کسی وقت میں ایک بھارتی گانامشہور ہوا تھا’’رانا جی معاف
کرنا غلطی مارے سے ہوگئی ‘‘ کل رات جب چھوٹے میاں صاحب کی اطلاع آئی تو اس
کا لوکل ورژن کچھ یوں بنتا ہے میاں جی مورے معاف کرنا غلطی رانے سے ہوگئی ۔
سماء ٹی وی کو رانا مشہود کے انٹرویو میں دانستہ یا نادانستہ چھوٹے میاں کو
پھنسا کر جیل پہنچا دیا کہاکہ اسٹیبلشمنٹ سے معاملات ٹھیک ہوچکے ہیں شہبا ز
شریف نے اہم کردار اد ا کیا۔ ان کے وزیر اعظم نہ بننے پر مقتدر قوتوں کو
بڑا افسوس ہے ۔ بے توقع انٹرویو بے وقت کی راگنی خاموش طاقتوں نے نیب کی
ڈوریاں ہلائیں اور گرفتاری عمل میں آگئی ۔ سیف الرحمن سے جاوید اقبال تک
نیب ہمیشہ کیس کے بجائے Faceدیکھتا رہا ہے ۔ عقل کے اندھے بھی یہ سمجھتے
ہیں کہ پاکستان میں اصل طاقت اور اقتدار کس کے پاس ہے ۔ کون ہے جو اداروں
کو مہروں کے طور پر استعمال کرتا ہے ۔ کون ہے جو حکومتیں گراتا اور بناتا
ہے لیکن نیب جیسے اداروں کو اپنے مقاصد کے لیے بنانا استعمال کرنا اورلوگوں
کا استعمال ہونا خطرناک کھیل ہے ۔اور اب یہ کھیل ختم ہونا چاہئے ۔ مقدمات
اگر PTIکے علیم خان ، بابر اعوان یا زلفی بخاری وغیرہ پر ہوں تو چھوٹ ہی
چھوٹ ہے ۔ مشرف پر ہوں تو منتیں کی جاتی ہیں کہ حضور آجائیں نہ آپ کو پکڑا
جائے گا نہ آپ کو ستایا جائے گالیکن اگر PMLNکا یاPPPکا ہو تو دائیں دکھا
کر بائیں ماری جاتی ہے ۔ پانامہ میں پھنسایا ، اقامہ میں نکالا ، صاف پانی
میں بلایا اور آشیانہ میں پکڑا ۔ اگر تو تبدیلی والوں کو لانے کا مقصد
مخالفین کو جیلوں ڈال کر جیلیں بھرنا تھا تو پھر تو حکومت جس ایجنڈے پر جو
لایا ہے اس پر بھرپور عمل کررہی ہے ۔ وگرنہ تبدیلی کے ایک ماہ میں بجلی ،
گیس، پٹرول اور کھانے پینے کی تمام اشیاء ہوش ربا حد تک مہنگی نہ ہوتیں۔
ٹیکس عوام دیں ، چندہ عوام دیں، مہنگے بل عوام اد اکریں بدلے میں اس کیلئے
روٹی تک نہیں ۔ اوپر سے یہ ڈرامہ خزانہ خالی ہے ۔ یہ تو ہر حکومت کہتی آئی
ہے جب ان کو پتہ تھا کہ خزانے میں کچھ نہیں تو انہوں نے سبزباغ کیوں دکھائے
۔ قبضہ گروپ کے خلاف کارروائی جاری ہے اور علیم خان حکومت میں شامل ہے ۔
انصاف کا بول بالا ہے رضوان گوندل کو سرعام دھمکایا اور ڈرایا جاتا ہے ۔
کسی وزیر کا بیٹا گاڑی میں مشکوک حالت میں پایا جاتا ہے تو کوئی فواد
چوہدری او رشیخ رشید جیسے وزیر اپوزیشن میں بھی بدتمیز تھے حکومت میں بھی
بدتمیز ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ فواد چوہدری نے کہا ڈاکو کو ڈاکو نہ کہوں تو
کیا کہوں تو وزیر صاحب بدتمیز کو بدتمیز نہ کہوں تو کیا ہوں ۔ اچھا قائد
بدترین ٹیم سلیکٹ کرکے ناکام ہوجاتا ہے اور عوام کے خواب ایک ایک کرکے چکنا
چور ہوررہے ہیں۔ کیونکہ اس حکومت کو عوام کی فلاح و بہبود کیلئے لایا گیا۔
لانے والے اپنے اہداف پورے کرنے کیلئے لائے ۔ بیساکھیوں پہ کھڑی اسمبلیاں
طاقتور قوتوں کو ذرا سی آنکھیں دکھائیں گی ۔ ویسے ہی ادھر سے اُدھر ہو
جائیں گی ۔ قارئین محترم چلیں سیاست کے گندے اور انتقامی کھیل سے خود کو
الگ کرکے اپنے حصے کا ایک ایسا دیا جلاتے ہیں جو ان کو روشنی فراہم کرے گا۔
جو ظاہری طور پر نظر نہیں رکھتے 15اکتوبر کا دن دنیا بھر کے لوگ بے بصر
افراد کے ساتھ اظہار یکجہتی کرتے ہوئے وائٹ کین ڈے کے طور پر مناتے ہیں ۔
انگلینڈ کے شہر برسٹل سے تعلق رکھنے والے فوٹو گرافر جیمز بگز 1921ء میں جب
