تبدیلی تبدیلی تبدیلی کہاں ہے تبدیلی کیوں نظر نہیں آرہی۔
ملک کو لوٹا بھی جار ہا ہے، کرپشن بھی ہو رہی، قتل وغارت بھی ہورہی ہے ،ہماری
بچیاں بھی محفوظ نہیں ۔غریب مر بھی رہا ہے۔ڈگریاں والے خود کشیاں کر رہے
ہیں۔والدین بچوں کا پیٹ بھرنے کے لئے نہ جانے کیا کیا کر رہے ہیں۔ڈاکے راہ
زنی سب ہر طرف عام ہو گئے ہیں۔ ہم سب محفوظ نہیں رہے ۔مہنگائی اور بے
روزگاری نے ہم کو کہیں کا نہیں چھوڑا ۔ہم اپنے بچوں کا پیٹ کیسے بھریں ۔ڈاکے
ڈالیں یا خودکشیاں کریں ۔وزیر اعظم صاحب آپ پر ہم کو بہت سی امیدیں ہیں مگر
یہ نہ ہو کہ ہماری ساری امیدیں خاک میں مل جائیں۔اور ہم یہ نہ کہیں کہ آخر
یہ تبدیلی والے ہمارے ساتھ کیا کرنا چاہتے ہیں کیاپا کستانی عوام نے عمران
خان کو وزیر اعظم بنا کر جرم کیا ہے جو اس کی سزا مل رہی ہے ۔پاکستانیوں کی
ہرطرف بے قدری ہو رہی ۔اس لئے پاکستانی روپے کی قدر میں کمی حکومتی
پالیسیوں کی ناقص کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔اگر اس پر وقت سے پہلے
کنٹرول نہ کیا گیا تو پاکستان کیلئے بہت سی مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں ۔ملک
کو چلانے کے لئے بہت سا سرمایہ دارکار ہے مگر اس کو کنٹرول کرنے کی جو
پالیسیز بنائی جا رہی ہیں وہ عوام دشمن ہیں ۔حالات یہ ہو گئے ہیں کہ جن کے
گھر کا خرچہ دس ہزار تھا وہ اب بیس ہزار سے بڑھ گیا ہے اور ان پالیسیز کی
وجہ سے غریب کا چولہا بھی نہیں چلے گا سمجھ میں نہیں آتا کہ ہمارے ملک کے
اندر اتنے وسائل موجود ہونے کے باوجود ہم بے روزگاری اور مہنگائی کا شکار
کیوں ہوتے جا رہے ہیں۔بے روزگاری نے اس وقت ہمارے ملک کو گھیرا ہوا ہے اس
سے ہم بچنے کی کوشش تو کرتے ہیں مگر بچ نہیں سکتے ۔اس لئے کہ دن بدن
مہنگائی میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ گھر کو چلانے کے لئے تما م اشیاء
ضروریات اس قدر مہنگی ہو گئی ہیں کہ ان کو خریدنا اور گھر کا چولہا چلانا
بہت مشکل ہو گیا ہے ۔اس مہنگائی کو بڑھنے میں مدد کون کرتا ہے ۔آپ کو شاید
پتہ ہو مگر پھر بھی میں آپ کو بتانے اور سمجھانے کی کوشش کرتا ہوں پہلی بات
جن اداروں سے ملک کو چلانے کے لئے قرضے لیے جاتے ہیں ان کی شرائط میں ہوتا
ہے کہ بجلی مہنگی کر دو،پٹرول مہنگا کردو،فلاں چیز مہنگی کر دو۔اور ہمارے
نمائندے ایسا کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں ۔ حالانکہ ان کو یہ نہیں پتہ کہ جو
قرضہ ہم ان سے لے رہے ہیں اس پر ان کو سود بھی دے رہے ہیں۔ تو پھر ان کی
شرائط کو کیوں مانا جائے ۔دوسری بات جس ملک کو چلانے کے سود حاصل کیا جائے
وہ ملک کس طرح چل سکتا ہے ۔ آپ ہی بتائیں سود کے پیسے سے چلنے والا کاروبار
کبھی کامباب ہوا ہے ۔ آگے آپ سب جانتے ہیں کۃ کون کیا کررہا ہے اس ملک کے
ساتھ ۔تیسری بات ہمارے ملک میں وسائل کی کمی نہیں ہے اور نہ ہی ہمارے ملک
میں مہنگائی بے روزگاری کو ختم کرنے کے ذرائع میں کمی ہے ۔اگر کسی چیز میں
کمی ہے تو ہماری سوچ اور بھوک میں ، جو کبھی بدلتی ہی نہیں اور بھوک ہماری
کبھی مٹتی ہی نہیں جتنا مرضی کمیشن ہم کھا لیں ۔میری بات آپ سمجھ تو گئے
ہوں گے کہ میں آپ کو کیا سمجھانا چاہتا ہوں ۔
نئی نئی حکومت ہے نا جانے ہمارے ساتھ کیا کرے گی ۔تبدیلی کا نعرہ لگانے
والے اب کہاں ہیں جو کہتے تھے ہم پاکستان کو ترقی کی رہ پرگامزن کریں گے ہم
