تاریخ گواہ ہے کہ اﷲ رب العزت کسی بھی انسان کو اس
وقت تک مہلت دیتا ہے جب تک وہ انسان اپنے غرور و تکبر میں حد سے تجاوز نہیں
کرتا ۔ جب اﷲ تعالیٰ کی پکڑ ہوتی ہے تو وہ مغرور کے مقدر میں ذلت و رسوائی
لکھ دیتا ہے تب شاطر ترین انسان بھی ایسی غلطیاں کرتا ہے کہ خود اپنے
اردگرد جال بنتا ہے ۔ کچھ اسی طرح میاں نواز شریف کے ساتھ بھی ہوا ۔ جلا
وطنی کاٹنے کے بعد انہیں سوچنا چاہئے تھا کہ اب اﷲ تعالیٰ نے موقع دیا ہے
تو میں اﷲ کا شکر گزار بن کر خدمت خلق سے اﷲ کو راضی کر لوں! لیکن ایسا نہ
ہوا ۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ میاں برادران جلا وطنی میں ہونے والے خسارے کو
گیارہ سو گناسود سمیت پاکستان سے وصول کرنے کے در پے ہو گئے اپنے خلاف
اٹھنے والی ہر آواز کو کبھی طاقت سے اور کبھی کردار کشی سے دبانے لگے ۔
سانحہ ماڈل ٹاؤن کو ایسا بنا دیا کہ لوگ سوچنے پر مجبور ہو گئے کہ آخر ان
لوگوں کو کیا کوئی جنات قتل کر گئے ہیں ؟ پاکستان اور بھارت جیسے ممالک میں
جھوٹ ، مکر و فریب اور دھوکہ دیہی کو سیاست کا نام دیا جاتا ہے ۔ لوگوں کو
جذباتی ، مذہبی ، لسانی اور علاقائی تعصب میں مبتلا کرنے کے علاوہ سبز باغ
دکھا کر اپنے حق میں نعرے لگوا کر اقتدار حاصل کیا جاتا ہے ۔ میاں نواز
شریف نے سب سے پہلے جو سیاسی غلطی کی وہ خیبر پختون خواہ میں اپنی حکومت کی
بجائے تحریک انصاف کو اقتدار دینا تھا ۔ اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ اس وقت
خیبر پختونخواہ میں بد امنی کا دور دورہ اور انتظامی معاملات کی شدید قلت
تھی ۔ انہوں نے سوچا ہوگا کہ تحریک انصاف اس صوبے کو سنبھالنے میں ناکام ہو
جائے گی اس طرح تحریک انصاف پر لوگ آئندہ کبھی اعتبار نہیں کریں گے ۔لیکن
سب اس کے برعکس ہوا ۔ تحریک انصاف نے خیبر پختونخواہ کے لوگوں کا ذہن سمجھ
کر اقدامات کئے ۔ بد امنی ختم کر کے انتظامی معاملات پہلے سے بہتر کرنے کے
علاوہ تعلیمی نظام ، پولیس اور عدلیہ کے نظام میں خاطر خواہ بہتری کے
اقدامات کئے ۔مذہبی حوالے سے مساجد میں سولر سسٹم ، خطیب کی تنخواہ ، صحابہ
کرامؓ کے ایام پر سرکاری چھٹی جیسی تجاویز اور اقدامات کئے ۔ اسی بنا پر
تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی ایک جماعت نے خیبر پختونخواہ میں لگاتار دو بارہ
حکومت بنائی جس کی وجہ سے تحریک انصاف کی مقبولیت میں اضافہ ہوتا گیا اور
مسلم لیگ ن میڈیا پر چلنے والی خبروں سے خوش ہوتا رہا کہ ن لیگ کی مقبولیت
میں اضافہ ہو رہا ہے ۔
دوسری بڑی سیاسی غلطی جو میاں برادران نے کی وہ یہ تھی کہ جب پیپلز پارٹی
نے اپنے دور حکومت میں اسے تجویز دی کہ نیب احتساب کے اداروں کے قوانین میں
ردو بدل کر دیا جائے لیکن میاں برادران نے یہ سوچ کر کہ ہمارے پاس اقتدار
ہمیشہ رہے گا اور کون ہے جو ہمارے خلاف کاروائی کرنے کی جرات کرے ۔ ججوں سے
