مسائل حل ،نئے صوبوں کا قیام

نئے صوبوں کا قیام وقت کی ضرورت ہے۔والیان ریاست کا اس امر سے صرف نظر کرنا درست نہیں ہوگا۔ریاست کے پھیلاوں اور آبادی میں اضافے کے باعث حالات اس امر کے متقاضی ہیں کہ نیا بندوست کیا جائے اور جغرافیائی حد بندیوں پر بھی نظر ثانی کی جائے۔نظام کو یوں کا توں چلانے کی کوشش کرنا عقل مندی کے زمرے میں نہیں آتا ہے۔جب ریاست نئے بندوبست سے پہلوتہی برتتی ہے۔خرابیو ں پر لیپا پوتی کرتی ہے تو اس سے افراتفری اور تشد د جنم لیتا ہے۔ریاستی باشند ے ریاست پر اعتماد کر نا چھوڑ دیتے ہیں۔جس کے نتائج دہشت گردی کی صورت میں برآمد ہوتے ہیں اور دشمن قوتوں کو اپنے مذموم مقاصد کیلئے ریاست کے اندر سے تعاون میسر آتا ہے۔پھر وفاق کمزور ہوتا چلا جاتا ہے۔ایسی تحریکیں ابھرتی ہیں ۔جنہیں ریاست غداری کا لیبل لگا کر بزور قوت دبانے کی کوشش کرتی ہے۔لیکن ناکام رہتی ہے۔موجودہ حالات کا اگر دیانت داری سے جائزہ لیا جائے تو ہم مندرجہ بالا صورتحال میں پھنس چکے ہیں۔اس صورتحال سے نکلنے کیلئے نرگسی نعرے اور خطاب کام نہیں آتے ہیں۔نرگسی بیانیہ بھی ایسی صورتحال میں فعل ہوجاتا ہے۔ایسی صورتحال سے نکلنے کیلئے ٹھوس منصوبہ بندی کی ضرورت ہوتی ہے جو زمینی حقائق کو مد نظر رکھ کر کی جائے ۔جس میں بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ ممکن بنایا جا سکے ۔ملکی وسائل اور مسائل کو دیکھتے ہوئے انتظامی یونٹس کی تشکیل کی جائے۔وفاق پاکستان کو ڈویژن کی سطح پر چھوٹے چھوٹے صوبائی یونٹوں میں تقسیم کردیا جائے تو پہلے مرحلے میں مسائل کا بوجھ انتہائی درجے میں کم ہوجائے گا۔قومی اسمبلی کو محدود چند ممبران تک رکھنے کی بجائے توسیع دیکر آٹھ سو سے زیادہ ممبران کی اسمبلی بنانے کی ضرورت ہے تاکہ حقیقی طور پر عوامی اسمبلی بن پائے اور عوام کی اکثریت کو حق نمائندگی ملے اور قانون سازی کے عمل میں عوام کی اکثریت شامل ہو۔چندلوگ کروڑوں عوام کے مقدر کا فیصلہ کرنے پر قادر نہ ہوں۔انتظامی یونٹس کی تشکیل سے سیاسی اجارہ ی ختم ہونگی اور زیادہ سے زیادہ لوگ کاروبار مملکت چلانے میں ممدومعاون ہوں گے۔ریاست اور حکمرانوں کو مطالبات دبانے کی بجائے ۔مطالبات کو سننے کی ضرورت ہے تاکہ مسائل کا پائیدار حل نکل سکے اور صوبوں کی مانگ کرنے والی تحریکیں حکومت کے ساتھ تعاون کریں۔حکومت کو اس وقت استحکام کیلئے عوامی حمایت کی اشد ضرورت بھی ہے۔۔دوسری طرف نئے صوبوں کے مطالبوں میں تیزی کا عنصر نظر آرہا ہے۔ نئے صوبوں کے قیام کیلئے تحریکیں ایکدوسرے کے قریب آرہی ہیں اور ملکر جدوجہد کرنے کیلئے اتحاد بھی بن رہا ہے۔گزشتہ دنوں اسلام آباد میں تحریک صوبہ پوٹھوہارکے زیر اہتمام صوبوں کی مانگ کرنے والی تحریکوں اور پارٹیوں کی آل پارٹیز کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا۔جس میں سرائیکی بیلٹ کی تنظیموں ،تحریک صوبہ ہزراہ،فاٹاسمیت دیگر گروپوں نے شرکت کی اور بھرپور طریقے سے نئے صوبوں کا مطالبہ کیا اور اس عزم کا اظہار کیا کہ نئے صوبوں کے قیام تک جدوجہد جاری رہے گی۔اس موقع پر تمام تحریکوں نے متفقہ طور پر ایک مشترکہ فورم صوبے بناو اتحادبنانے کا فیصلہ کیا گیا۔باہمی مشاورت سے صوبے بناؤ اتحاد کا تحریک صوبہ ہزارہ کے سربراہ بابا حیدر زمان کو سر پرست اعلیٰ اور تحریک صوبہ پوٹھوہار کے قائد راجہ اعجاز کو چیئرمین چنا گیا۔ تحریک صوبہ ہزراہ کے جنرل سیکرٹری سلطان العارفین جدون کو صوبے بناؤ اتحاد کا صدر جبکہ تحریک صوبہ پوٹھوہار کے چیف آرگنائزر اور ترجمان ارشد سلہری کو صوبے بناؤ اتحاد کا نائب صدر اور سرائیکستان ڈیموکرٹیک پارٹی کے عبدالباری جعفری کو جنرل سکرٹری چنا گیا ۔صوبے بناؤ اتحاد میں مہاجر اتحاد تحریک،جنوبی سندھ صوبہ محاذ نے بھی شمولیت پر آمادگی ظاہر کی ہے۔نئے صوبوں کے مطالبات آئینی ہیں ۔روز بروز مطالبات میں شدت آرہی ہے۔سرائیکی عوام میں یہ بات سرایت کرچکی ہے کہ وہ تحت لاہور کے قیدی ہیں۔اس صورتحال اور عوامی جذبات کو ریاست کو سنجیدگی کے ساتھ لینے کی ضرورت ہے۔جیسا کہ اوپر ی سطروں میں کہا گیا ہے کہ حالات اب اس نہج پر پہنچ چکے ہیں کہ ریاست کو نئے صوبے بنانا ہوں گے ۔اس کے سوا کوئی دوسرا آپشن نہیں ہے۔مسائل کے گرداب سے نکلنے کا آسان اور سہل راستہ ہے ۔ریاست اور حکمرانوں کو یمن اور دیگر ممالک کے حالات کو دیکھ کر ہوش مندی کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے ۔

Arshad Sulahri
About the Author: Arshad Sulahri Read More Articles by Arshad Sulahri: 139 Articles with 91809 views I am Human Rights Activist ,writer,Journalist , columnist ,unionist ,Songwriter .Author .. View More