بطور وزیر اعظم عمران خان کی پہلی بار کراچی آمد اور گورنر ہاؤس میں خطاب

بطور وزیر اعظم پاکستان عمران خان کی پہلی بار کراچی آمد اور گورنر ہاؤس میں خطاب کی سب سے بڑی خبر جو بنی وہ یہ ہے کہ پاکستان میں پیدا ہونیوالے بنگالیوں اور افغانیوں کو شناختی کارڈ اور پاسپورٹ دینے کا اعلان؟ اور اس اعلان کی تشریح اس طرح کی کہ اگر امریکہ میں پیدا ہونے پر وہاں کی قومیت ملتی ہے تو 40برس سے یہاں رہنے والے کیوں محروم رہیں؟میں اس موقع پر محترم وزیر اعظم پاکستان عمران خان کو چند لمحوں کے لئے ماضی میں لے جانا چاہوں گا1947 میں متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں مشرقی و مغربی پاکستان میں 22لاکھ سے زائد جانی قربانیاں دے کر حاصل کیا تھا۔ قیام پاکستان میں مشرقی پاکستان کے صوبہ بہار کے مسلمانوں نے بے شمار جانی قربانیاں دیں ان کی قربانیوں کو دیکھتے ہوئے قائد اعظم محمد علی جناح نے ایک موقع پر کہا کہ "صوبہ بہار" کے مسلمانوں کی قربانیوں نے پاکستان کی بنیاد رکھی ہے" 1971 کی پاک بھارت جنگ میں صوبہ بہار کے مسلمانوں جنہیں حرف عام میں بہاری کہا جاتا ہے پاکستانی فوج کے شانہ بشانہ نہ صرف بھارتی فوج کا بلکہ پاکستان کے غدار اور بنگلہ دیش کے حامی بنگالیوں اور مکتی باہنی غنڈوں کا بھی نہایت دلیری اور جرائتمندی سے مقابلہ کیا اس طرح اس بہاری پاکستانی قوم نے پاکستان کے لئے 2 بار قربانیاں دے کر پاکستان کے قیام اور اس کے دفاع کے حوالے سے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے خود کو تاریخ پاکستان میں امر کر لیا تھا ۔ لیکن اس بہادر قوم کی تیسری اور سب سے بڑی قربانی کی تاریخ 47 برسوں پر محیط اور انتہائی دل خراش و طویل ہے دفاع پاکستان کی جنگ لڑتے لڑتے یہ بہاری قوم بھی اپنی پاک فوج کے ساتھ ساتھ محصور ہو گئی فرق صرف اتنا تھا کہ پاک فوج بھارتی جیلوں میں اور بہاری قوم بنگلہ دیش کے مہاجر کیمپوں میں محصور کر دی گئی۔ وقت کے ساتھ ساتھ پاک فوج کے فوجی جوان تو پاکستان آ گئے لیکن پاکستان کے لئے 2 بار قربانیاں دینے والے تقریباً ڈھائی لاکھ مسلمان پاکستانی بہاری گزشتہ 47برسوں سے 6x8 کے دربہ نما کیمپ کی کھولیوں میں پاکستانی پرچم اور پاکستان کی یاد کو سینے سے لگائے اس آس ، اس امید پر آج بھی زندہ ہیں کہ انہیں ان ہی کی سرزمین پاکستان پر جلد از جلد بلایا جائیگا ۔ وطن کی محبت میں سر شار ان محب وطن بہاریوں نے حکومت بنگلہ دیش کی جانب سے بنگلہ دیشی شہریت کی پیش کش کو کئی بار ٹھکرا کر پاکستانی پرچم اور اپنی پاکستانی شناخت کو مقدم رکھا ۔ حب الوطنی کی ایسی مثال بلاشبہ اس دور میں اس دنیا نے دوسری نہ دیکھی ہے اور نہ سنی ہے۔ مگر افسوس پاکستان کی بقاء کی جنگ لڑنے والے ان محب وطن پاکستانیوں کو یکسر فراموش کر دیا گیا جنہیں 1971 میں سقوط ڈھاکہ کے نتیجے میں ریڈ کراس کے غلیظ کیمپوں میں دھکیل دیا گیا تھابنگلہ دیش میں محصور اپنے وطن جانے کی آس میں جینے والے ان سچے پاکستانیوں کو ہمیشہ اندھیرے میں رکھا گیا۔ انہیں آس اور دلاسے تو دئیے گئے لیکن کبھی ان کی پاکستان منتقلی کے حوالے سے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی گئی ان بے خانماں برباد لوگوں کو ذوالفقار علی بھٹو ، نواز شریف اور جنرل پرویز مشرف سمیت تقریباً سب ہی مقتدر قوتیں پاکستان لانا چاہتی تھیں لیکن کامیاب کوئی نہ ہو سکا گویا جھوٹ اور دھوکہ دہی کی یہ ایک طویل داستان ہے جو تاریخ کی تایکیوں میں گم ہوتی جا رہی ہے محصورین کی واپسی کے حوالے سے 16رکنی وفد نے جنرل ضیاء الحق سے ملاقات کی تو جنرل ضیاء الحق نے محصورین کی جلد از جلد واپسی کا اعلان تک کر دیا1988 میں رابطہ ٹرسٹ قائم کر کے 35 کروڈ ڈالر جمع کئے گئے لیکن نہ تو محصورین کی واپسی پر اور نہ ہی کیمپوں میں ان کی فلاح و بہبود پر ایک پیسہ بھی خرچ نہیں کیا گیا1965 میں بے نظیر بھٹو نے یقین دلایا کہ حکومت پاکستان محصورین کو وطن لائیگی بعد ازاں بے نظیر بھٹو اور بنگلہ دیش کی وزیر اعظم خالدہ ضیاء نے ایک بار پھر محصورین کی پاکستان منتقلی پر اتفاق کیالیکن نتیجہ صفر۔۔۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنے دور اقتدار میں محصورین کو لانے کی یقین دہانیاں کرائیں لیکن افسوس وہی ہوا جو ہر بار ہوتا رہا تھا۔ یعنی نتیجہ ایک بار پھر صفر۔۔۔ غالباً 2015 میں ڈپٹی چیئر مین سینٹ نے محصورین کی پاکستان میں آبادکاری کے مسئلہ پر اراکین سینٹ کی جانب سے بحث کے بعد معاملے کو متعلقہ کمیٹی کے سپرد کرنے کی ہدایت کی تھی اس موقع پر سینیٹر کامل علی آغا نے برملا کہا تھا کہ بنگلہ دیش میں ناکردہ گناہوں کی سزا بھگتنے والے محصورین ہم سے زیادہ پاکستانی ہیں انہیں پاکستان نہ لانے کی وجوہات ایوان کے سامنے لائی جائیں لیکن انتہائی افسوس اور بدقسمتی کی بات ہے کہ80 کی دہائی سے لیکر اب تک ایوانوں میں متعدد قراردادیں منظور ہونے کے باوجود ان محب وطن پاکستانیوں کی پاکستان منتقلی کے حوالے سے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کئے گئے لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ اس حوالے سے اعلیٰ سطحی کمیٹی بنائی جائے جو یہ طے کرے کہ ان محب وطن پاکستانیوں کو کس طرح باعزت طریقے سے پاکستان لا کر آباد کیا جائے یہ تو تھا ماضی اب حال کا بھی ذکر ہو جائے شہر کراچی خصوصاً ملک کے دیگر علاقوں میں رہائش پذیر بہاریوں کے 35-40سالہ وپرانے شناختی کارڈ بلاوجہ بلاک کر دئے گئے اور مسلسل بلاک کئے جا رہے ہیں جو کہ گھمبیر مسئلہ ہے کیونکہ والدین کے شناختی کارڈ بلاک ہونے کی صورت میں بچوں کے نہ تو برتھ سرٹیفکیٹ بن پا رہے ہیں اور نہ ہی اسکولز کالجز میں داخلے اور کمپیوٹرائزڈ نکاح نامے ، نہم دہم کے امتحانی فارم میں " ب" فارم کی پابندی سے تعلیم اور ملازمت کے حصول میں دشواریاں اور دیگر مسائل جنم لے رہے ہیں وزیر اعظم صاحب بہاریوں کی وطن آمد، میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے اور پاکستان میں بانیاں پاکستان کی موجودہ نسل کو پہلے شناختی دستاویزات اور شہریت فراہم کریں بعد میں غیرملکی افغان اور بنگالیوں کے بارے میں قومی لائحہ عمل مرتب کر کے کوئی فیصلہ کیجئے
شائد کہ تیرے دل میں اتروجائے میری بات ؟

Sharaf Uz Zaman
About the Author: Sharaf Uz Zaman Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.