ہم اپنی مرضی کے فیصلے کروانے کی طاقت رکھتے ہیں ۔ اداروں میں موجود ہمارے
تابعدار ریاست کی بجائے ہم سے وفاداری کو ترجیح دیں گے ۔ پیپلز پارٹی کی
حکومت کو انکار کر دیا اور آج دہائیاں دے رہے ہیں کہ نیب غلط ہے وغیرہ
وغیرہ تیسری بڑی سیاسی غلطی جو شریف خاندان نے کی کہ پانامہ لیکس کے بعد
بغیر مشاورت پے در پے جھوٹی صفائیاں داغ دیں ۔ مختلف بیانات کی وجہ سے با
شعور عوام سمجھ گئی کہ یہ لوگ جھوٹ بول رہے ہیں ۔ اوپر سے قطری خط نے
بدنامی میں مزید چار چاند لگا دیئے ۔ قومی اسمبلی میں میاں نواز شریف نے
اپنی کمائی کو جائز ثابت کرنے کی ناکام کوشش کی تو خورشید شاہ نے اشارہ دیا
کہ بات ایون فیلڈ اپارٹمنٹس کی تھی اب دوبئی ، جدہ اور دیگر فیکٹریوں کا
بھی ذکر آ گیا ۔ خود کو عقل قل سمجھنے والے میاں نواز شریف نے خورشید شاہ
کی بات پر غور نہ کیا اور قوم سے خطاب کرتے ہوئے آئیں ،بائیں ،شائیں کی ۔اگر
میاں نواز شریف قوم سے اس طرح خطاب کرتے کہ میں نے ، میرے خاندان نے اور
میری پارٹی نے ہمیشہ پاکستان کی ترقی ، خوشحالی اور عوام کی بہتری کیلئے دن
رات محنت کی اب پاکستان کی ترقی کے دشمن ممالک نے مجھے بدنام کرنے اور
پاکستان کی ترقی روکنے کیلئے جو پراپیگنڈا کیا ہے میں اسے مسترد کرتا ہوں ۔
میرے ملک کی عزت میرے لئے بہت معنی رکھتی ہے ۔ مجھ پر تین سو کروڑ کے اپارٹ
منٹس کا الزام لگانے والے کان کھول کر سن لیں کہ میرے پاس اﷲ کا دیا بہت
کچھ ہے جو میں سب اپنے ملک کی نیک نامی کیلئے خرچ کر دوں تب بھی اس ملک کا
احسان نہیں چکا سکتا ۔میں آج یہ اعلان کرتا ہوں کہ بغیر کسی تفصیل میں گئے
پاکستان کے سٹیٹ بنک میں تین سو کروڑ روپے جمع کروا دوں گا ۔ میری
ایمانداری کے بارے اﷲ جانتا ہے ۔ وقت ثابت کرے گا کہ ہم پاکستان کے حقیقی
خیر خواہ ہیں ۔ یہ ہوتی وہ سیاسی شعبدہ بازی جو میاں نواز شریف کو شہرت کی
بلندیوں پر لے جاتی ۔ پاکستانی عوام کی اکثریت دن رات زندہ باز کے نعرے
لگاتی پھرتی ۔ اپوزیشن عوام کو قائل کرنے میں ناکام رہتی کہ یہ پیسہ کرپشن
کا تھا ۔میڈیا پر ہر طرف نواز شریف کی شرافت کی مثالیں دی جاتیں ۔ اسی بات
پر جنرل الیکشن میں عوام نے دوبارہ میاں نواز شریف کو بھاری اکثریت سے وزیر
اعظم بنوا دینا تھا ۔اور آج بھی وزیر اعظم میاں نواز شریف ہوتے لیکن ایسا
نہ ہوا ۔اس کی بجائے انہوں نے فوج اور عدلیہ مخالف بیانیہ کو اپنایا ۔ جسے
پذیرائی نہ مل سکی کسی حد تک لوگوں کے ذہن میں یہ بات آئی کہ پاکستانی فوج
اور خفیہ ایجنسیاں دنیاکے بہترین ادارے ہونے کی وجہ سے کچھ بھی کر سکتے ہیں
لیکن عوام نے یہ تسلیم نہ کیا کہ یہ ادارے پاکستان مخالف سر گرمی میں ایک
فیصد بھی شامل ہو سکتے ہیں ۔یہ وہ بڑی سیاسی غلطیاں ہیں جن کی وجہ سے میاں
برادران اور ان کا خاندان آج مشکلات سے دو چار ہے ۔ جیسا کہ میں نے شروع
میں بیان کیا کہ جب اﷲ رسوا کرنا چاہتا ہے تو شاطر ترین انسان بھی اپنی ہی
باتوں میں پھنس جاتا ہے۔ |