توہین عوام

توہین عوام کو سب سے بڑی توہین قراردینا چاہیے مگر بدقسمتی سے اس توہین کوکسی کھاتے میں نہیں رکھا جاتا۔ریاست کے تمام ادارے ،محکمے صر ف اور صرف عوام کی فلاح بہبود کے لیے بنائے جاتے ہیں۔ان کے قیادم کے دوسرے تمام مقاصد ثانوی قسم کے ہوتے ہیں۔عوام کی آسانی کے لیے ۔اس کے تحفظ کے لیے۔ادارے اپنے مقاصد کے لیے سرگرم رہتے ہیں۔جب بھی کبھی مفاد عامہ کی با ت آتی ہے۔یہ ادارے اسے سب سے مقدم جانتے ہیں۔مفاد عامہ کے مخالف کوئی پالیسی نہیں بنائی جاتی اور نہ ہی کوئی فیصلہ کیا جاتاہے۔عجب بات ہے ہمارے ہاں یہ رجحان دم توڑ رہاہے۔مفاد عامہ کو بدتدریج سائیڈ لائن کیا جارہاہے۔عوام کو ریاست کا سب سے اہم جز ہونے کے باوجود قرارواقعی مقام پانے میں ناکام ہوتی چلی جارہی ہے۔ ادارے بنائے تو اس کے تحفظ کے لیے تھے اب اسے ہراساں کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ اس کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کے خیال سے بنائے گئے تھے مگر اس کے لیے نت نئی مشکلات کھڑی کررہے ہیں۔عام آدمی کی جان ،مال ،اور عزت کی رکھوالی کے لیے بنائے گئے ادارے اس کی جان لے رہے ہیں۔ اس کا مال غصب کررہے ہیں اس کی عزت اتاررہے ہیں۔اداروں میں بیٹھے لوگوں کی عزت تو اتنی اہم ہوگئی کہ ان کی توہین پر برسوں کی سز اور لاکھوں کا جرمانہ روا ہو۔جب کہ جس عوام کے لیے یہ ادارے بنے اس کی بے عزتی روز کا معمول ہے۔توہین عوام کا یہ سلسلہ خطرناک ہے۔اس سے ریاست کے قیام کابنیادی مقصد ہی فوت ہو رہا ہے۔جب عوام کو ہی دیوار سے لگنا ہے توپھر کیا آزادی او رکیا غلامی۔پاکستانی عوام کومسلسل توہین سے گزرنا پڑرہاہے۔

ضمنی الیکشن کے نتائج ملے جلے ہیں۔ تحریک انصاف کو معقول نشستیں ضرور ملی ہیں۔مگر اپوزیشن کی طرف سے زیادہ اچھی کارکردگی خطرے کی گھنٹی سمجھنا چاہیے۔ جس طرح وزیراعظم عمران خاں کی چھوڑی چار میں سے دو سیٹیں اپوزیشن لے اڑی وہ لمحہ فکریہ ہے۔ایک نشست ایم ایم اے کے حصے آئی۔دوسری پر مسلم لیگ (ن)نے ہاتھ صاف کیے۔یہی نہیں اٹک اور فیصل آباد کی نشستوں پر حکومتی پارٹی کی شکست بھی چونکا رہی ہے۔فیصل آبا د سے حکومتی امیدوار کی شکست بالکل غیر متوقع ہے۔وزیر اعظم کی طرف سے وہ پچاس لاکھ گھربنانے کے لیے جو پروگرام دیا گیا ہے۔پنجاب میں سے چنا جانے والا واحد شہر فیصل آباد ہے۔اتنا بڑاپروجیکٹ جانے کیوں کر کیش نہیں کروایا جاسکا۔یہ فیصل آباد کی لوکل قیاد ت کی ایک بڑی ناکامی ہے ۔حکومت میں ہونے کے باوجود یہ لوگ ایک سیٹ نہیں جیت پائے۔خیبر پختونخوہ میں بھی اپوزیشن کو توقع سے زیادہ نشستیں حاصل ہوئی۔پشاور میں جہاں تحریک انصاف نے کلین سویپ کیا تھا۔یہاں سے اے این پی سیٹ لے اڑی۔مسلم لیگ او رایم ایم اے کو بھی اس صوبے سے نشست جیتنے کا موقع ملا۔لاہور کی دو قومی او ردو صوبائی سیٹوں میں سے تین نشستیں مسلم لیگ(ن) کی چھوڑی ہوئی تھیں۔تحریک انصا ف ان نشستوں کو چھیننے کی بجائے اپنی چھوڑی نشست بھی گنوا بیٹھی۔سب سے اہم نکتہ پنجاب اسمبلی کی گیارہ میں سے چھ نشستوں پر مسلم لیگ(ن) کی کامیابی ہے۔دو نشستیں بھی حکومت مخالف امیدوار ان جیت گئے۔گیارہ میں سے صرف تین نشستوں پر تحریک انصاف کی کامیابی کسی طور تسلی بخش قرار نہیں دی جاسکتی۔

