اسی اور نوے کی دہائی میں پاکستانی ڈرامہ اپنے عروج پر
تھا جسکی گواہی آج بھی اردو شناس دنیا کے دوسرے ممالک بھی دیتے آرہے ہیں ۔
لکھنے والے اپنے لہو کو سیاہی بنا کر لکھا کرتے تھے ۔کردار ایسے ادا کئے
جاتے تھے جیسے لکھنے والے نے انکی اصل زندگی کیلئے لکھے ہوں۔محترم
عبدالقادر جونیجو صاحب کے نام سے کون واقف نہیں ، آپکی ادبی خدمات کے
اعتراف میں حکومت پاکستان نے مختلف اعلی ایوارڈز سے نوازا۔جونیجو صاحب نے
اس دور میں اپنی نوعیت کا ایک اچھوتا مزاحیہ ڈرامہ چھوٹی سی دنیا پیش کیا
جو کہ اس زمانے کہ مقبول ترین ڈراموں میں سے ایک ہے ،جس کا تذکرہ کرتے ہوئے
آج بھی چہروں پر مسکراہٹ خود بخود نمودار ہو جاتی ہے( ایسی ہر یاد بہت خاص
ہوتی ہے جسکے آتے ہی زیر لب مسکراہٹ خود ہی آجائے )۔ چھوٹی سی دنیا مختصر
دورانئے کا ڈرامہ تھا اور تقریباً سارا گھر ایک ساتھ بیٹھ کر دیکھا کرتا
تھایہ بھی اس دور کے ڈراموں کی ایک اہم بات ہے۔ آج کے دور میں ایسے مزاحیہ
ڈراموں کو کو سٹکام کہا جاتا ہے جوکہ انگریزی زبان کا ایک اور لفظ اردو میں
بطور گھس بیٹھئے شامل ہو چکا ہے، یہ لفظ انگریزی کے دو الفاظ سچویشن (صورتحال)
اور کامیڈی (مزاح) پر مشتمل ہے ۔ سٹکام کی اور بھی وضاحتیں ہیں لیکن انہیں
رہنے دیجئے ، بس ان سے لطف اندور ہوتے رہئے۔ ایک اہم بات اس ڈرامے کے حوالے
سے اگاہ کرتا چلوں کہ اس ڈرامے پربرلن کی یونیورسٹی (جرمنی) کی ڈاکٹر ہیلن
باسونے تحقیقی مقالہ بھی لکھا ہے۔ ڈرامے کی اس قدر و منزلت کا سہرا قابل
احترام عبدلقادر جونیجو صاحب کو جاتا ہے۔ڈرامے کی اہمیت کا اندازہ قارئین
کو ہوجانا چاہئے۔
مذکورہ ڈرامے کے تقریباً تمام ہی کردار بہت نمایاں تھے اور ہر کردار کیلئے
منوانے کیلئے بہت کچھ تھا لیکن ڈرامے کو انفرادیت دلانے والے دو کردار تھے
ایک کردارمراد علی کا ہے جسے یوسف علی صاحب نے نبھایا تھا مراد علی ایک
پڑھے لکھے اور سمجھدار نوجوان تھا جبکہ دوسرا کردار جس نے اس ڈرامے کو
بلندیوں پر پہنچایا وہ تھا جانو جرمن ، اس کردار کو نبھانے والے افتاب عالم
صاحب تھے۔
چھوٹی سی دنیا ، اپنے عنوان کی عکاس ایک چھوٹے سے گاؤں پر مشتمل تھی جہاں
لوگ بڑوں کی عزت کرتے تھے اور ایک دوسرے کا خیال رکھتے تھے اور اس گاؤں میں
رہنے والوں کی پوری دنیا وہی گاؤں تھا۔ مختصراً یہ کہ گاؤں والے مراد علی
کے علم کو پرکھنے کیلئے انگریزی بولنے کا مقابلہ رکھتے ہیں اور مقابلے
کیلئے جانو جرمن نامی کردار مد مقابل ہوتا ہے جوکہ تعلیم یافتہ ہونے کا
