فون اٹھانے والا پہلے سلام کرے یا کلام ؟

مسئلہ یہ ہے کہ جب کسی کو فون کیا جائے تو فون اٹھانے والا پہلے سلام کرے یا تخاطب کا کوئی کلمہ استعمال کرے؟. اس سلسلے میں راحج بات یہی ہے کہ فون اٹهانے والا تخاطب کا کوئی بهی کلمہ جو اس کے ماحول و معاشرہ میں رائج ہے بولے،اس سلسلے میں شیخ البانی کا موقف یہی ہے۔ پهر فون کرنے والا اپنے مخاطب کو سلام کرے۔
اس بات کو دوسرے الفاظ میں یوں سمجھیں کہ جب ہم کسی کو فون کرتے ہیں تو بسااوقات مشکل سے رابطہ ہوتا ہے،کنکشن کا پرابلم ہوتا ہے، یا کبھی ایک جانب فون رسیو کرنے والا یا فون کرنے والاغیر مسلم ہوسکتا ہے جس سے اسلام میں سلام کرنا منع ہے ۔پھر یہاں ایک الجھن یہ بھی ہے کہ فون کرنے والا سلام کرے یا اٹھانے والا ؟ کون پہل کرے اور کس بنیاد پر ؟
اس لئے بہتر یہ ہے کہ جب ہم کسی کو فون کریں تو اپنافون دوسرے سے مربوط ہوجانے کا انتظار کریں ، اس کی صورت یہ ہے کہ جس نے فون رسیو کیا ہے اسے چاہئے کہ تخاطب کا کوئی جملہ مثلا ہیلو، اھلا وسھلا، مرحبا، فرمائیے ، ھلا، نعم وغیرہ بول کر پہلے آپس میں مربوط ہوجائے پھر فون کرنے والا سلام سے اپنی بات کا آغاز کرے ۔ اگر نمبرنیا ہوتوسلام سے پہلے تعارف بھی کرلے تاکہ پتہ چل جائے مسلمان بھائی ہے یا کوئی اور؟۔ یہ مسئلہ حرام وحلال کا نہیں ہے بلکہ افضلیت اور احتیاط کا تقاضہ ہے ۔تاہم میری نظر میں اس مسئلہ میں بھی کوئی زیادہ قباحت نہیں ہے کہ فون اٹھانے والے کو اگر یقین ہو کہ فون کرنے والا ہمارا مسلمان بھائی ہے تو بجائے تخاطب کےبراہ راست سلام سے اپنی بات کا آغاز کرے ۔ تاہم احتیاط اور افضلیت کے پیش نظر قوی مسلک یہی معلوم ہوتا ہے کہ فون اٹھانے والا پہلے تخاطب کے کلمہ کے ذریعہ فون کرنے والے سے رابطہ قائم کرلے پھر فون کرنے والا سلام کرے ، آگے حدیث آرہی ہے جس سے اس موقف کی تائید ہوتی ہے۔
اب یہاں چند ایک شبہات کا ازالہ بھی کردیتا ہوں کہ جنہوں نے یہ کہا کہ کلام کے آغاز میں ہیلو نہیں کہنا چاہئے کیونکہ اس کا معنی جہنمی کا ہے تو یہ مسئلہ میں نے الگ مضمون میں واضح کیا ہے، ہیلو کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے اور اس کا معنی جہنمی نہیں ہوتا ہے ۔اور جنہوں نے کہا کہ ہیلو کے معنی میں کچھ توہے جس کی وجہ سے انگریز وں نے اسے استعمال کرنا چهوڑ دیا تو یہ قطعی غلط ہے، یہ کس نے کہا کہ انگریز یا انگریزی بولنے والے ہیلو استعمال کرنا چهوڑ دئے، ہر جگہ انگریزی بولنے والوں میں یہ لفظ عام ہے حتی کہ انگریزوں میں بھی جس طرح دوسرے الفاظ عام ہیں۔
