مشرق میں بھارت آئے روز چھیڑ چھاڑ کر رہا ہے اور اب مغرب
میں بھی ایسی کوشش ہونے لگی ہے۔ پاکستان نے افغانستان سے ملنے والی سرحد
ڈیورنڈ لائن کی تاربندی کا کام جوں ہی تیز کیا، افغانستان نے رکاوٹیں ڈالنا
شروع کر دیں۔بلوچستان کی سرحدوں پر پاک فورسز کو تاربندی سے روکا جارہا
ہے۔پاک فورسز پر فائرنگبھی کی گئی۔پاکستان نے فائرنگ اور جوابی کارروائی کے
بعد چمن میں دوستی گیٹ بند کیا ۔چمن کے عوام نے بھی فائرنگ کرنے پر افغان
فورسز کے خلاف احتجاج کیا۔گیٹ بند ہونے سے درماندہ مسافروں کی سہولیت کے
لئے آسانی کی گئی اور گیٹ عارضی طور پر کھولا گیا۔ جسے بعد ازاں کراسنگ کے
لئے بند کیا گیا۔ سرحد پر تابندی کا مقصد سمگلرز اور دہشتگردوں کو پاکستان
میں داخل ہونے سے روکنا ہے۔ 2400کلومیٹر سرحد کی نگرانی کرنا آسان کام نہیں۔
آرمی چیف جنرل قمر جاوید باوجوہ نے کئی بار افغانستان میں چھپے دہشت گردوں
کے بارے میں نیٹو اور افغان حکومت کو آگاہ کیا۔ افغانستان میں ریسولوٹ
سپورٹ مشن کے کمانڈر ز کو بھی آگاہ کیا گیا۔ انہیں بتایا گیا کہ کس طرح
دہشت گرد پاکستان میں دہشگردی کے بعد افغانستان میں چھپ جاتے ہیں۔ انہیں
افغانستان سے ہی ہدایات ملتی ہیں۔ افغانستان میں بھارت سمیت پاکستان دشمن
طاقتوں کے اڈے قائم ہو رہے ہیں۔ وہ پاکستان میں امن کو تباہ کرنا چاہتی ہیں۔
پاکستان کو عدم استحکام کا شکار بنانا ان کا مشن ہے۔ دہشت گردی کی کئی
وارداتوں کی ذمہ داری بھی پاکستان دشمن دہشت گردوں کے سربراہ قبول کر رہے
ہیں۔ جماعت الاحرار بھی ان میں سے ایک ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کے
حوالے سے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا ہے۔ کیوں کہ یہ ہمارا دوست، پڑوسی اور
برادر اسلامی ملک ہے۔
وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے اسی وجہ سے پہلے غیر ملکی دورہ کے لئے
افغانستان کا انتخاب کیا۔ یہ پاکستان کا افغانستان کو امن و دوستی میں
تعاون کا پیغام تھا۔ پاکستان چاہتا ہے کہ افغانستان ترقی کرے، افغان عوام
امن اور سکون سے زندگی بسر کریں۔ پاکستان اور افغانستان میں دوستانہ اور
برادرانہ تعلقات ہوں۔ آپسی تجارت میں اضافہ ہو، ایک دوسرے کی سرزمین دونوں
ممالک کی تعمیر وترقی اور تعاون کے لئے استعمال ہو۔ جو افغانستان کا دشمن
ہے ، وہ پاکستان کا بھی دشمن ہے۔ افغانستان بھی پاکستان کے دشمن کو اپنا
دشمن سمجھے۔ کیوں کہ دونوں ممالک کے عوام ایک دوسرے کے ساتھ والہانہ جذباتی
و نظریاتی تعلق رکھتے ہیں۔ سرحدی علاقوں میں ہی نہیں بلکہ دونوں ممالک کے
شہروں اور دیہات میں بھی رشتہ داریاں قائم ہیں۔ پہلے سرحدیں کھلی تھیں۔ جس
سے دونوں اطراف کے عوام فائدہ اٹھا رہے تھے۔ اب ایک بار پھر دہشت گردی اور
دہشت گردوں کو آزادانہ طور پر سرحدیں عبور کرنے سے روکنے کے لئے چمن سرحد