ڈھونگ کر رہا ہوتا ہے ۔جانو جرمن نے پورے گاؤں کے سادہ لوح لوگوں کو بیوقوف
بنایا ہوتا ہے۔ مقابلہ طے پاجاتا ہے ، تیاریاں پورے زوروشور سے شروع ہوجاتی
ہیں اور پورے گاؤں میں اس مقابلے کا شور مچ جاتا ہے۔ مقابلے کا دن اور وقت
آجاتا ہے ۔مراد علی جو انگریزی زبان پر عبور رکھتاہے ، مقابلے کا آغاز کرتا
ہے اور انگریزی زبان میں گفتگو شروع کرتا ہے جس میں جگ گلا س وغیرہ جیسے
الفاظ اور وہاں موجود بزرگوں کے نام بھی لیتا ہے۔ اب جناب جانو جرمن کی
باری آتی ہے (جسکا گرویدہ پورا گاؤں ہوتا ہے ) جانو جرمن اے بی سی پڑھنا
شروع کردیتا ہے جس میں کوئی ایسا لفظ شامل نہیں تھا جو کہ وہاں موجود مجمعے
میں بیٹھے شخص کو سمجھ آتا ۔ مجمع انپڑھ تھا جانو جرمن کی انگریزی کسی کی
سمجھ میں نا آئی اور جانو جرمن انگریزی دان یعنی مقابلے کا فاتح قراد دے
دیا گیا اورمراد علی جو کہ ایک پڑھا لکھا شخص تھا انتہائی مہارت کیساتھ
شکست سے دوچار ہوا۔ جہالت پر کھڑے معاشرے میں کسی قسم کی بے ایمانی کی اپیل
بھی نہیں کی جاسکتی تھی بس ہار تو بس ہار۔
جولائی میں ہونے والے نویں عام انتخابات کے نتیجے میں پاکستان تحریک انصاف
پہلی بار اقتدارمیں آئی ، پاکستان تحریک انصاف نے نا صرف وفاق بلکہ صوبہ
پنجاب ، صوبہ خیبر پختونخوا اور بلوچستا ن میں بھی مخلوط حکومتیں بنائیں ۔
ان انتخابات سے قبل پاکستان تحریک انصاف نے اپنے سربراہ عمران خان کی قیادت
میں اس وقت کی حکمران جماعت کیخلاف بھرپور مہم چلائے رکھی اس مہم کے نتیجے
میں ناصرف میاں نواز شریف سے جوکہ پاکستان کے تین دفعہ وزیر اعظم بننے کا
اعزاز رکھتے ہیں نااہل قرار پائے(بد قسمتی سے میاں صاحب ایک دفعہ بھی معینہ
میعاد پوری کر پائے)۔ وجوہات جو منظر عام پر ہیں وہ ہر خاص و عام سے پوشیدہ
نہیں ، اورکسی کے کہنے سے صحیح کو غلط نہیں کہاجاسکتا اور ناہی غلط کوصحیح
کہا جا سکتا ہے۔ یہ تحریک بدعنوانی کیخلاف تھی جس کی گواہی پانامہ پیپر کی
اشاعت کے بعد اور زور پکڑتی چلی گئی۔ عمران خان صاحب کی چلائی جانے والی
تحریک جس میں ڈی چوک پر دیا جانے والا ایک تاریخی دھرنا بھی شامل ہے ، میاں
صاحب کی نظر میں کسی اور کی جانب سے انکے خلاف ہونا تھا اور اس بات کا
تذکرہ وہ اپنے ہر بیان میں کرتے ہیں لیکن ابھی تک وہ وضاحت نہیں کرپائے ہیں
کہ انکے خلاف چلائے جانے والی تحریک کی پشت پناہی کون کر تا رہا ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کا بنیادی منشور ملک میں انصاف کی بحالی اور ظاہری و
