خوفزدہ رہنما اور عوام

سابقہ گورنر پنجاب سلمان تاثیر کو ان کے محافظ کی جانب سے قتل کئے جانے کے بعد ایک عجیب طرح کی خوف و ہراس کی فضاء ہے جس نے ہماری سیاسی رہنماﺅں خصوصاً حکومتی زعماء کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ حالانکہ بقول ممتاز قادری، اس نے سابق گورنر پنجاب کو ناموس رسالت ایکٹ کو نعوذ باللہ ”کالا قانون“ کہنے اور توہین رسالت کی مرتکب عیسائی خاتون کے حق میں ماورائے عدالت بیان بازی اور مدد کے ”جرم“ میں مارا ہے لیکن اس ایک ”سبق آموز“ قتل سے ہمارے بہادر اور جری صدر اور حکومت کے دوسرے اعلیٰ عہدیداروں کی راتوں کی نیندیں اڑ گئی ہیں۔ باوثوق ذرائع اور میڈیا رپورٹس کے مطابق صدر زرداری کے لئے ان کے مشیران کے مشوروں کے مطابق روزانہ ایک کالے بکرے کا صدقہ دیا جانے لگا ہے، ان کی صحت کو مزید افزا کرنے کے لئے اونٹنی کا دودھ پلایا جاتا ہے جس کے لئے ایوان صدر میں اونٹنی بھی مہیا کردی گئی ہے اور وہ اپنی صحت کو قائم و دائم رکھنے کے لئے دوبارہ سے گھڑ سواری بھی شروع کرچکے ہیں جس کے لئے ایوان صدر میں ایک عارضی ٹریک بھی بنا لیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ محترمہ کے پہلے دور حکومت میں بھی صدر زرداری نے گھڑ سواری اور پولو کے شوق کی وجہ سے وزیر اعظم ہاﺅس میں باقاعدہ ”گھوڑا فارم“ بھی قائم کیا تھا جو بعد ازاں ان کے خلاف الزامات اور کیسز کا باعث بھی بنا تھا۔ ذرائع کے مطابق صدر زرداری کی ذاتی حفاظت کے لئے عنقریب امریکہ سے سپیشل سکیورٹی گارڈ لائے جائیں گے جبکہ وزیر اعظم، گورنروں، وزرائے اعلیٰ اور وفاقی وزراء کے لئے بھی غیر ملکی محافظوں کو منگوانے کا پروگرام بڑی شد و مد سے شروع کیا جاچکا ہے۔ دوسری طرف ممتاز قادری کی جانب سے گورنر کے قتل کی وجہ ایلیٹ فورس کے کمانڈو اہلکار بھی فائدہ اٹھانے کے چکروں میں ہیں اور چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ کی سکیورٹی پر مامور ایلیٹ فورس کے دستہ کے اٹھارہ اہلکاروں نے چوبیس گھنٹے ڈیوٹی دینے سے انکار کردیا ہے اور مطالبہ کیا ہے کہ یا تو ان کی ڈیوٹی بارہ گھنٹے کی جائے یا انہیں وی آئی پی سکیورٹی ڈیوٹی سے ہٹا دیا جائے، چنانچہ ان اٹھارہ اہلکاروں کو چف جسٹس کے سکیورٹی دستہ سے ہٹا کر فی الفور تبادلہ کردیا گیا ہے تاکہ وہ اپنے ”انسانی حقوق“کا ”وائرس“ مزید اہلکاروں تک نہ پھیلا سکیں، اس وقت تک جب تک اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے لئے بھی غیر ملکی گارڈز کا ”آرڈر“ نہ دے دیا جائے....!

اس وقت ملک میں امن و مان کی عمومی حالت ایسی ہے کہ ہر لمحہ ایک دھڑکا لگا رہتا ہے کہ پتہ نہیں کس وقت کیا ہو جائے، کس جگہ بم دھماکہ ہوجائے یا فائرنگ شروع ہوجائے، بچوں کو سکول بھیجتے ہوئے ڈر لگتا ہے، مائیں سارا سارا دن اپنے پیاروں کی راہ تکتی رہتی ہیں اور دل ہی دل میں پڑھ کر اندازے سے بچوں پر پھونکیں مارتی رہتی ہیں، بیویاں اپنے سہاگ کی اور بیٹیاں اپنے باپ کی زندگی لئے ہمہ وقت دعاﺅں میں مصروف ہوتی ہیں، کام پر نکلتے وقت کسی کو بھی یقین نہیں ہوتا کہ وہ کس حالت میں واپس گھر پہنچے گا، اب تو صورتحال یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ زندہ تو بے چینی و بے سکونی کا شکار ہیں ہی لیکن اب قبروں کے باسی اور شہر خموشاں کے رہائشی بھی محفوظ نہیں ہیں، تازہ ترین خبروں کے مطابق قصور میں ایک ہی رات میں قبروں میں قیامت تک کے لئے محو آرام پانچ لوگوں کو ”چوری“ کر لیا گیا لیکن اس کے باوجود ایک بے حسی، گہری بے حسی کی چادر ہے جو عوام الناس کے دلوں اور دماغوں پر چھائی ہوئی ہے کہ حکومت اور مختلف قسم کے سیاسی، لسانی، مذہبی قبضہ گروپوں کے آئے روز کے ظلموں کے خلاف کسی قسم کی آواز بلند نہیں کرتے۔ کراچی میں روزانہ درجنوں افراد ”بے گناہی“ اور ”ضعیفی“ کے جرم میں موت کے گھاٹ اتار دئے جاتے ہیں، بندوق کی نوک پر مال و اسباب اور عزتوں تک سے ہاتھ دھونے پڑتے ہیں لیکن ایک چپ کا روزہ ہے جس پوری قوم نے رکھا ہوا ہے، نہ جانے کب افطاری کا وقت ہوگا، مایوسی کے بادل چھٹیں گے اور قوم کو ایسا رہبر و رہنما میسر آئے گا جو اس قوم کی ڈوبتی کشتی کو پار لگانے کی ہمت اور حوصلہ رکھتا ہوگا اور عوام کو اپنے ساتھ ملا کر ایسا کچھ کرے گا کہ ہچکولے کھاتی ناﺅ پار لگے گی۔ مجموعی طور پر ایک خوف کی فضاء ہے جس میں عوام و خواص مبتلا ہیں۔