ضمنی الیکشن میں جنرل الیکشن سے متضا دنتائج آنا کئی سوال کھڑے کررہاہے۔ابھی جنرل الیکشن کو گزرے اڑھائی ماہ ہی ہوئے ہیں۔پھر یہ تضا دکس سبب ہوا؟ کیا اتنی جلدی حکومت پر سے اعتماداٹھ گیایا پھر اپوزیشن کا جنرل الیکشن میں دھاندلی ہونے کاالزام درست سمجھا جائیت ہوا۔الیکشن کے فوراًبعد سے اپوزیشن متفقہ طورپر دھاندلی کا الزام لگارہی ہے حیران کن طور پر حکومت کا حصہ بنی کچھ جماعتیں بھی دھاندلی کا واویلہ مچارہی ہیں۔ گرینڈ الائینس، متحدہ اور فنکشنل لیگ نے جنرل الیکشن میں بے پناہ قسم کی دھاندلی کا گلہ کیا ہے۔دھاندلی کے خلا ف اپوزیشن ایک کمیشن بنانے کا مطالبہ کیا تھا۔جسے اول اول حکومت ٹالٹی رہی مگر اب یہ کمیشن قائم ہوچکا۔جلد ہی یہ باقاعدہ اپنا کام شروع کردے گا۔اپوزیشن کاموقف ہے کہ شام چھ بجے تک حالات نارمل تھے۔فوج کی نگرانی میں الیکشن بڑے پرامن ماحول میں ہوئے۔کہیں سے بھی زبردستی ووٹ ڈالنے یا رکوانے کا واقعہ پیش نہیں آیا ۔اصل ہاتھ چھ بجے کے بعد دکھایا گیا۔گنتی کے دوران کچھ جماعتوں کے پولینگ ایجنٹوں کو باہر نکال دیا گیا۔کچھ امیواروں کو نتائج الیکشن کمیشن کی طرف سے فراہم کیے گئے فارم کی بجائے سادا کاغذ پر لکھ کر دیے گئے۔ چھ بجے کے بعد دھاندلی کاایک نان اسٹاپ دور چلا جو موجودہ نتائج کا باعث بنا۔

سب سے بڑا الزام آر ٹی ایس کے جان بوجھ کر خراب کیے جانے کا ہے۔اپوزیشن سمجھتی ہے کہ اس نظام کو جان بوجھ کر خراب کیا گیا۔یہ سسٹم بند کروانے کے لیے ایک طرف سے فون آیا۔اسی نظام کے ذریعے ہر پولنگ سٹیشن سے نتائج اپ لوڈ ہونا تھا۔اسی سسٹم کے ذریعے اس سسٹم سے جڑ ے لوگ نتائج ایک دوسرے سے شئیر کرتے ۔مینوئلی ریزلٹ مرتب کرنے کی ممانعت کے سبب اس سسٹم کی بحالی کا انتظار کیا گیا۔گھنٹوںیہ نظام خراب رکھے جانے کے دوران ہی دھاندلی کی گئی۔اسی دوران فیصلہ ہواکہ کس کو جتانا ہے۔اور کسی کی ناکامی کا اعلان کیا جاتاہے۔اسی دوران ہی ہارنے والوں اور جیتنے والوں کو حاصل ووٹوں کا تناسب طے ہوا۔سسٹم کی بندش سے ادنی درجے کے تما م پولنگ افیسران اندھے بہرے سے تھے۔چند لوگوں کے سوا کسی کو پتہ نہ چلی کہ کیا گیم ڈالی جارہی ہے۔آرٹی اسی کی بندش کامعاملہ مذید یوں الجھاکہ حکومت پہلے پہلے اس سسٹم میں کسی قسم کی خرابی سے انکاری رہی۔ کہیں بعد میں جاکر اقرارکیا گیا۔خرابی کی تحقیق اس کے بعد ہی شروع کی جاسکی۔خبروں کے مطابق جس کال کے آنے پر یہ سسٹم بند ہوا۔اسے محفوظ کرلیا گیا ہے۔عنقریب فرانزک ٹیسٹ کی رپورٹ آنے کے بعد اصل ذمہ دار سامنے آجائے گا۔
عوامی مینڈیٹ کو توڑنا مروڑنا نئی بات نہیں۔ہر الیکشن بعد میں دھاندلی زدہ قرارپاتاہے۔جیتنے والے جشن مناتے ہیں۔ہارنے والے بجائے زیادتی پر کچھ زور آزمائی کے صبر شکر کا راستہ چنتے ہیں۔دھاندلی کرنے والے ہر اگلے الیکشن میں پچھلے الیکشن سے زیادہ شہہ پاتے ہیں۔عوام کی آواز ہمیشہ دبا دی گئی۔اس کی رائے کو ہمیشہ مروڑ دیا گیا۔ہمیشہ وہ ہوا جو عام آدمی نہیں چاہتا۔ہمیشہ اس کی چاہت کا گلہ گھونٹا گیا۔اس کے لیے طرح طرح کی فریب کاریاں اور رنگ بازیاں کی گئی۔بے ایمانوں ۔مکاروں اور شیطانوں کی پوری فوج اس توہین عوام کے لیے متحرک رہتی ہے۔اس کی مرضی سے آنے والے کو روکا جاتاہے۔ کوئی حکومت میں آبھی جائے تو اس کے ہاتھ پاؤں باندھ کے اس کے شرسے بچا جاتاہے۔جب عوام کی رائے اور مرضی مقدم نہیں تو باقی سب بے کارہے۔کیا یہ توہین عوام نہیں ہے کہ جن لوگ سے عوام نفرت کرے۔انہیں بے ایمانی اور ہیرا پھیر ی سے مسلط کردیا جائے؟ قدم قدم پر عوام کو توہین سے گزرنا پڑتاہے۔ہر ادارے کی طرف سے اداروں میں بیٹھے نام نہاد خادمین کی طرف سے۔توہین عوام کا بڑھتا رجحان ریاست کی بقا پر سوالیہ نشان کھڑا کررہا ہے۔

Amjad Siddique
About the Author: Amjad Siddique Read More Articles by Amjad Siddique: 222 Articles with 123829 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.