باطنی بد عنوانی کا ہر جگہ سے خاتمہ ہے ،جسکے لئے انہوں نے اقتدار میں آتے
ہی اقدامات کرنے شروع کر دئے ۔ ان اقدامات کی نوعیت بہت ثقیل ہیں۔سر سبز
اور صاف ستھرا پاکستان اور ہرا بھرا پاکستان یہ ان چند اقدامات میں سے ایک
ہیں جن پر اب سے پہلے کبھی سوچا تک نہیں گیا۔ پھر ڈیم کے حوالے سے چیف جسٹس
صاحب کیساتھ مل کر ہنگامی بنیادوں پر کام کا ہونا، گھروں کے حوالے سے
پروگرام کا افتتاح ۔ درحقیقت یہ وہ کام ہیں جو اگر پہلے کرلئے ہوتے تو
حالات اتنے بدتر نہیں ہوتے اور سب سے بڑھ کر لوگوں کو ان کی اہمیت کا کچھ
نا کچھ تو اندازہ ہوتا۔ تعلیم کو کبھی بھی عام نہیں ہونے دیا گیا اور مخصوص
مقاصد کے حصول کیلئے عوام میں شعور بیدار نا کرنے کیلئے تعلیم عام نہیں کی
گئی۔ جس کا منہ بولتا ثبوت یہی ہے کہ قانون کی بالادستی کو چلنج کیا جا رہا
ہے اداروں کو اپنے مخصوص عزائم کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے ، وہ لوگ جنہوں
نے شائد اعلی ڈگریاں بھی حاصل کر رکھی ہیں ایسے ہی لوگوں کی حمایت میں کھڑے
ہورہے ہیں ، مفت کتابیں بھی بانٹی گئیں ، لیپ ٹاپ بھی بانٹے گئے اور یہاں
تک کے طالب علموں کو وظیفے بھی دیئے جا تے رہے ہیں۔کیا یہ وہ سارے کام نہیں
ہیں جن سے معیشت کو شدید نقصان پہنچا ہے یعنی آپ نے اقتدار کو اپنی سیاسی
مہم چلانے کیلئے استعمال کیا ہے ، اگر یہی پیسہ لوگوں کو روزگار کیلئے دیا
جاتا اور انہیں اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کی کوشش کی جاتی تو آج قوم سڑکوں
پر اور حکمران سرحدوں پر بھیک نا مانگ رہے ہوتے ۔ آج اپنے پیروں پر کھڑے
ہونے کیلئے ضروری ہے کہ کچھ کڑوے گھونٹ پی لئے جائیں ورنہ ابھی نہیں تو
کبھی نہیں۔ لیکن لمحہ فکریہ تو یہ ہے کہ ضمنی انتخابات میں پھر عوام نے
اپنی لاعلمی کا مظاہرہ کیا ہے ۔ مضمون کا اختتام میں محترم عبدالقادر
جونیجو صاحب کی بصیر ت کو سلام پیش کرتے ہوئے کرونگا کہ انہوں نے کس
خوبصورتی سے قوم کا المیہ بیان کیا ہے ۔آخر ہم کب تک مراد علی اور جانو
جرمن کے درمیان فرق نہیں کرسکیں گے۔ شائد ہم سب ہی جانو جرمن کے علم کو
ماننے والے ہیں۔
ایک اور بات جو وضاحب طلب ہے کہ ہم لوگوں کے مفادات پاکستان سے جڑے ہوئے
ہیں ناکہ کسی کسیاسی جماعت سے اور نا ہی کسی ادارے سے۔ پاکستان کیلئے
جوکوئی بھی کام کرے گا ہم اس کا ساتھ دینے کی ہر ممکن کوشش کرینگے۔ انشاء
اللہ |