ایک حادثے میں نابینا ہوئے تو انہوں نے سفید چھڑی کا استعمال شروع کردیا۔
آج دنیا بھر کے کئی کروڑ افراد اسے بطور سہارا استعمال کرتے ہیں ۔ وطن عزیز
میں جہاں بڑی بڑی تنظیمیں حکومت اور میڈیا تعلیمی ایمرجنسی کے راگ الاپتا
ہے وہیں اس حقیقت سے مجرمانہ صرف نظر کرجاتا ہے کہ ملک کے 70فیصد نابینا
اَن پڑھ ہیں۔ نابینا افراد کے والدین ان کے اولین دشمن بن کر انہیں تعلیم
سے دور رکھتے ہیں ۔ تعلیم سے دوری کے باعث عقل و شعور معاشرتی ترقی میں
کردار، نوکری ، شادی غرض سب کچھ ایک خواب بن جاتا ہے ۔ میرے اختیار میں
ہوتو میں اسمبلیوں سے قانون پاس کرواؤں کہ نابینا لوگوں کو نہ پڑھانا قابل
سزا جرم قرار دیا جائے اورUCلیول پر ایک نمائندہ مقرر کیا جائے جو اپنی
UCسے نابینا لوگوں کو قریب کے سکولوں تک پہنچائے لیکن میں کوئی وسیم اختر
نہیں کہ اقتدار یا اختیار کا رونا روکر ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھ جاؤں ۔ آپ
قارئین میرے رضاکار بن کر تحریک مجھے سب دکھتا ہے میں شامل ہوں ۔ آئیں جہاد
اور صدقہء جاریہ سمجھ کر نابینا لوگوں کو تلاش کرتے ہیں گھروں سے نکالت ہیں
۔ سکولوں میں پہنچاتے ہیںَ لڑنے دیں نیب نیازی کو نواز ، زرداری سے 70سال
سے لڑاؤ اور راج کرو کی پالیسی جاری ہے ۔ یہ ختم نہیں ہوگی لیکن اس کا یہ
مطلب نہیں کہ آگہی او ربیداری کیلئے ہم اپنے اپنے حصے کی شمع بھی نہ جلائیں
۔ میری دست بستہ اپیل ہے کہ اس تحریک کا حصہ بننے سے پہلے کچھ ضروری کام
ہیں جو آپ نے کرنے ہیں ۔ خود سے پکا وعدہ کریں کہ کبھی کسی نابینا کو حافظ
جی، اندھا، محتاج،بیچارہ، شودھا نہیں کہیں گے اور یہ کہ انہیں چند سکے تھما
کر ہمیشہ کیلئے گدا گری پر لگانے سے اجتناب کریں گے ۔ ان کی چھڑی کو اپنی
تیز رفتاری کے باعث کچلنے کے بجائے انہیں روڈ کراس کروائیں گے اور انہیں
گھر بٹھانے کے بجائے قریبی ادارے میں پہنچائیں گے پڑھائیں گے۔ اگر آپ اﷲ کی
ر ضا کیلئے خود سے یہ عہد کر سکتے ہیں اور اسے نبھا بھی سکتے ہیں تو ہماری
تحریک آپ کو خوش آمدید کہتی ہے۔ پھر آپ آگہی کے آسمان پر ایک ستارے کی
مانند چمکیں گے۔ آپ کی روشنی انشاء اﷲ ء جہالت کے اندھیرے مٹائے گی پھر
اقبال عظیم ، شیخ اقبال، فاطمہ شاہ ، حافظ نسیم الدین ، شاہد صدیقی ، یوسف
سلیم، صائمہ عمار جیسے چہرے نئے ناموں سے سامنے آئیں گے ۔ پھر نابینا حسان
بن ثابت ؓکی طرح عشقِ رسولؐ میں شعر بھی لکھیں گے اُم مکتومؓ کی طرح دربار
رسالت سے فیضان بھی پائیں گے احمد یاسین کی طرح اسرائیل کو نکیل بھی ڈالیں
گے ۔طٰہٰ حسین کی طرح تعلیمی اصلاحات بھی دیں گے ۔ مگر یہ سب تب ممکن ہے جب
والدین انہیں بے کار سمجھ کر گھرنہ بٹھائیں بلکہ سکول پہنچائیں۔مجھے نہیں
لگتا کہ 15اکتوبر کو نابینا افراد کیلئے کوئی ریلیف پیکیج آنے والا ہے یا
حکومت کوئی مثبت اعلان کرے گی۔ لیکن آپ میرے ساتھ مل کر اس 15اکتوبر کو ایک
بہت بڑی ملک گیر تحریک کا آغاز کریں گے جو گلی گلی، نگر نگر گاؤں ، قصبوں،
شہروں، ایوانوں ، حکمرانوں تک یہ پیغام پہنچائے گی کہ پاکستان کے نابینا یک
زبان ہو کر یہ کہہ رہے ہیں ہمیں اندھا کہنے والو! اپنی عقل کا علاج کرو تم
عقل کے اندھے ہو شعور نہیں رکھتے ورنہ حقیقت یہ ہے کہ مجھے سب دکھتا ہے۔
سانچ کو نہیں آنچ سو یہ ہے وہ اکتوبر کا کڑوا سچ۔ |