جنہوں نے کہا کہ ہیلو بولنے سے سلام مٹ جائے گا کیونکہ انگریزوں کی کوشش ہی اسلامی تہذیب وثقافت کومٹانا ہے ، ان کے لئے جواب یہ ہے کہ ہیلو بولنا کس نے ضروری کہا ہے ؟ ہم اس لفظ کا استعمال ضروری نہیں کہتے بلکہ یہ کہتے ہیں کہ اگر کسی نے اس لفظ کا استعمال کرلیا تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ البتہ جنہوں نے یہ کہا کہ سلام سے ہی اپنی بات کا آغاز کرنا ضروری ہےاور دلیل میں "السلام قبل الکلام" یعنی بات کرنے سے پہلے سلام کرنا ہے ، اس حدیث کو پیش کرتے ہیں ۔ اس حدیث کی حقیقت آگے بیان کی جائے گی پہلے ان کی خدمت میں عرض ہے کہ آپ پہلے سلام کے متعلق اسلامی حکم سمجھ لیں ۔ اسلام میں سلام کرنا واجب نہیں ہے بلکہ مسنون ہے ، اگر کوئی سلام کرتا ہے توپھر جواب دینا واجب ہوجاتا ہے ۔
مزید برآں فون پر تخاطب والا کوئی جملہ کہنا سلام سے پہلے یہ اسی طرح ہے جیسے کہ کوئی کسی کے دروازے پہ جاکر دروازہ کھٹکھٹاکر اس سے اجازت طلب کرے۔
حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا:"إِذَا اسْتَأْذَنَ أَحَدُكُمْ ثَلَاثًا فَلَمْ يُؤْذَنْ لَهُ فَلْيَرْجِعْ"
ترجمہ: تین مرتبہ اجازت طلب کرو اگر اجازت مل جائے تو ٹھیک ورنہ واپس لوٹ جاؤ ۔(صحیح مسلم ،کتاب الاستئذان والادب،رقم الحدیث۲۱۵۳)
دروازے پہ اولا سلام نہیں اجازت طلب کرنا ہے جب اجازت مل جائے تو گھر میں داخل ہوتے ہوئے سلام کرنا ہے ۔ ہاں اگر آدمی بالمشافہ ملاقات کرے تو اپنی بات کا آغاز سلام کرے ۔
پہلی روایت ،کلام سے پہلے سلام والی روایت :
حدثنا الفضل بن الصباح بغدادي حدثنا سعيد بن زكريا عن عنبسة بن عبد الرحمن عن محمد بن زاذان عن محمد بن المنكدر عن جابر بن عبد الله قال قال رسول الله صلى الله عليه و سلمالسلام قبل الكلام وبهذا الإسناد عن النبي صلى الله عليه و سلم قال لا تدعوا أحدا إلى الطعام حتى يسلم قال أبو عيسى هذا حديث منكر لا نعرفه إلا من هذا الوجه وسمعت محمدا يقول عنبسة بن عبد الرحمن ضعيف في الحديث ذاهب و محمد بن زاذان منكر الحديث (سنن ترمذی:٢٦٩٩)
حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : سلام کلام سے پہلے کیا جانا چاہیے۔اور اسی سند سے یہ بھی منقول ہے کہ کسی کو اس وقت تک کھانے کے لیے نہ بلاؤ جب تک وہ سلام نہ کرے۔
امام ترمذی نے فرمایا : یہ حدیث منکر ہے۔ہم اسے اسی سند سے جانتے ہیں اور میں نے محمد (امام بخاری) سے سنا کہ عنبسہ بن عبد الرحمن ضعیف اور ذاہب الحدیث ہے اور محمد بن زاذان منکر الحدیث ہے۔
گویا امام ترمذی نے بھی اسے منکر قرار دیا ہے۔ شیخ زبیر علی زئی حفظہ اللہ نے اس روایت کو ضعیف کہا ہے (انوار الصحیفہ، ضعیف سنن ترمذی ،٢٦٩٩)
شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو (ضعیف الجامع:٣٣٧٣،٣٣٧٤)میں موضوع کہا ہے۔
دوسری روایت :" من بدأ بالكلام قبل السلام ؛ فلا تجيبوه "ترجمہ : جو بغیر سلام کے بات کرے اس کا جواب نہ دو۔
٭ابوحاتم نے اس روایت کو " العلل " ( 2 / 294 / 2390 ) باطل قرار دیا ہے ۔
٭ابوزرعہ نے " العلل " " ( 2 / 332 / 2517 )میں اس حدیث کی کوئی اصل تسلیم نہیں کی ہے ۔
