۔ ڈاکو
عبرت کا نشان کیسے بنیں گے۔الزامات کے بجائے ٹھوس شواہد کہاں سے آئیں گے۔
سب کو اس کا انتظار ہے۔آزادانہ ، غیر جانبدار، شفاف احتساب واحد حل ہے۔
کرپشن اور لوٹ مار وہی ختم کر سکتا ہے جو خود کرپٹ نہ ہو۔ عوام سب جانتے
ہیں۔ ان کے سامنے سب کا بائیو ڈیٹا ہے۔ وہ حکمرانوں کے تمام گوشوں سے واقف
ہیں۔ کون انجینئر، اے سی، ڈی سی، سکریٹری، کمشنر، رکن اسمبلی، وزیر ، مشیر،
سرکاری اہلکار رشوت خور ، کرپٹ، بد دیانت، چور، ڈاکو ہے، عوام کو معلوم ہے۔
آئیے !ان چوروں کو بے نقاب کریں۔ ملک کو چلانے کے لئے لوٹی ہوئی دولت پر آس
ہے۔ مگر اس کے ساتھ ملکی پیداوار میں اضافے کی جانب بھی توجہ دی جائے۔ |