مہنگائی روز بروز اس طرح بڑھ رہی ہے کہ اس معاملہ میں نہ تو حکومت کا کوئی وجود نظر آتا ہے نہ اپوزیشن کا اور نہ ہی کنزیومرز اس معاملہ کو کسی بھی سطح تک اٹھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ اگر پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں بڑھائی جاتی ہیں تو روپوں کے حساب سے اور اگر کبھی قسمت کی خوبی سے قیمتیں کم کرنی پڑ جائیں تو چند پیسے کم کی جاتی ہیں، صرف حالیہ کمی کو چھوڑ دیا جائے تو سابقہ تاریخ بہرحال یہی بتلاتی ہے جبکہ پٹرولیم قیمتوں میں حالیہ کمی بھی خوشی کے ساتھ نہیں بلکہ ان سیاسی جماعتوں کے انگوٹھا گردن پر رکھنے کی وجہ سے کی گئی کیونکہ حکومت کو اپنا وجود خطرے میں پڑتا نظر آرہا تھا۔ سمجھدار لوگ بخوبی سمجھتے ہیں کہ انگوٹھا رکھنے والوں کے اصل عزائم کیا ہیں کیونکہ اگر عوام کی بھلائی ان کا مقصود ہوتی تو اور بھی بہت سے ایسے مسائل اور معاملات ہیں جن پر حکومت کو ”دھمکیاں“ دے کر اور ”دھونس“ سے سمجھایا جانا چاہئے۔ کیا دونوں جماعتوں کو کراچی کے دگرگوں حالات نظر نہیں آتے؟ کیا ڈرون حملے ان کی نگاہوں سے اوجھل ہیں؟ کیا مہنگائی کی وجہ سے لوگوں کی خودکشیاں میڈیا پر جگہ نہیں پاتیں؟ کیا لوگ مجبور ہوکر اپنے جگر گوشوں کو بیچ نہیں دیتے؟ کیا نچلی سطح کی عدالتوں کے حالات ان پر آشکارا نہیں؟

اگر عوام صرف مہنگائی کی وجہ سے ہی سڑکوں پر نکل آئیں اور اس کے خلاف صحیح اور ٹھیک احتجاج کریں تو حکومت تو کیا اپوزیشن بھی دم دبا کر یہاں سے بھاگ جائے کیونکہ سب کو معلوم ہے کہ اپنی باریوں کا انتظار کیا جارہا ہے، اقتدار کی میوزیکل چیئر کے مزے لئے جارہے ہیں۔ پاکستان کے عوام کے لئے تیونس کے عوام ایک روشن مثال ہیں، میں یہ نہیں کہتا کہ ملک میں ابتری، فتنہ و فساد پھیلے لیکن اس ملک کے عوام خودکشیوں پر مجبور ہوتے رہے، اپنے لخت ہائے جگر کو بیچنے پر مجبور ہوتے رہے، اگر ان کے ساتھ ایسا ہی ہوتا رہا کہ نہ وہ گھر میں محفوظ نہ گھر سے باہر، نہ ان کی جانیں محفوظ نہ عزتیں، چھوٹے ڈاکو انفرادی ڈکیتی کرتے رہے اور بڑے ڈاکو انہیں آئی ایم ایف اور ورلڈ بنک کو بیچنے کے ساتھ اپنی تجوریوں کو بھی بھرتے رہے اور اقتدار کے مزے بھی لوٹتے رہے تو وہ دن دور نہیں جب یہاں بھی کوئی پگڑی اور شملے والا، ٹوپی اور داڑھی والا، سید زادہ یا پیر، ان کے عتاب سے بچ سکے، وہ دن دور نہیں جب رحمٰن ملک بھی سڑک پر لیٹا ہوگا اور زرداری بھی، گیلانی بھی اور ”شریف“ بھی، یہی چوک ہوں گے، یہی شاہراہیں ہوں گی جو دو دو تین تین گھنٹے ”شاہی سواری“ کے گزرنے کی وجہ سے عوام کے لئے بند کردی جاتی ہیں۔ انہی چوراہوں اور شاہراہوں پر عوام اپنے جوتوں سے ان کی مرمت کر رہے ہوں گے اور یقین کریں اس وقت امریکہ کی بجائے اگر مریخ کی مخلوق بھی ان کی حفاظت کر رہی ہوگی تو وہ بے دست و پا ہوگی، عوام کے بدلے کی آگ سے انہیں بچا نہیں سکے گی....!
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 207306 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.