٭ہیثمی نے "المجمع " ( 8 / 32 ) میں کہا کہ اس کی سند میں هارون بن محمد أبو الطيب نامی راوی کذاب ہے ۔
گویا یہ حدیث بھی ضعیف ہے اور اس سے بھی استدلال نہیں کیا جائے گا۔ اگر صحیح بھی مان لیتے ہیں جیساکہ شیخ البانی نے اسے حسن قرار دیا ہے ، پھر بھی فون اٹھاتے وقت ہیلو یا مرحبا وغیرہ کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ یہ مثل دروازہ کھٹکھٹانے اور اجازت طلب کرنے کے ہے ۔ یہی موقف شیخ البانی رحمہ اللہ کا ہے جبکہ ان کے سامنے یہ حدیث تھی پھر بھی وہ معنی نہیں لیتے جو سلام سے ابتداء کرنے والے لوگ لیتے ہیں ۔
فون رسیو کرنے والا کیا کہے اس سے متعلق شیخ محمد ناصر الدین البانی رحمہ اللہ کا ایک واقعہ یہاں ذکر کرنا مفید ہوگا جسے شیخ صالح بن طہ ابوسلام نے اپنی کتاب المانع الجمیل(1/16-17) میں ذکر فرمایا ہے ۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ شیخ البانی رحمہ اللہ نے ٹیلیفون سے مجھ سے رابطہ قائم کیا اور میں موجود نہیں تھا تو میری چھوٹی بیٹی نے ٹیلیفون کا ریسیوراٹھاتے ہی کہا " السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ" ۔شیخ نے میرے متعلق استفسار کیا پھر اس بچی سے کہا کہ اپنے والد کو خبر دینا کہ محمد ناصرالدین البانی نے فون کیا تھا۔اورانہوں نے اپنے لئے شیخ کالفظ استعمال نہیں کیا یہ ان کا تواضع تھا ، اللہ تعالی جنت میں ان کے درجات کو بلند فرمائے ۔
جب میں گھر لوٹا تو میری بچی نے خبر دیکہ ایک آدمی نے فون کیا تھا ان کا نام محمد ناصرالدین البانی ہے، میں نے فورا شیخ کو فون لگایا تو شیخ جو چاہ رہے تھے مجھ سے پوچھنا اس کے متعلق مجھ سے کہا: اے ابو سلام! جب میں نے آپ سے اتصال کیا تو آپ کی چھوٹی بیٹی نے فون اٹھایا اور کہا : السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ کیا یہ عمل علم ویقین کے ساتھ ہے یا بچی کی طرف سے ذاتی تصرف ہے ؟، اے ابوسلام ہم اس معاملہ میں استفادہ چاہتے ہیں ۔
یہ بات بھی شیخ رحمہ اللہ کے تواضع اور دعوت کی حکمت میں سے ہے ۔
میں شیخ سے کہا : یہ بچی کی طرف سے پہلی بار تصرف ہوا ہے اور جہاں تک اس مسئلہ میں مجھے معلوم ہے وہ یہ کہ ٹیلیفون کا ریسیور اٹھانے والا "نعم" کہے ۔ اور جس نے فون کیا ہے وہ اس سے سلام کرے تب وہ فون کرنے والےکو سلام کا جواب لوٹائے ، نہ یہ کہ (فون اٹھانے والا) سلام سے ابتداء کرے ۔
شیخ رحمہ اللہ نے جواب دیا کہ یہی صحیح ہے جو میں جانتا ہوں، اس لئے کہ فون کرنے والا اس شخص کی طرح ہے جو دروازہ کھٹکھٹاکر(اجازت) طلب کرتا ہے،دونوں میں کوئی فرق نہیں ہے ۔

 

Maqbool Ahmed
About the Author: Maqbool Ahmed Read More Articles by Maqbool Ahmed: 320 Articles with 350670 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.