بند کی گئی ہے۔ تاربندی کی جا رہی ہے۔ افغان حکومت کو بھی اس بارے میں
اعتماد میں لیا گیا۔عوام کی یہ شکایت رہی ہے کہ پاکستان سے مال افغانستان
سمگل ہونے سے ملک میں اس کی قلت پیدا ہو جاتی ہے۔ قیمتیں بڑھ جاتی ہیں۔ اب
سرحد بند ہوئی ہے تو اشیاء کی قیمتیں کم ہوسکتی ہیں۔ تا ہم یہ درست نہیں کہ
ہمارے دوست بھائی یہاں کی مصنوعات سے محروم رہیں۔ مگر اس کے لئے امن ضروری
ہے۔ افغان اپنی سر زمین پاکستان دشمنوں کو استعمال نہ کرنے دیں۔ بھارت اور
اس کی ایجنسیاں افغانستان میں سرگرم ہیں۔ عرصہ سے وہ افغانوں کو پاکستان کے
خلاف مشتعل کر رہی ہیں۔ پاکستان نے درجنوں دہشت گردوں کی فہرست افغانستان
کو فراہم کی ہے، جو پاکستان میں دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ ان کی دہشت گردی
کے ٹھوس شواہد بھی موجود ہیں۔
افغانستان میں دہشت گردی کو منصوبہ بندی، ہدایات، ٹریننگ، اسلحہ، مالی
معاوت کی سہولیات فراہم ہو رہی ہیں۔ دہشت گردی کے اس نیٹ ورک کو مسلسل
گزارشات کے باوجود افغان حکومت نے نہیں توڑا۔ جس پر پاکستان کو مجبور ہو کر
کارروائی کرنا پڑی ۔تاربندی کا فیصلہ کرنا پڑا۔ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان
کی سالمیت اور اس کی سرحدوں کا احترام کیا ہے۔ کابل حکومت کے ساتھ تعاون کا
یہ پاکستانی جذبہ شروع سے موجود ہے۔ گزشتہ سارل کے اوائل میں سر حد پار
دہشت گردوں کے ٹھکانوں پر حملے یا سرجیکل سٹرائیکس افغان حکومت کے تعاون سے
کئے گئے۔ کابل حکومت کو اعتماد میں لیا گیا۔ کیوں کہ ان حملوں کو جواز بنا
کر بھارت ہر وقت آزاد کشمیر میں جارحیت کے لئے تیار رہتا ہے۔ ایٹمی طاقت
پاکستان کس طرح بھارتی جارحیت یا دہشتگرد کیمپوں کی آڑ میں نام نہاد حملوں
پر خاموش رہ سکتا ہے۔ کوئی ملک اپنی سرحدوں یا اپنے زیر انٹظام علاقے کی
سالمیت کی خلاف ورزی کی اجازت نہیں دے سکتا۔ گزشتہ برسوں میں پاک فوج نے
ملک میں ہونے والی دہشت گردی کے بعد اسلام آباد میں افغان سفارتکاروں کو جی
ایچ کیو طلب کیا تھا۔ ان سے اٖفغان میں پناہ لینے والے دہشت گردوں کے خلاف
فوری کارروائی کا مطالبہ کیا گیا۔ جس کا کوئی مثبت جواب نہ مل سکا۔ انہیں
پاکستان کے حوالے کرنے پر بھی غور نہ کیا گیا۔لاہور کے چیئرنگ کراس میں
ہونے والے خود کش حملے کا حملہ آور افغان تھا۔ جس کا ثبوت بھی افغانستان کو
فراہم کیا گیا ۔ پاکستان میں کئی دھماکوں کے تانے بانے افغانستان سیملے۔
پاکستان گرم تعاقب کرنا چاہتا تھا۔ مگر ایسا نہ کیااور سرحد بند کرنے کے
آپشن کو زیر غور لایا گیا۔ افغانستان کو پاکستان کے ساتھ تاربندی میں تعاون
کرنا چاہیئے تا کہ دونوں ممالک دہشتگردی سے محفوظ رہیں۔اسی طرح دونوں ممالک
مل کر دہشت گردی کے خلاف آپریشن اور تمام شعبوں میں تعاون کو فروغ دے کر
پاک افغان دوستی اور بھائی چارہ میں دراڑیں ڈالنے کے خواہش مند طاقتوں کے
منصوبے ناکام بنا سکتے ہیں۔ |