غریبوں کو وسائل دیں گے ۔ غریبوں کے بچے اقتدار میں آ کر ملک کو سنبھالیں
گے ۔جیسے ہی کرسی ملی سب کی ہوا نکل گئی ۔باتیں کرنے سے تبدیلی نہیں آتی اس
پر عمل کریں گے تو تبدیلی آئے گی مگر تبدیلی والوں کو کیا ڈالر کی اڈان یا
ملکی روپے کی تذلیل ان کو اس سے کچھ لینا دینا نہیں ۔جب تک ان کی پالیسیز
بنیں گی تب تک کئی غریب غربت کی وجہ سے مر جائیں گے ایسی پالیسیز بنائی
جائیں جس میں سب کو یکساں فائدے میسر ہوں لیکن جہاں تک میں جانتا ہوں۔
ہمارے ملک کے اندر اس قدرقدرتی وسائل موجود ہیں کہ اگر ہم نیک نیتی سے ان
پر کام کریں اور بے روزگاروں کو ان پر لگائیں تو ہمارے ملک سے بے روزگاری
اور مہنگائی سے جان چھوٹ سکتی ہے ۔مگر ایسا یہ لوگ کریں کیوں ۔اگر ان لوگو
ں نے غریب کو خوشحال دیکھ لیاتو ان سیاستدانوں کا کیا بنے گا جو غریب کو
دیکھنا بھی پسند نہیں کرتے ان کو تو ضرورت صرف ان کے ووٹ کی ہے ۔اور ان
خداؤں کو پوجے گا کون۔اگر یہ لوگ اپنی سوچ بدل لیں تو ہمارے ملک کا کچھ
بھلا ہو سکتا ہے ۔
بے روزگاری کو ختم کیا جاسکتا ہے اگر ہمارے حکومتی نمائدے غریب طبقہ کے
قابل اور پڑھے لکھے نوجوانوں کو وسائل میسر کریں ۔ ہمارے ملک میں ہر روز
بہت سی جابز نکلتی اور بند ہوتی ہیں ۔ غریب کا بچہ درخواست دیتا ہے اور اس
درخواست کے لئے لوگوں سے ادھار لے کر اس کی فیس ادا کرتا ہے کہ شاید اب
میری سنی جائے ۔ مگر اس کے سارے ارمان اس وقت خاک میں مل جاتے ہیں۔جب اس کو
اس قدر وسیع انتظار کی سولی چڑھا دیا جاتا ہے اور وہ انتظار کرتاکرتا اوور
ایج ہو جاتا ہے۔ پھر بھی اس امید میں کہ آج یا کل اس کو کال لیٹر موصول ہو
جائے گا ۔مگر اس کو تو صرف انتظار ہی ملتا ہے ۔اور ان پوسٹ پر وہ لوگ فائز
ہو جاتے ہیں جن کو اس جاب کی ضرورت ہی نہیں ہوتی ۔اوروہ اس قابل بھی نہیں
ہوتے۔ ان کے تو پہلے ہی حالات بادشاہوں جیسے ہوتے ہیں ۔اور ان کے رقبے
ہزاروں ایکٹرز ہوتے ہیں ۔ان کو جابز کا کیا فائدہ مگر پھر بھی ہمارے ملک کے
غریب نوجوان کے ساتھ ناانصافی ہو جاتی ہے ۔اگر ہمارے ملک کے اندر ایسا ہو
تا رہا تو غریب کو ایک دن اس ملک سے نکال دیا جائے گا۔یہ کہہ کر کہ اس کے
پاس کچھ ہے ہی نہیں جو اس ملک میں رہ سکے ۔
جس کے پاس دولت ہے وہی خدا بنا بیٹھا ہے اور جس کے پاس دولت نہیں ہے اس کی
کوئی قدرقیمت نہیں ۔ایک غریب کو اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے لئے ان
خداؤں کے لئے کیا کچھ نہیں کرنا پڑتا۔ان زمینی خداؤں کے لئے چور،ڈاکوبننا
پڑتا ہے ۔تاکہ اس کو اپنے بچوں کے لئے کھانا مل سکے ۔مگر ہم چپ ہیں اور ہم
سب کچھ دیکھ کر بھی کچھ کر نہیں سکتے ۔اس لئے کہ اگر ہم نے کچھ کہہ دیا تو
کہیں ہمارا کھاناپینا بند نہ ہوجائے ۔زمینی خداؤ اگر آپ کسی کو کچھ دے نہیں
سکتے تو کیوں غریبوں کے بچوں سے نوالہ چھینتے ہو۔کب تک ایسے کرتے رہوگے۔اور
آخر کب تک یہ ظلم ہو تا رہے گا۔
اگر حالات اس طرح ہی رہے تو بے روزگاری ،مہنگائی اور غربت میں اضافے کو
روکنا ہمارے بس سے باہر ہو جائے گا اور ہم تنگ دستی ،بے روزگاری اور غربت
میں ڈوب جائیں گے ۔جس کی وجہ سے ہمارے ملک کے حالات مزید خراب ہو جائیں گے
۔اگر حکومت نے بے روزگاری ،مہنگائی اور غربت کو کنٹرول کرنے کے لئے غریبوں
کے بارے میں کوئی اچھی حکمت عملی تیار نہ کی تو حالات کو کنٹرول کرنا مشکل
ہو جائے گا۔جب تک وسائل نچلی سطح تک منتقل نہیں کریں گے۔ ہمارا ملک ترقی
نہیں کر سکے گا۔ |